ایک زمانہ تھا کہ دنیا بھر سے تارکین وطن پاکستانی اور خاص طور پر برطانیہ میں آباد اوورسیز پاکستانی چھٹیاں گزارنے کیلئے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان جایا کرتے تھے اور کئی ایک مواقع پر پی آئی اے کو اضافی پروازوں کااہتمام کرنا پڑتا تھا لیکن اس کے بعد وطن عزیز میں امن و امان اور سیفٹی سیکورٹی کے ایسے مسائل نے جنم لیا کہ اوور سیز پاکستانیوں کی اکثریت تعطیلات میں اپنے ملک آنے کی بجائے ترکی، دبئی اور یورپین ممالک کا رخ کرنے لگی یعنی ٹورازم ) سیاحت( کی مد میں جو زر مبادلہ اپنے ملک کو مل رہا تھا وہ دیگر ممالک کو ملنے لگا ،حقیقت حال یہ ہے کہ ہر حکومت پاکستانی تارکین وطن سے بہت سی توقعات لگا لیتی ہے، پہلی توقع تو یہ ہوتی ہے کہ وہ زر مبادلہ پاکستانی بینکوں کے ذریعے بھیجیں، دوسری امید یہ کی جاتی ہے کہ خوشحال اوورسیزپاکستانی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کریں۔
عمران خان کے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستانی بینکوں اور خاص طور پر برطانیہ سے بینکوں کے ذریعے زرمبادلہ پاکستان بھیجنا ناممکن ہو چکا ہے تاوقتیکہ برطانیہ میں موجود پاکستانی بینکوں میں اکاؤنٹ نہ کھولا جائے اور پاکستانی بینکوں )حبیب بینک اور یونائیٹڈ بینک( میں اکاؤنٹ کھولنے کیلئے جو شرائط رکھی گئی ہیں، وہ برطانوی بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے سے بھی زیادہ مشکل ہیں یعنی موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہمارے ملک کو برطانیہ سے جو زرمبادلہ اوورسیز پاکستانی بینکوں کے ذریعے بھیجتے تھے، اس میں تقریباً 90 فیصد سے بھی زیادہ کمی آ چکی ہے، برطانیہ نے منی لانڈرنگ اور دہشت گرد تنظیموں کو زر مبادلہ کی ترسیل روکنے کیلئے ضابطوں کو سخت ضرور کیا ہے لیکن اس ضمن میں پی ٹی آئی کی حکومت کو پاکستانی بینکوں کے ذریعے رقوم کی ترسیل میں آسانی کیلئے فوری اور مئوثر اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک پاکستانی تارکین وطن سے دوسری توقع یعنی وطن عزیز میں سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اوورسیزپاکستانیوں کے تجربات بہت تلخ ہیں۔ مجھے وہ بزرگ اوورسیزپاکستانی آج بھی یاد ہیں جو 90 کی دہائی میں بہت سے خواب لیکر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے گئے تھے۔ ساری زندگی لندن ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والے ان صاحب نے اپنی عمر بھر کی جمع شدہ پونجی سے ملتان میں ایک فیکٹری لگانے کی کوشش کی مگر قدم قدم پر رکاوٹوں سے تنگ آ کر انہوں نے فیکٹری لگانے کا ارادہ ترک کر کے اس شہر کے مضافات میں ایک مربع زمین خرید لی اور ایک تجارتی مرکز میں کمرشل اراضی لے کر وہاں مارکیٹ بنوا دی، ان کا خیال تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد باقی وقت آرام سے پاکستان میں گزاریں گے لیکن وہی ہوا جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت کے ساتھ ہوتا آیا ہے یعنی دو سال کے اندر ہی ان کی ایک مربع زمین پر قبضہ ہو گیا اور قابض مافیا نے اس زمین پر مسلح افراد بٹھا دیئے جبکہ مارکیٹ کی دکانوں کا کرایہ آنا بھی بند ہو گیا کیونکہ ان صاحب نے اپنے جس چچا زاد بھائی کو اس مارکیٹ کے انتظامات کا نگران بنایا تھا اس نے جعلی کاغذات بنوا کر نہ صرف اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کر دیا بلکہ الٹا ان کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا اس طرح ان صاحب کی باقی زندگی عدالتوں میں فریادیں کرتے، لندن کے پاکستانی ہائی کمیشن سے مدد طلب کرتے اور اخبارات میں اپنی دکھ بھری داستان چھپوانے کے لئے دفتروں کے چکر کاٹتے گزر گئی، ان صاحب کو اس جہان فانی سے گزارے کئی برس ہو چکے ہیں لیکن مجھے آج بھی ان کی بے بسی اور پچھتاوے سے بھری داستان یاد ہے جو وہ یہاں دیار غیر میں ایک عمارت کی سیڑھیاں مشکل سے چڑھ کر مجھے سنانے کیلئے میرے پاس آئے تھے اور جس کی پوری تفصیل اس کالم میں لکھنا ممکن نہیں۔
پاکستانی سفارتخانوں کے بعد اوورسیز پاکستانیوں کا زیادہ واسطہ پی آئی اے اور پاکستانی ہوائی اڈوں پر امیگریشن اور کسٹم انتظامیہ سے پڑتا ہے۔ بیرون ملک آباد پاکستانیوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ جو حکومت جب کبھی پی آئی اے کا نظام ٹھیک کر لے گی یعنی اس ادارے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش بنا لے گی وہ پاکستان پر حکومت کرنے کی اہل ہو گی۔ 1988ء کے بعد کئی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں آ کر چلی گئیں نا تو پی آئی اے جیسے ادارے کو کامیابی سے چلانے کے قابل گی، وہی پاکستان کا نظم و نسق کامیابی سے چلا سکتی ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت دنیا کے مختلف ممالک میں سفر کرتی رہتی ہے، مجھے بھی کئی ایک ممالک کا سفر کرنے کا موقع ملا ہے، ان ممالک میں ہوائی اڈوں یعنی ایئر پورٹس پر انتظامات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ مسافروں کو سفر کرنے میں آسانی اور سہولت میسر آئے، چیک ان، چیک آؤٹ یا ٹرانزٹ کے مسافروں کو غیرضروری مشکلات اور دشواریوں سے بچایا جائے جبکہ پاکستان میں ہر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر عملے کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مسافروں کے جہاز میں بیٹھنے یا ایئرپورٹ سے باہر نکلنے تک انہیں ہر طرح کی رکاوٹ سے گزارا جائے۔
آنے جانے والے مسافروں کا سامان سکیننگ مشین سے گزارنے کے باوجود اسے جس طرح کھلوا کر دیکھا اور ٹٹولا جاتا ہے اور جو غیرضروری سوالات سفر کرنے والوں سے کئے جاتے ہیں ایسا ''حسن سلوک'' پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی مہذب ملک کے ہوائی اڈے پر نہیں برتا جاتا۔ اسی لئے تو اوورسیز پاکستانی کہتے ہیں کہ جس دن پی آئی اے اور پاکستان کے تمام ایئرپورٹس کے انتظامات ٹھیک ہونا شروع ہونگے تو سمجھو اسی دن سے پاکستان تبدیل ہونا شروع ہو گا۔
جس طرح حکومت پاکستان تارکین وطن سے کچھ توقعات وابستہ رکھتی ہے، اسی طرح اوورسیز پاکستانیوں نے بھی حکومت سے کچھ توقعات لگا رکھی ہیں جن میں مذکورہ بالا توقعات کے علاوہ ایک توقع یہ بھی ہے کہ جن اوورسیز پاکستانیوں کو وطن عزیز میں کسی بھی طرح کے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے، ان کی شنوائی اور حل کیلئے کوئی مئوثر حکمت عملی بنائی جانی چاہئے
اگرچہ یہ کام اوور سیز پاکستانیوں کی وزارت کی انتظامیہ اور اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن، پاکستانی سفارت خانوں اور وزارت خارجہ کا ہے مگر شاید ان اداروں کی ترجیحات میں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے کوئی مئوثر کام کرنے کے علاوہ سب کچھ شامل ہے۔ اب حال ہی میں وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کی شکایات اور ان کے ازالے کیلئے معروف شاعر و ادیب ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو ایڈوائزر کمشنر مقررکیا گیا ہے۔
اب اوورسیز پاکستانی اپنی شکایات اس ویب سائٹ http://mohtasib.gov.pk پر جا کر درج کروا اور مزید تفصیلات سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ اللہ کرے کہ موجودہ حکومت گزشتہ حکومتوں کی طرح محض ادارے بنانے پر اکتفا نہ کرنے بلکہ ان کی کارکردگی کو مئوثر بنانے کیلئے منصوبہ بندی کرے اور ان اداروں یں ڈاکٹر انعام الحق جاوید جیسے فعال اور انتظامی تجربہ رکھنے والے لوگوں کو ذمہ داریاں اور اختیارات دے۔
ویسے کہنے کو تو ہر حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو وطن عزیز کا اصل سفیر قرار دیتی ہے لیکن ان '' سفیروں کو سب سے زیادہ شکایات بھی اپنے سفارتخانوں سے ہی ہوتی ہیں
لندن اور اس کے مضافات کے شہروں میں بسنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ انہیں اپنے ہی ملک کے ویزے کے حصول کی سہولت لندن کے ہائی کمیشن میں میسر آنی چاہئے کیونکہ پاکستانی ایمبیسی اور قونصلیٹ کے سارے عملے کی تنخواہیں پاکستان کے ٹیکس دہندہ عوام کے پیسے سے ادا کی جاتی ہیں، اور یہ ایمبیسی اور قونصلیٹ میں کام کرنیوالے احساس کمتری کے مارے پاکستانی عوام پر ان گوروں کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کا ہر کام جلد از جلد کروا کر اپنی غلامانہ ذہنیت کا ثبوت بخوبی دیتے نظر آتے ہیں۔
مثال دینی یورپ کی جہاں کتوں کے علاج کیلئےالگ سے ہسپتال ہوتے ہیں
اور یہاں انسانوں کی روزی روٹی کمانے والی جگہ تیرہ گھنٹے جلتی رہی
گورنمنٹ کے منہ پر تماچہ مار گئی کے تم مجھے بجھا نہ سکے
ایسے آلات نہیں کہ ہم کسی بھی ہنگامی حالات کا مقابلہ کر سکیں
بس فقط فلاح کی تقریر بہت اچھی تھی!
پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں ہائی کمشنر موصوف نے لندن ہائی کمیشن میں پاکستانی ویزے کی سہولت ختم کر کے اس کا ٹھیکہ ایک پرائیویٹ فرم کو دے دیا تھا، یعنی اب کسی کو بھی پاکستانی ویزے کے حصول کیلئے ہائی کمیشن کی بجائے اس پر پرائیویٹ فرم سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کا سراغ لگائے کہ پرائیویٹ فرم کو پاکستانی ویزے کے حصول کا ٹھیکہ کتنے میں دیا گیااور کن شرائط پر دیا گیا تھا اور ویزا فیس کی مد میں جو رقم وصول کی جاتی ہے، اس کا حساب کتاب پاکستانی ہائی کمیشن سے کس طرح طے کیا گیا ہے حکومت نے جن صاحب کو اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت کا مشیر مقرر کیا ہے، انہیں چاہئے کہ وہ ایسے معاملات پر توجہ دیں جن کا اوورسیز پاکستانیوں سے براہ راست تعلق ہے۔ اوورسیز پاکستانی صرف اس وقت یاد نہیں آنے چاہئیں جب بھاشا ڈیم کیلئے فنڈز اکٹھے کرنے ہوں یا شوکت خانم ہسپتال کیلئے عطیات جمع کرنے ہوں۔ اوورسیز پاکستانیوں نے ہر مشکل وقت میں ملک و قوم کا ساتھ دیا ہے اور کسی صلے اور ستائش کی تمنا کئے بغیر دیا ہے۔
اگر اوورسیز پاکستانی واقعی ملک وقوم کا سرمایہ ہیں تو ان کے معاملات پر توجہ دیجئے، اس سے آپ کی حکومت کو ہی فائدہ ہو گا۔
ویسے کسی نے کہا تھا کہ پاکستانی تارکین وطن اس ملک وقوم کا سرمایہ ہیں،
اور یہ انہی نے کہا ہے جنہیں سرمایہ خردبرد کرنے کی عادت ہے۔
بقول افتخار عارف
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...