زندگی زمین پر جڑ پکڑ چکی تھی اور پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔ یہ این ایروبک مائیکروب تھے۔ تین ارب سال پہلے ان میں سے سائنوبیکٹیریا نکلے۔ ان کی توانائی کا ذریعہ زمین کی آتش فشانی حرارت نہیں تھی۔ یہ اپنی توانائی سورج سے لیتے تھے۔ زندگی نے فوٹوسنتھیسز شروع کر دیا تھا۔ اس کے کئی قسمیں تھیں۔ ہر ایک سورج سے آنے والی مختلف ویولینتھ کو پکڑتی تھی۔ اس وقت کے ساحل اور لہریں کسی مصور کے پینٹ برش کے رنگوں کی طرح ہو گئیں تھیں۔ جامنی، سبز، سرخ۔ ان میں سائنوبیکٹیریا (بلیو گرین الجی) بھی تھے۔ ان کی خاص بات یہ نہیں تھی کہ وہ سورج سے توانائی لیتے تھے بلکہ یہ کہ یہ سورج کی روشنی کی مدد سے پانی سے الیکٹران چھیلتے تھے۔ الیکٹران کیمیائی ری ایکشن کرتے ہیں۔ کم پائی جانے والی سلفر کے بجائے سائنوبیکٹیریا اب زمین پر بہت عام پائے جانے والے مالیکیولز سے توانائی لے سکتے تھے۔ ان کی پروڈکشن اس باعث بہت زیادہ ہو گئی تھی۔
دھوپ کو مفید توانائی میں بدلنے کا عمل کلوروفل سے شروع ہوتا ہے۔ سبز رنگ کا مالیکیول جو اینٹینا کی طرح کام کرتا ہے اور آسمان سے آئی روشنی کو جذب کرتا ہے۔ اس کے بعد بائیوکیمسٹری تھوڑی پیچیدہ ہے لیکن بنیادی طور پر اس دھوپ سے کیمائی ری ایکشن ہوتا ہے۔ اور پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن میں بدل جاتا ہے۔ ان کے کچھ حصے کاربن ڈائی آکسئیڈ سے مل کر گلوکوز جیسی شوگر بنا دیتے ہیں۔
کیمسٹری کے اس جمع خرچ میں کچھ فاضل آکسیجن بچ جاتی ہے۔ آزاد آکسیجن آج تو ہمیں اچھی لگتی ہے لیکن اس وقت کی زندگی کے لئے زہریلی تھی۔ الٹراوائلٹ شعاعیں آکسیجن کے مالیکیول کو توڑ کر آزاد ریڈیکل بنا دیتی تھیں۔ یہ ڈی این اے کو چبا جاتا تھا اور پھاڑ دیتا تھا۔ آزاد آکسیجن نائیٹروجن فکس کرنے والے بیکٹیریا کے صلاحیت کو تباہ کر دیتی تھی کیونکہ یہ ان کی اس انزایم میں سے لوہے کے ایٹم کو توڑ کر ناکارہ کر دیتی تھی۔ آکسیجن اس وقت کی زمینی زندگی کی خطرناک دشمن تھی۔
ان نازک مائیکروبز کے لئے شروع میں خوش قسمتی یہ رہی کہ آکسیجن اکٹھی نہیں ہو رہی تھی۔ یہ اکثر اشیاء سے ری ایکٹ کر جاتی تھی، خواہ ہوا میں ہو یا پانی میں۔ پانی میں لوہے کے بڑی مقدار گھلی ہوئی تھی۔ اس آکسیجن نے اس لوہے کو زنگ آلود کرنا شروع کر دیا۔ زنگ کے یہ چھوٹے ذرات سمندر کی تہہ میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور ان کو سرخ کر دیا۔ یہ ہمیں آج بھی ہر قدیم سمندری تہہ میں نظر آتا ہے۔ دنیا کے نوے فیصد لوہے کے ذخائر اسی طرح کے ہیں اور یہ ان مائیکروبز کا کام ہے۔
جب تک یہ حل شدہ لوہا باقی رہا، آکسیجن نے ماحول کو آلودہ نہیں کیا۔ سال بہ سال، زمانہ بہ زمانہ، سائینوبیکٹیریا پھیلتے رہے، یہی کام کرتے رہے، لوہا ختم ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ان کیلئے معاملہ بگڑنا شروع ہو گیا۔ آزاد آکسیجن سمندر میں جمع ہونا شروع ہو گئی۔ زندگی کو مارنا شروع کر دیا۔ پھر یہ فضا میں پھیلنا شروع ہوئی۔ ان مائیکروبز کیلئے یہ زہریلے بادل تھے۔ زندگی کے لئے اتنا بڑا خطرہ اس کے علاوہ اور کبھی کوئی نہیں رہا۔ زندگی کی ہر شاخ کو موت کا سامنا تھا۔
پھر زندگی نے اس خطرے کا مقابلہ کرنا شروع کیا۔ کچھ نے باہری ممبرین بنا کر۔ کچھ نے اپنے اندر کی دیواروں میں ڈھال چڑھا کر تا کہ نائیٹروجن فکس کرنے والی انزائم کو بچایا جا سکے۔ چند ایک اور تھے جنہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ان کی خلیاتی مشینری نے اس گیس کو ہی توانائی کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس کی دھماکہ خیز طاقت کو اپنی توانائی کے لئے سدھا لیا۔ جیسے کسی پر کیمائی ہتھیاروں کا حملہ ہو اور وہ اس زہریلی گیس کو ہی کام میں لے آئے۔ ناقابلِ یقین طور پر حیرت انگیز ، لیکن یہ وہ خاص بیکٹیریا تھے جنہوں نے کمال ہی کر دیا۔
آج ہم اور زمین کی تقریبا تمام زندگی ان جراثیم کی مرہونِ منت ہے کیونکہ ان کی وجہ سے زندگی کی پیچیدگی ممکن ہوئی۔ کثیر خلوی جاندار ممکن ہوئے۔ تمام خلیوں میں چھوٹے سے مائیٹوکونڈریا پائے جاتے ہیں جو ان اچھوتے جراثیم کی وجہ سے ہیں۔ یہ مائیٹوکونڈریا آکسیجن سے توانائی ممکن بناتے ہیں۔ سکول میں پڑھا تو جاتا ہے کہ جانداروں کو آکسجن زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے لیکن عام طور پر یہ نہیں کہ کیوں۔ اس کا مختصر جوا یہ ہے کہ مائیٹروکونڈریا آکسیجن کو استعمال کر کے گلوکوز جیسے شوگر کو توڑتے ہیں۔ اس کے بغیر ان شوگرز سے بہت ہی کم توانائی نکالی جا سکتی۔ لیکن اس سے توانائی چوس جانے والے کام مائیٹوکونڈریا کا ہے جو یہ آکسیجن کی مدد سے کرتے ہیں۔ اس کے بغیر ہماری توانائی کی بیٹری ختم ہو جائے اور ہم چند سیکنڈ میں فوت ہو جائیں۔
یاد رہے کہ پودے بھی اسی طرح آکسیجن سے سانس لیتے ہیں جو ان کو بڑھنے اور افزائشِ نسل کے لئے چاہیے۔
آکسیجن نے زندگی کے علاوہ زمین کو بھی بدل دیا۔ آزاد آکسیجن نے اپنا حملہ گرین ہاوؐس گیسز پر کیا۔ میتھین جیسی گیسوں کو ختم کر دیا۔ اس سے زمین کا درجہ حرارت گر گیا۔ زمین برف سے ڈھک گئی۔ خطِ استوا پر بھی گلیشئیر آ گئے۔ زمین کی دو تہائی معدنیات وہ ہیں جو صرف آکسیجن کی موجودگی میں بن سکتی ہیں۔ ان میں کئی گوہر اور نگینے بھی تھے۔ یاقوت اور نیلم اس آکسیجن کے حملے سے بنے۔ کئی معدنیات آکسیجن کی موجودگی میں نہیں رہ سکتیں۔ یعنی ان قدیم معدنیات کو آکسیجن نے معدوم کر دیا۔ پتھر بھی اسی طرح گیسوں کی موجودگی میں پنپنے یا معدوم ہوتے ہیں۔ آکسیجن نے ان میں سے کئی کے لئے زندگی کا پیغام تھی، کئی کیلیئے موت کا۔
آج آکسیجن فضا کا اکیس فیصد ہے اور اسی سطح پر برقرار ہے۔ اس میں سے کچھ پودوں کی طرف سے آتا ہے اور کچھ مائیکروبز کی طرف سے۔ آج سے دو ارب تیس کروڑ سال پہلے جب سمندر سے لوہا ختم ہوا تھا، اس وقت آکسیجن فضا میں دس کھرب میں سے ایک مالیکیول تھا۔ اگلے چند ہی سو ملین برسوں میں یہ پانچ سو میں سے ایک مالیکیول تک پہنچ چکی تھی۔ کم مدت میں اس قدر تیزی سے اضافے نے زندگی کو قریب قریب مٹا ہی دیا تھا۔ ایک ارب اسی کروڑ سال پہلے یہ سطح ایک لیول تک آ چکی تھی جب زمین پر معدنیات نے اس کو چوسنا شروع کیا۔ اگلے ایک ارب سال تک یہ اسی سطح پر رہی جب معدنیات سیچوریٹ ہو گئے اور پھر بڑھنا شروع ہوئے۔ پودے اور جانور اس وقت فوسل ریکارڈ میں آنا شروع ہوئے۔ اس سے حاصل کردہ توانائی کی وجہ سے وہ مخلوقات، جو بھاگ سکتی تھیں، شکار کر سکتیں تھیں، جنسی طریقے سے افزائشِ نسل کر سکتی تھیں اور قتل کر سکتی تھیں۔
اس کے بعد آکسیجن کے سطح پندرہ اور پینتیس فیصد کے درمیان اوپر نیچے ہوتی رہی۔ اس کے اپنے اثرات ہوئے۔ جب یہ زیادہ تھی تو اتنی زیادہ کہ معمولی سا شعلہ بڑی آگ لگا سکتا تھا اور جب کم تو اتنی کم کہ گرتی بجلی یا آتش فشاں کے لئے بھی کچھ جلانا مشکل ہو۔ اگر آج بالفرض کوئی ٹائم مشین بنا کر وقت میں پیچھے جانا چاہے تو یہ زمین کی تاریخ کا پہلا مرحلہ ہے جب وہ ٹائم مشین سے قدم باہر نکال کر موت کا شکار نہیں ہو گا۔ سترہ فیصد آکسیجن سے کم سطح پر سوچنے کی صلاحیت متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
آکسیجن کے بڑھے ہوئے لیول سے سب سے زیادہ فائدہ حشرات نے اٹھایا۔ کیڑوں کے پھیپڑے نہیں ہوتے۔ یہ آکسیجن کو اپنے خلیوں کے مساموں کے ذریعے اندر لے کر جاتے ہیں۔ جیومیٹری سے پتہ لگتا ہے کہ ان کا سائز بڑھنے سے سطح کا رقبہ والیوم کے مقابلے میں آہستگی سے بڑھتا ہے۔ اس وجہ سے کیڑے زیادہ بڑے نہیں ہو سکتے ورنہ آکسیجن کی کمی سے مر جائیں گے۔ اسی وجہ سے آج کے کیڑے چھوٹے سائز کے ہوتے ہیں۔ جب آکسیجن کی سطح پینتیس فیصد تک پہنچ گئی تھی، اس وقت ان کے پاس بڑے ہونا آسان تھا۔ اگر ٹائم مشین میں ہمارے دوست تیس کروڑ سال پہلے جائیں تو ان کو ایک گز لمبے کنکھجورے اور کبوتر کے سائز کی مکھیاں اور ٹائر کے سائز کی مکڑیاں ملیں گی۔ یہ آکسیجن کے کارنامے تھے۔
موجودہ آکسیجن کے لیول پر ہمیں چار سینکڈ میں ایک سانس چاہیے، دن کے بیس ہزار۔ یہی آکسیجن جو آج کی تمام زندگی شئیر کرتی ہے۔ اگر پودے اور آکسجن بنانے والے بیکٹیریا اس کو بنانا چھوڑ دیں تو ایک ہزار برس میں آکسیجن پر انحصار کرنے والی تمام زندگی زمین سے ختم ہو جائے گی۔ جتنا عرصہ ان کو بننے میں لگا ہے اس کے ایک ملین حصے میں۔ لیکن جرثومے اور پودے یہ کام روز کرتے ہیں۔ زندگی کی مختلف شکلوں کے درمیان لینے اور دینے کا یہ خوبصورت توازن برقرار ہے۔ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی لے کر شوگر اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور جانور ان شوگر اور آکسجن کو لے کر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی بناتے ہیں۔
ین اور یینگ کا یہ خوبصورت توازن برقرار ہے۔ اس کیمیائی اکاوؐنٹننگ کے اس نازک توازن میں کوئی باریک بین آڈیٹر بھی غلطی نہیں نکال سکتا۔
فزکس میں آپ سمٹری اور قدرت کے خوبصورتی کا پڑھتے ہوں گے۔ لیکن آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی یہ سمٹری زیادہ متاثر کن ہے۔ کیونکہ اس کو یہاں تک پہنچتے اس قدر زیادہ وقت لگا ہے اور اس میں اس قدر زیادہ چیزوں نے حصہ لیا ہے۔ اس میں اتنی زیادہ چیزیں خراب ہو سکتی ہیں لیکن ہوتی نہیں۔ برگد کے درخت، چہچہاتی چڑیائیں، سائنوبیکٹیریا اور ہم۔ اس توازن میں سب ساتھی ہیں۔