شاید 2006یا 7 کی بات ہے میں ملائیشیا میں تھا اور ایک ملائیشین چائینی فرم میں کام کر رہا تھا دوستوں نے بتایا کہ ابھی کچھ دن ہوئے چند پاکستانی ادھر تھوڑی دور آکر آباد ہوئے ہیں ان سے جا کر سلام دعا کی جائے ہم چند دوست شام کو اُن کی طرف چل پڑے جن میں پشاور کے دوست آصف اکرام Ikram Asif کراچی کا الیاس چراندی (الیاس کے بعد والا نام میں نے اسے پیار سے دیا تھا کہ بہت چراند کرتا تھا ) چینوٹ کا عبدالحئی اور شاید لاہور کا عامر بٹ( Amir Buttشامل تھے خیر ہم وہاں پہنچےتو تین چار دوست ہمیں ملے جن میں ایک جو بالکل ان پڑھ نظر آرہا تھا بہت اونچی آواز میں بایتں کر رہا تھا اور ذرا ذرا سی بات پر ماما ایوب کی طرح کسی ان دیکھے عدو کے نام ایک تبرہ تول رہا تھا ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ باتوں میں پھنسا کر وہ اپنی خاض لاہوری زبان میں " جانڑاں نئیں میں اینج آیا " کہہ کر ادھوری سی چٹکی بجا کر ایک پورے پاوں اور دوسرے پاوں کے پنجے پر ٹااپئیں لگتا یکدم دروازے سے نکل گیا تو احساس ہوا کہ وہ ایک پاوں سے لنگڑاتا بھی ہے ہم اُسے جاتا دیکھتے رہ گئے نہ اُس نے بتایا کہ کدھر جا رہا ہے نہ ہم نے پوچھنا مناسب سمجھا یعنی سچ کہوں تو ہم نے اُسے زیادہ اہمیت ہی نہیں دی ،دیکھتے ہی دیکھتے کوئی بیس پچیس منٹ بعد وہ واپس آگیا تو ہاتھ میں ایک کپڑے کا تھیلا بھی لٹکائے ہوئے تھا اُس نے آتے ساتھ پانی والی بوتل اُٹھائی اور تھیلے میں سے کینو، سیب نکال نکال کر دھونے اور کاٹ کر طشتری میں سجانے لگا اور پھر تھوڑی دیر بعد طشتری ہمارے درمیان آن دھری اور اپنی روئیتی ٹیڑی زبان میں بولا ، لعُڑ شُڑو کڑو باڈشاعو (لو شروع کرو بادشاہو) ہم سب نے بہت ممنون ہو کر ایک ایک ٹکڑا سیب کا اور دو دو پھانکیں کینو کی لئیں کچھ دیر گپ لگائی مگر اس کے بعد جتنی دیر بھی بیٹھے اُس سے مرغوب نظر آتے رہے دراصل ملائیشیا میں پاکستانی فروٹ بہت مہنگا ملتا تھا اور ہم پریشان تھے کہ یہ بندہِ خدا بہت کرتا تو ہمیں ایک کپ چائے پلا دیتا ویسے ہی تکلف کیا بچارے نے اور اپنی رقم برباد کی خير ہم نے دوبارہ گپ شپ شروع کي اور سچ تو يہ ہے کہ وہ بھي اُسي نے شروع کي ہم تو مرغوب ہوئے بيٹھے رہے جس اسٹيٹ ميں ہم تھے اُس کا نام جوہر بارو تھا اس عجيب نام کے بارےميں اُن نے بتايا کہ جب ميں سنگاپور ميں اُترا تو پاکستانيوںنے کہا کہ ہم تم سے دوسو ڈالر ليں گے اور باڈر پار کروا ديں گے اور تم جوہر بارو مين داخل ہو جاو گے وہاں جا کر کام بھي کر سکو گے اور ليگل بھي ہو جاو گے پھر کيا تھا ميں نے ہامي بھر ہي اور يوں انھوں نے مجھے ہيلمٹ پہنا کر ايک موٹر سائيکل والے کے پيچھے بٹھا ديا اور کہا کہ ہيلمٹ مت اتارنا لو جي چھٹي کا ٹائم تھا اور سنگا پور ميں کام کرنے والے مليشين واپس آرہے تھے ہر طرف موٹر سائيکل ہي موٹر سائيکل تھے مجھے تو پتہ ہي نا چلا اور ميں اُدھر سے ادھر سمگل ہو گيا ادھر پہنچ کر وہ انڈين جو تھا تو ملائيشن مگر اُردو بول ليتا تھا بولا لو بھيا اُترو آگيا جوہر بارو ميں تو جي حيران رہ گيا کہ بس پندہ منٹ کے سفر کے دو سو ڈالر ميں نے کہا کہاں ہے جوہر بارو تو بولا يہي جہاں تم کھڑے ہو انچ آگيا جوہر بارو اُسن نے چٹکي بجاتے ہوئے اور ڑ کا پھر پور استعمال کرتے ہوئے اپني کہاني مکمل کي اور ہم نے اُس کانام ہي جوہڑ باڑو رکھ ديا خير ہم گپ شپ لگ کر اپنے ہاسٹل آگئے اور ہمارے ہيے فروٹ لانے پر اُس کي شاہ خرچيوں کے بہت دن تک ہمارے درمياں چرچے رہے پھر ايک دن مين اور الياس چراندي کسي کام سے مارکيٹ جارہے تھے تو اليا س نے ميرے پہلو ميں کہني گھسيڑتے ہوئے مجھے متوجہ کرنے کي کوشش کي اور جواباً مين نے "کيا ہے بے "کہتے ہوئے اُسے کمر پر ايک دھپ رسيد کي اور وہ اپني گجراتي زبان ميں ايک گالي ديتا ہوا بولا " ابے خان ديکھ ديکھ اُس مادر چو،،،، کو اسے سالے نے اُس دن ہميں بھي يہي فروٹ کھلائے تھے " ميں نے کارخانوں کے آگے بنے برآمدے ميں ديکھا تو جوہڑ باڑوفللیٹس اور کارخانوں کے آگے بنے تھڑوں پر دھرے چائينيزکے بڑی توند والے اور لمبی داڑھی مونچ والے بھگوانوں کو چڑھاوے کے طور پر پيش کئيے گئے فروٹ اُٹھا اُٹھا کر اپنے کپڑے کے تھيلے ميں ڈال رہا تھا۔ لاہور میں کھوتوں کی مانگ اور چائینا کو سمگل کی کوشش میں پکڑی جانے والی کھوتا کھالوں کی المناک خبریں سُن سُن کر جب میں سوچتا ہوںکہ یہ پاکستانی اور چائینی سی پیک پاٹنر شپ جانے معاشرے سے کس کس اقدار کا خاتمہ کرے گی تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے یاجوج ماجوج اپنی آہنی دیوار کو چاٹ کر گرم پانیوں کے علاقے میں پہنچ چکی ہےمیں گھبرا کرنعرہ لگاتا ہوں اوئے جوڑ باڑو آ گیا جے! اور میرے بچے خیرانی سے مجھے تکتے ہیں کہ ابا کو بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا۔
“