ڈینیل کاہنیمین فضائیہ کے افسروں کو نفسیات پر لیکچر دے رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مثبت رویے کی حوصلہ افزائی کس طرح فائدہ مند رہتی ہے جبکہ غلطیوں پر سزا دینے سے فرق نہیں پڑتا۔ اس دوران ایک فلائٹ انسٹرکٹر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ “نہیں، یہ غلط ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ بڑی زبردست طریقے سے جہاز کی پینترہ بازی کرتے ہیں۔ میں ان کو شاباش دیتا ہوں تو ان کی اگلے روز فلائنگ خراب ہو جاتی ہے۔ اور جب کوئی خراب فلائنگ کرتا ہے تو اس پر چیختا ہوں تو اگلے روز اس کی فلائنگ بہتر ہو جاتی ہے۔ اپنی سائنس اپنے پاس رکھیں اور ہمیں نہ بتائیں کہ سزا کام نہیں کرتی” باقی انسٹرکٹرز نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
ڈئنیل کاہنیمین کے لئے یہ وہ لمحہ تھا جب انہوں وہ بات سمجھ میں آ گئی جس نے انہیں 2002 میں اکنامکس کے نوبل پرائز کا حقدار بنایا۔ ایک چونکا دینے والا فیکٹ۔ چیخنے کے بعد بہتری ضرور آتی ہے لیکن چیخنے کی وجہ سے بہتری نہیں آتی۔
یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کا جواب ایک فنامینا میں ہے جس کو اوسط کی طرف پلٹنا کہا جاتا ہے۔ اگر ایک سیریز میں ایونٹ ہو رہے ہیں جو مکمل طور پر رینڈم ہیں تو ایک غیرمعمولی ایونٹ کے بعد ہونے والے اگلے ایونٹ کا امکان یہی ہے کہ وہ معمولی ہو گا۔ یہ صرف چانس کے کھیل ہیں۔ (معمولی ایونٹ کے ہونے کا امکان ہر حال میں زیادہ ہے)۔ ٹریننگ کے دوران مہارت بہتر تو ہو رہی ہوتی ہے لیکن اس قدر آہستہ کہ ایک فلائٹ اور اگلی فلائٹ میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہوتا کہ محسوس کیا جا سکے۔ پائلٹ جب ٹریننگ کے دوران زبردست کرتب دکھاتا ہے تو یہ غیرمعمولی ایونٹ ہے۔ جب وہ بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہ بھی غیرمعمولی ایونٹ ہے۔ جب اس غیرمعمولی ایونٹ کے بعد یہ پائلٹ اگلے روز دوبارہ آئے گا تو اس چیز کا امکان بہت زیادہ ہے کہ وہ معمولی کارکردگی دکھائے گا۔ اگر اس نے پہلے عمدہ مظاہرہ کیا تھا اور اس پر شاباش لی تھی تو یہ کارکردگی پچھلے روز سے خراب ہو گی۔ اگر خراب مظاہرہ کیا تھا اور سزا ملی تھی تو یہ کارکردگی پہلے سے بہتر ہو گی۔ فرق شاباش یا سزا کا نہیں تھا۔
کاہنیمین کی کلاس میں جو انسٹرکٹر تھے، وہ اس اعتماد کا شکر تھے کہ چیخنا چلانا تعلیم کا اچھا ٹول ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔
تو یہ اصول آپ کو عام زندگی میں کہاں کہاں نظر آتا ہے؟ سپورٹس میں، بزنس میں، زراعت میں، سیاست میں۔ اوسط کی طرف واپسی کا دھوکا امکانات کی سائنس کو سمجھنے بغیر دنیا کو سمجھنے کا ایک بہت ہی عام مغالطہ ہے جس کا شکار ہر شعبے کے ماہرین ہو جاتے ہیں۔
یہاں پر سپورٹس کی ایک اصل کمنٹری سے اقتباس۔ سکی جمپنگ میں کھلاڑی کو دو چھلانگیں لگانا ہوتی ہیں۔ دونوں کی اوسط اس کا سکور ہوتا ہے۔
“ناروے کے کھلاڑی نے پہلی چھلانگ بہت ہی زبردست لگائی ہے۔ اب وہ دباوٗ میں ہو گا۔ اپنی برتری کی حفاظت کرنے کا پریشر ہو گا۔ دوسری چھلانگ اس کے لئے مشکل ہے”
“سویڈن کے کھلاڑی کی پہلی چھلانگ اچھی نہیں تھی۔ اب ان کے پاس ہارنے کو کچھ نہیں۔ بغیر پریشر کے یہ چھلانگ اچھی رہنے کی امید ہے”
اب آپ اس کمنٹری کو بہتر سمجھ سکتے ہوں گے۔
یا پھر ہیڈ لائن، “شہر کے سب سے اداس لڑکوں کا انتخاب کر کے ان کو تین مہینے تک روح افزا پلایا گیا۔ تین مہینے کے بعد وہ بہتر ہو گئے تھے”۔ کیا یہ گروپ روح افزا کی وجہ سے بہتر ہوا تھا؟ اگر یہ ایکسٹریم گروپ تھا تو پھر یہ تین مہینے تک اگر روز ایک بلی کو بیس منٹ تک گلے لگاتے یا پھر روز کچھ دیر سر کے بل الٹا کھڑا ہو جاتے تو بھی اوسط کی طرف لوٹنے کا مطلب یہ کہ کچھ بہتری تو آ ہی جانی تھی۔
تو پھر اصل بہتری اور امکان کے اس دھوکے کو کیا الگ کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے پہلا قدم اس کے تصور کو سمجھنا ہے۔
(سائنسی تجربات میں کنٹرول گروپ بنا کر تجربات کرنا اسی وجہ سے ہے)۔