اس بارآئرلینڈ میں قیام کے دوران میرا زیادہ تر وقت وہاں کے ادبّا اور فلسفیوں کے بارے میں کھوج اور تحقیق میں گزرا۔ اور میں ان مقامات پر گیا جہاں یہ اہل علم و ادب تعلیم حاصل کرتے تھے، جن سٹرکوں پر گھوما کرتے تھے، جن ریسٹورٹوں میں چائے نوشی کرتے تھے یا جن ‘ پب’ میں شراب نوشی کیا کرتے تھے۔ ان میں سے چند ادیبوں کے گھر بھی دیکھے اور کوشش کی کہ ان کے رشتے داروں سے بھی ملاقات ہو ۔ کچھ کے رشتے داوں سے ملاقات ہوئی۔ مگرآسکر وائلڈ کے کا کوئی رشتے دار مجھے نہیں مل سکا۔ مگر میری خوش قسمتی ہے کے ڈبلن شہر کے ” ایپک” نامی مہاجرین کے عجائب خانے میں مجھے آسکرئلڈ وائلڈ پر بہت اچھا اور مفید مواد ملا۔ اور اس عجائب خانے کے منتظم نے آسکر والڈ کے متعلق بہت سی اچھی معلومات فراہم کی۔ میرا ان کے ہمراہ تقریبا پورا دن ہی گزرا۔ جنھوں نے مجھ سے بربارڈ شاء، سیموئل بیکٹ، جیمس جوائس، ڈبلیو بی ایٹس، اولیورسوئفٹ وغیرہ کے متعلق بھی خاصی باتین کی۔ یہاں میں ایک تصویر مہاجرین کے عجائب خانے ” ایپک” میں آسکر وائلڈ کی ایک فلم دیکھتے ہوئے اور دوسری تصویر”ائیر اسکوئر سنٹر” کی ہے جہان آسکر وائلڈ کے تابنے کے مجسمے کے ساتھ میں خواب و خیال کی باتیں کررہا ہوں ۔ کاش آسکروائلڈ میری باتیں سن پاتے۔
آسکر فنگل آسکر وائلڈ 16 اکتوبر 1854 کو ڈبلن میں سر ولیم وائلڈ اور ان کی اہلیہ جین کے ہاں پیدا ہوئے۔ آسکر کی والدہ لیڈی جین فرانسسکا وائلڈ (1820-1896) ایک کامیاب شاعرہ ،ادبی میزبان او صحافی تھیں۔انھون نے حب الوطنی پر مبنی آئرش نظم “Speranza” پر لکھا ۔ آسکروائلڈ کے والد، سر ولیم وائلڈ (1815 – 1876) لکھی۔ ایک سرکردہ کان اور آنکھوں کے سرجن، ایک مشہور انسان دوست اورزہین اور ہونہار مصنف تھے، جنہوں نے آثار قدیمہ اور لوک داستانوں پر کتابیں لکھیں۔ آسکروائیلڈ کا ایک بڑا بھائی، ولی، اور ایک چھوٹی بہن، اسولا فرانسسکا تھی جو 10 سال کی ابتدائی عمر میں مر گئی تھی۔
آسکروائلڈ کی تعلیم ٹرنیٹی کالج، ڈبلن اور میگڈلین کالج، آکسفورڈ میں ہوئی۔ آکسفورڈ میں رہتے ہوئے، وائلڈ جمالیاتی تحریک میں شامل ہو گئے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد، وہ ادبی کیریئر کو توسیع دینے کے لیے لندن منتقل ہوگئے۔ ۔
ان کی ادبی تحریریں اور دانشوارانہ متن متنوع تھی۔ ان کی شاعری کی پہلی جلد 1881 میں شائع ہوئی تھی لیکن نظم لکھنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ‘پال مال گزٹ’ جیسی اشاعتوں میں حصہ لیا، پریوں کی کہانیاں لکھیں اور ایک ناول ‘دی پکچر آف ڈورین گرے’ (1891) شائع کیا۔ ان کا سب سے بڑا ہنر ڈرامے لکھنے میں تھا، اور اس نے ‘لیڈی ونڈرمیرز فین’ (1892)، ‘ایک مثالی شوہر (1895)’ اور ‘دی امپورٹنس آف بینگ ارنیسٹ’ (1895) سمیت انتہائی مقبول مزاحیہ فلمیں تیار کیں۔ ‘Salome’ 1896 میں پیرس میں پیش کیا گیا تھا۔
ڈرامے اور المیے نے آسکروائلڈ کی نجی زندگی کو متاثر کیا۔ اس نے 1884 میں کانسٹینس لائیڈ سے شادی کی اور ان کے دو بیٹے ہوئے، لیکن 1891 میں وائلڈ نے لارڈ الفریڈ ڈگلس کے ساتھ افیئر شروع کر دیا، جسے ‘بوسی’ کا نام دیا گیا۔ اپریل 1895 میں، وائلڈ نے بوسی کے والد، کوئینز بیری کے مارکوئس پر بدتمیزی کا مقدمہ دائر کیا، جب مارکوئس نے اس پر ہم جنس پرست ہونے کا الزام لگایا۔ وائلڈ کھو گیا اور، مقدمے کی سماعت کے دوران اس کی نجی زندگی کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد، اسے گرفتار کیا گیا اور اس پر سنگین بے حیائی کا مقدمہ چلایا گیا۔ اسے دو سال کی سخت مشقت کی سزا سنائی گئی۔ جیل میں رہتے ہوئے اس نے ڈگلس کو ایک لمبا خط لکھا، جو بعد از مرگ ‘De Profundis’ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ان کی بیوی اپنے بچوں کو لے کر سوئٹزرلینڈ چلی گئی اور ‘ہالینڈ’ کا نام اپنا لیا۔ وائلڈ کو اس کی صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے ساتھ رہا کیا گیا اور اس کی ساکھ تباہ ہوگئی۔ اس نے اپنی باقی زندگی یورپ میں گزاری ۔
آسکر وائلڈ اینگلو-آئرش ڈرامہ نگار، ناول نگار، شاعر اور نقاد تھے۔ انہیں وکٹورین دور کے عظیم ڈرامہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اپنی زندگی میں اس نے نو ڈرامے، ایک ناول، اور بے شمار نظمیں، مختصر کہانیاں اور مضامین لکھے۔
آسکر وائلڈ جمالیاتی تحریک کا حامی تھا، جس نے اخلاقی یا معاشرتی موضوعات سے زیادہ جمالیاتی اقدار پر زور دیا۔ یہ نظریہ سب سے زیادہ واضح طور پر ‘فن برائے فن کی خاطر’ کے جملے میں بیان کیا گیا ہے۔
ادبی کارناموں کے علاوہ، وہ اپنی عقل، بھڑکاؤ، اور مردوں کے ساتھ معاملات کے لیے بھی مشہور، یا شاید بدنام ہے۔ ایک اشرافیہ کے بیٹے کے ساتھ اس کے ہم جنس پرست تعلقات (پھر اسے جرم سمجھا جاتا تھا) کے لیے اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے قید کر دیا گیا۔
ان کی تعلیم پورٹورا رائل اسکول (1864-71)، ٹرنیٹی کالج، ڈبلن (1871-74)، اور میگڈلین کالج، آکسفورڈ (1874-78) میں ہوئی۔ آکسفورڈ میں رہتے ہوئے، وہ جمالیاتی تحریک میں شامل ہو گئے اور ‘آرٹ فار آرٹس سیک’ (L’art pour l’art) کے وکیل بن گئے۔ میگڈلین میں رہتے ہوئے، اس نے اپنی نظم ریوینا کے لیے 1878 کا نیوڈیگیٹ پرائز جیتا تھا۔
نیو یارک میں آسکر وائلڈ گریجویشن کرنے کے بعد، وہ ادبی کیریئر قائم کرنے کے لیے لندن (1879) میں چیلسی چلا گیا۔ 1881 میں، اس نے اپنی شاعری کا پہلا مجموعہ شائع کیا۔ اس نے بطور آرٹ جائزہ نگار (1881) کام کیا، ریاستہائے متحدہ اور کینیڈا (1882) میں لیکچر دیا، اور پیرس (1883) میں مقیم رہے۔ انہوں نے برطانیہ اور آئرلینڈ (1883 – 1884) میں بھی لیکچر دیا۔
29 مئی 1884 کو آسکر نے امیر ملکہ کے وکیل ہوریس لائیڈ کی بیٹی کانسٹینس لائیڈ (وفات 1898) سے شادی کی۔ ان کے دو بیٹے تھے، سیرل (1885) اور ویویان (1886)۔ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے، آسکر نے ویمنز ورلڈ میگزین کے ایڈیٹر کے طور پر نوکری قبول کی، جہاں اس نے 1887-1889 تک کام کیا۔
یہ پریون کی کہانیاں اپنے دو بیٹوں کے لیے لکھی د 1888 میں انھوں نے بعنوان ” خوش شہزادہ اور دیگرداستانین ” دوبیٹوں کے لیے لکھی۔ کی کہانیاں شائع کیں۔ ان کا پہلا اور واحد ناول The Picture of Dorian Gray 1891 اور اسے کافی منفی ردعمل ملا۔ ان کے ناول کے ہم جنس پرستی کے ساتھ بہت کچھ لینا دینا تھا، جس کی وجہ سے وکٹورین نقادوں میں کچھ سنسنی پیدا ہوئی۔ 1891 میں، وائلڈ نے لارڈ الفریڈ ڈگلس کے ساتھ افیئر شروع کیا، جس کا عرفی نام ‘بوسی’ تھا، جو اس کی زندگی کی محبت اور اس کے زوال کا سبب بن گیا۔ اور یوں 1893 میں آسکر وائلڈ کی شادی ٹوٹ گئی۔
آسکروائلڈ کا سب سے بڑا ہنر ڈرامے لکھنا تھا۔ اس کا پہلا کامیاب ڈرامہ، لیڈی ونڈرمیرز فین، فروری 1892 میں کھلا۔ اس نے انتہائی مقبول کامیڈیوں کا ایک سلسلہ تیار کیا جن میں اے وومن آف نو امپورٹنس (1893)، ایک مثالی شوہر (1895)، اور دی امپورٹنس آف بینگ ارنسٹ (1895) شامل ہیں۔ یہ تمام ڈرامے بہت سراہے گئے اور ایک ڈرامہ نگار کے طور پر آسکر کو مضبوطی سے قائم کیا۔
اپریل 1895 میں، آسکر نے بوسی کے والد پر بدتمیزی کا مقدمہ دائر کیا کیونکہ مارکوئس آف کوئنز بیری نے اس پر ہم جنس پرستی کا الزام لگایا تھا۔ آسکر کا مقدمہ ناکام رہا اور اسے خود گرفتار کر لیا گیا اور اس پر سنگین بے حیائی کا مقدمہ چلایا گیا۔ اسے بدکاری کے جرم میں دو سال کی سخت مشقت کی سزا سنائی گئی۔ جیل میں اپنے وقت کے دوران اس نے De Profundis، ایک ڈرامائی یک زبان اور خود نوشت لکھی، جسے بوسی سے مخاطب کیا گیا تھا۔
1897 میں جیل سے رہائی کے بعد، انھوں نے دی بیلڈ آف ریڈنگ گاول لکھا، جس میں جیل کے غیر انسانی حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس نے ساری زندگی یورپ گھومتے، دوستوں کے ساتھ رہنے اور سستے ہوٹلوں میں گزاری۔ یاد رہے آسکر وائلڈ پر اس کے معشوق سر الفریڈ ڈگلس کے والد نے پینتالیس سال کی عمر میں جنسی زیادتی کا مقدمہ چلایا تھا۔ جان ڈگلس پر بدتمیزی کے لیے مقدمہ کرنے کی کوشش کے بعد وائلڈ کو 25 مئی 1895 کو جنسی زیادتی کا مجرم قرار دیا گیا۔ وائلڈ کو پینٹن ویل جیل بھیج دیا گیا اور اسے سخت مشقت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ۔ آسکر وائلڈ نے 30 نومبر 1900 کو دماغی گردن توڑ بخار کی وجہ سے پیرس کے ایک سستے ہوٹل میں دنیا کو خیر باد کہا۔ اسکر وائیلڈ پیرس، فرانس میں “لی پیرے لاچائس” قبرستان میں پیوند زمین ہوئے۔
::: آسکر وائلڈ کی تصانیف :::
• Ravenna (1878)
• Poems (1881)
• The Happy Prince and Other Stories (1888, fairy stories)
• Lord Arthur Savile’s Crime and Other Stories (1891, stories)
• A House of Pomegranates (1891, fairy stories)
• Intentions (1891, essays and dialogues on aesthetics)
• The Picture of Dorian Gray (first published in Lippincott’s Monthly Magazine July 1890, in book form in 1891; novel)
• The Uncensored Picture of Dorian Gray was published by the Belknap Press of Harvard University Press in 2012.
• The Soul of Man under Socialism (1891, political essay)
• Lady Windermere’s Fan (1892, play)
• A Woman of No Importance (1893, play)
• The Sphinx (1894, poem)
• An Ideal Husband (performed 1895, published 1898; play)
• The Importance of Being Earnest (performed 1895, published 1899; play)
• De Profundis (written 1897, published variously 1905, 1908, 1949, 1962; epistle)
• The Ballad of Reading Gaol (1898, poem)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...