ایک گہرا سانس لیں۔ اس سانس میں ہمیں آکسیجن چاہیے تھی، لیکن یہ آکسیجن آئی کہاں سے؟ اگر آپ کا جواب ہے کہ درختوں سے تو یہ جواب آدھے سے زیادہ غلط ہے۔ زمین کے نیچے پٹرولیم کہاں سے آیا؟ اگر آپ کا جواب ہے کہ ڈائنوسارز کی باقیات سے تو آپ کا جواب بالکل غلط ہے۔ اس جواب کے لئے زندگی کے بُنے تانے بانے کے کچھ حصوں کو دیکھتے ہیں۔
زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کہاں پر اور کتنی ہے، اس کو سیٹلائیٹ سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن یہ کسی جیولوجیکل عمل کا نتیجہ نہیں۔ یہ کھرب ہا کھرب سانسوں کا نتیجہ ہیں۔ اس کو دیکھنے کی ابتدا کرتے ہیں ایمیزون کے جنگل سے۔ دنیا کا یہ سب سے بڑا جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ متنوع زندگی کا گھر۔ پچپن لاکھ سکوائر کلومیٹر کا سبزہ۔ ان درختوں کے پتوں کے نیچے چھوٹے سوراخوں سے ان سانسوں کا آغاز ہوا۔ دن کو ان پتوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ لی، کاربن کو شوگر میں بدلا اور آکسیجن ہوا میں خارج کر دی۔ اپنی زندگی میں ایک درخت کئی ملین کیوبک میٹر آکسیجن خارج کرے گا۔ روزانہ دنیا میں آکسیجن کا بیس فیصد حصہ اس جنگل سے آ رہا ہے۔ عام طور پر اسے دنیا کے پھیپھڑے سمجھا جاتا ہے لیکن سیٹلائیٹ سے پتہ لگتا ہے کہ یہ اتنا سادہ نہیں۔ ٹیراسیٹلائیٹ کے مشاہدے کے مطابق یہ درخت جو آکسیجن خارج کریں گے، ان کا بڑا حصہ رات کو خود ہی جذب بھی کر لیں گے۔ اس آکسیجن کو ہوا میں آزاد شکل میں پہنچانے کے لئے ابھی ایک قدم اور بھی ہے۔ ہر روز اس جنگل سے بیس لاکھ ٹن مادہ بہہ کر دریائے ایمیزون میں جائے گا۔ چھ ہزار کلومیٹر لمبا یہ دریا مشرق کی طرف بہتا ہوا اس کو ایمیزون ڈیلٹا میں لے جائے گا۔ یہ اس جنگل سے آنے والی نیوٹرینٹ سے بھرا ہے۔
یہاں پر سمندر کی سطح پر رہنے والی خوردبینی زندگی ہے۔ اس میں فائٹوپلینکٹن اس مادے اور سورج کی روشنی کی مدد سے اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔ ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لیں گے۔ ان کو یہی کچھ چاہیۓ، اپنے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے لئے۔ خوراک کی اس فراوانی کی وجہ سے یہ تقسیم در تقسیم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ وہ جو ان کا چھوٹا سا جتھا تھا، اب تیزی سے بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔ صرف چوبیس گھنٹے میں سمندر کے پانچ سو مربع کلومیٹر کا رنگ نیلے سے بدل کر سبز ہو گیا ہے۔ یہ پلینکٹن بلوم ہے۔ اس سے نکلنے والی آکسیجن اس قدر زیادہ ہے کہ اسے آسانی سے سیٹلائیٹ دیکھ سکتا ہے۔ دنیا میں آکسیجن کا آدھے سے زیادہ حصہ ان سے آتا ہے۔ یہ زمین کے اصل پھیپھڑے ہیں۔
اسی طرح کے بلوم دنیا میں بہت سے جگہوں پر بنتے ہیں۔ یہ ایک وقت میں سمندر کے بیس فیصد حصے تک پھیل سکتے ہیں۔ یہ زمینی زندگی کے خوراک کے جال کی پہلی منزل ہیں جو زمین کی معدنیات، کاربن کو زندگی میں بدل دیتے ہیں۔ ان معدنیات کو جو کئی ملین سالوں سے زمین کے اندر کہیں گھومتی پھرتی تھیں، اب آبی زندگی کا حصہ بن گئیں ہیں۔
پیرو کے سمندر کے پاس ان کے بننے کے بعد اس زمین پر سب سے بڑا کھانے کا میلہ شروع ہو گا۔ پلینکٹن سے بیکٹیریا، اس سے کرِل اور میکروزوپلینکٹن، ان سے چھوٹی مچھلیاں اور آکتوپس، ان سے پینگوئن اور سِیل اور پھر بڑی مچھلیاں اور وہیل، پھر آبی پرندے اور یوں سمندر کی سطح پر بسنے والی یہ خوردبینی زندگی زندگی کے اس چکر کا پہلا قدم ہے۔
اس کھانے کے میلے میں جو پلینکٹن کھائے نہیں گئے، ان میں سے بہت سے اب سمندر کی تہہ میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ کاربن اور معدنیات کو ساتھ ہی لے کر گئے ہیں۔ اس سمندر کی تہہ میں یہ ہزاروں برس رہیں گے۔ ان کی لاشیں ایک کلومیٹر کی گہرائی تک بن جائیں گی۔ یہ زندگی کے اگلے مراحل بھی شروع کریں گے۔ زندگی کے اس تانے بانے کی ایک مثال صحارا کے صحرا کی ریت میں ان کی لاشیں ہیں جو پھر ہزاروں میل دور ایمیزون کے جنگل کو سرسبز رکھے ہوئے ہیں۔ زمین میں دبے پٹرولیم کا بڑا حصہ بھی یہی پلینکٹن ہیں۔
یہاں پر ایک اضافہ یہ کہ اگر یہ بھی ضرورت سے زیادہ بڑھ جائیں تو زندگی کو ہی تباہ کر دیتے ہیں۔ ان کی تباہ کاری بڑے علاقے کو مردہ کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ خشکی پر رہنے والے انسانوں کو بھی۔ اس کی تفصیل نیچے دئے گیے لنک سے۔
ساتھ لگی پہلی تصویر ان پلینکٹن کی کچھ اقسام کی۔
دوسری تصویر نیوزی لینڈ کے ساحل میں کچھ دنوں کے فرق سے۔ پلینکٹن بلوم کس قدر جلد پھیلتا ہے، یہ واضح ہے۔
فائٹوپلینکٹن کا تعارف
https://oceanservice.noaa.gov/facts/phyto.html
فائٹوپلینکٹن، کچھ تفصیل میں
https://earthobservatory.nasa.gov/Features/Phytoplankton
جب یہ بے قابو ہو جائیں
http://www.noaa.gov/what-is-harmful-algal-bloom
تیل کیسے بنتا ہے
http://resources.schoolscience.co.uk/…/infoba…/4/2index.htm…
صحارا سے ایمیزون کے جنگل تک پر پہلے کی گئی پوسٹ
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/1053148834853652/
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔