دنیا میں ہمیشہ سے ذہین لوگ پیدا ہوتے رہے۔ ان افراد نے شعوری اور سماجی ارتقا میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ فلسفہ، سائنس، ادب، فنون لطیفہ اور سیاست کے میدانوں میں ترقی انہی ذہین افراد کی مرہون منت ہے۔ دیگر شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں مذہب اور روحانیت پیچھے نہ رہے۔ مذہبی شخصیات نے مذاہب اور روحانی شخصیات نے روحانی کرتب دکھائے۔
روحانیت کی بنیاد بھی اعلیٰ درجے کی وہ ذہانت اور بے مثل شعوری صلاحیت ہے جس کے نتیجے میں سنت، صوفی، عامل اور سادھو پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے افراد قدرتی طور پر ذہانت سے مالا مال اور کرشماتی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ مگر فطرت کی ستم ظریفی کہہ لیں یا انسانیت کی بد قسمتی کہ اکثر روحانی پیشوا اپنی اس ذہانت اور کرشماتی اوصاف کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور اپنے مریدین سے مالی سے لے کر جنسی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ جس سے معصوم انسانوں کا استحصال ہوتا ہے۔ ان شخصیات میں ایک قدر مشترک ہے۔ اور وہ ہے۔ جتھہ سازی یا cult بنانا۔ ایسی روحانی شخصیات اپنے اردگرد مریدین اور پیروکاروں کی ایک فوج دیکھ کر روحانی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح ایک مسحور کن شخصیت نمودار ہوتی ہے۔
اچاریہ بھگوان شری رجنیشں المعروف ’اوشو‘ 1931ء میں مرکزی ہندوستان کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کپڑے کے تاجر تھے۔ اوشو اپنے والد بابو لال اور والدہ سارس وتی کے گیارہ بچوں میں سب سے بڑے تھے۔ پیدائش کے فوراً بعد ان کو پرورش کے لیے ننھیال بھیج دیا گیا۔ جہاں وہ سات سال کی عمر تک رہے۔ ان کی زندگی کے یہ ابتدائی سال ان کی ذہنی نشوونما کے لئے بہترین ثابت ہوئے کیونکہ ان کے بقول اس عرصے میں ان کو سب کچھ اور ہر کچھ کرنے کی آزادی تھی۔ اوشو کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کا اندازہ بھی ان برسوں میں ہو گیا تھا۔
اوشو نے 1955 ء میں فلسفے میں بی اے کیا۔ مگر ایک باغی ٹین ایجر بن گئے۔ ان کو تقریریں کرنے کا شوق تھا۔ اس سے ان میں انتہا درجے کا اعتماد پیدا ہو گیا۔ روحانیت اور دماغی سائنس اوشو کا خاص علاقہ تھا۔ اوشو نے 21 سال کی عمر میں ایک طویل مراقبہ کیا اور نروان حاصل کر لینے کا دعویٰ بھی کر دیا۔ ان کی باتیں مدلل اور منطقی ہوتی تھیں۔
اوشو 1957 ء میں فلسفے میں ایم اے کرنے کے بعد 1958 ء میں جبل پور یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر ہو گئے۔ وہ اپنی تقریروں میں اشتراکیت کی مخالفت کرتے تھے۔ مگر ان کی وجہ شہرت سیاست کی بجائے روحانیت اور جنس بنی۔ اوشو جنس کو روحانیت، معرفت ذات اور شعوری بالیدگی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کے خطابات 600 جلدوں پر مشتمل ہیں۔ مراقبہ، توجہ انگیز زندگی اور محبت پر ان کی تصانیف بہت مشہور ہوئیں جن کے 50 زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔
وہ مراقبے کے ذریعے جنسی طاقت بڑھانے کے طریقوں کی باقاعدہ مشق کرواتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جنسی طور پر کمزور بوڑھے، ویران بیگمات اور جنسی کسمپرسی کا شکار امیر زادے ان کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ پھر جنسی طور پر نا آسودہ سیٹھ، بیوروکریٹ اور مالدار لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فیض یاب ہونے کے بعد لاکھوں روپے کے عطیات دینے لگے۔ اچاریہ نے پروفیسری چھوڑ دی۔ اور سارا وقت روحانیت اور مراقبے پر صرف کرنے لگے۔ انھوں نے ’پونا‘ ہندوستان میں ایک آشرم بنا لیا۔ اب ان کے مقلدین کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ پونا آشرم میں ہر طرح کی جنسی آزادی تھی۔ ہندوستانی حکومت کو سماجی دباؤ کا سامنا ہوا، قانون حرکت میں آیا۔ اور آشرم کے قوانین و ضوابط بنائے گئے۔
پونا آشرم میں اوشو سات سال تک رہے وہ تقریباً ہر صبح 90 منٹ کے دورانیے کی سکھلائی کی جماعت لیتے تھے۔ جس میں یوگا، زین، تاؤ ازم، تانترہ اور صوفی ازم سکھائے جاتے۔ وہ بنیاد پرست ہندو مذہب کے خلاف تھے۔ شادی کے خلاف تھے اور آزادانہ جنسی زندگی کا پر چار کرتے تھے۔ 1971 ء میں ان کے مریدوں نے ان کو بھگوان شری رجنیش کے خطاب سے نواز دیا تھا۔
پونا آشرم جہاں مشہور تھا وہاں پر بدنام بھی ہو رہا تھا کیونکہ قدامت پسند ہندو آشرم کے اندر جنسی آزادی کو برا سمجھتے تھے۔ جب حکومت نے آشرم پر پابندیاں سخت کیں تو آشرم کا چلنا مشکل ہو گیا۔ اب اوشو نے آشرم کی جگہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور اپنے دو ہزار مقلدین کے ساتھ امریکہ سدھار گئے۔ شروع میں تو وہ سیاحتی ویزہ پر امریکہ گئے تھے مگر بعد میں سفری دستاویزات میں غیر قانونی رد و بدل کر کے امریکہ میں ہی رہ گئے۔
انہوں نے امریکہ کی ریاست اوریگن کے ایک ویرانے میں چونسٹھ ہزار ایکڑ اراضی لے کر اس پر اپنا آشرم بنا لیا۔ آشرم میں پانچ ہزار پر مشتمل افراد جو زیادہ تر بے گھر، آزاد منش اور منشیات استعمال کرنے والے لوگ تھے۔ کو مراقبہ کروایا جاتا اور بھاشن سنائے جاتے تھے۔ اوشو خود بھی نت نئی مریدینیوں کے ساتھ خلوت نشین ہونے کی لت میں مبتلا تھے۔ اور آزاد جسمانی تعلق کو روحانیت کا درجہ دیتے تھے۔
ایک ذہین ہندوستانی خوبرو حسینہ ’آنند شیلا‘ نے اوشو کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ پونا اور پھر امریکہ میں قائم رجنیش پورم میں اوشو کی ذاتی سیکریٹری تھی۔ اس نے ہندوستان سے نکلنے کے لئے اوشو کے سفری کاغذات بنوانے میں مدد کی۔ اینٹی لوپ اوریگن میں 64 ہزار ایکڑ زمین خریدنے میں اور اس پر آشرم تعمیر کرنے میں بہت مدد کی۔ اس آشرم کا نام رجنیش پورم رکھا گیا۔
رجنیش پورم کا اپنا فائر ڈیپارٹمنٹ، پولیس، ریسٹورنٹ، شاپنگ مال، ٹاؤن شپ اور ائر پورٹ تھا۔ مگر کچھ عرصہ بعد ہی اوشو کے مریدین اور مقامی آبادی کے مابین شدید اختلافات سامنے آنے شروع ہو گئے۔ مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ روحانیت کے لبادے میں لوگوں کو ذہنی طور پر مفلوج اور جنسی طور پر آوارہ بنایا جا رہا ہے۔ آشرم میں مبینہ طور پر منشیات اور قوت باہ بڑھانے والی دوائیاں عام بکنے لگیں تھیں۔
اسٹیٹ آف اوریگن کے ساتھ رجنیش پورم کی جنگ میں شیلا نے اوشو کا بہت ساتھ دیا۔ بالخصوص اس وقت جب رجنیش پورم پر دو سنگین الزامات لگے۔ اول:راجنیشیوں نے ریاست اوریگن میں پانی میں مضر صحت جرثومے چھوڑ کر شدید جرم کیا تھا۔ دوئم: اوریگن اسٹیٹ اٹارنی چارلس ٹرنر پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ سازی رجنیش پورم میں ہوئی تھی۔
ان الزامات کے خلاف شیلا نے ایک طویل قانونی جنگ لڑی اور کامیاب رہی ورنہ بھگوان گرفتار ہو جاتے اور آشرم جو کروڑوں ڈالر آمدنی کا ذریعہ تھا بند ہو جاتا۔
ایک دن اچانک اوشو نے ایک انگریز خوبرو حسینہ کو اپنی سیکرٹری بنا لیا۔ شیلا جس نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اوشو کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اوشو کے اس فیصلے سے بہت دکھی ہوئیں اور اچانک ایک دن کسی کو بتائے بغیر امریکہ چھوڑ کر یورپ جا بسیں۔
شیلا آنند کے جانے کے بعد اس روحانی و کرشماتی شخصیت کا اصل روپ دنیا کے سامنے اس وقت آیا جب انھوں نے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں ان دو حملوں کا الزام شیلا پر لگایا اور اپنی محسنہ، شیلا جس کی بہترین منصوبہ بندی کی وجہ سے اوشو اتنا امیر ہو گئے تھے کہ ایک وقت میں ان کے پاس 90 رولز رائس تھیں۔ کے لئے یہ الفاظ استعمال کیے : ”شیلا ایک فاحشہ تھی۔ اس نے مجھے قتل کروانے کی سازش کی۔ اوریگن ریاست میں حیاتیاتی حملے کی منصوبہ بندی اور جاتے وقت میرے بہت سے ڈالر بھی ساتھ لے گئی۔“
1985 ء میں اوشو پر، امریکہ میں طویل غیر قانونی قیام کرنے کا مقدمہ چلا کیونکہ ان کے سفری کاغذات میں رد و بدل کیا گیا تھا۔ اوشو نے امریکی امیگریشن سے ہماری نیب کی طرح پلی بارگین کر لی اور اس وعدے کے ساتھ کہ وہ آئندہ امریکہ کا رخ نہیں کریں گے ان کو واپس ہندوستان جانے دیا گیا۔
اوشو واپس پونا، ہندوستان آ گئے۔ یہاں آ کر دوبارہ انھوں نے 21 ممالک سے پناہ کی درخواست کی جو رد کر دی گئی۔ اوشو 1990 ء میں 58 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ یوں دنیا کے معصوم انسانوں کو ایک اور روحانی شخصیت سے نجات مل گئی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...