اسامہ بن محمد بن عوض بن لادن 10 مارچ 1957 کو سعودی عرب کے شہر الریاض میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد بن عوض بن لادن بنیادی طور پر یمن سے تعلق رکھتے تھے، سعودی شاہی خاندان سے قریب کے تعلقات تھے اور تعمیرات کے شعبے کے ایک بڑے بزنس گروپ “سعودی بن لادن گروپ” کے مالک تھے۔ اسامہ بن لادن کی والدہ کا تعلق ملک شام سے تھا۔
اکنامکس، ماحولیات اور کچھ زرائع کے مطابق سول انجینئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کی تھی
اسامہ بن لادن نے سوویت یونین کے خلاف 1984 میں کام شروع کیا تھا جب وہ ابھی سعودی عرب میں ہی مقیم تھا۔ 1984 میں ایک گروپ بنایا جس کا نام” افغان سروس بیورو” رکھا گیا جو بعد میں 1988 میں “القاعدہ” میں تبدیل ہو گیا۔ اس گروپ کے بانیوں میں اکیلا اسامہ بن لادن ہی نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ چند لوگ اور بھی تھے جن کے نام نمایاں یا سر فہرست ہیں۔ “افغان سروس بیورو” کے بانیوں میں اسامہ بن لادن کے علاوہ عبداللہ یوسف عزام جس کا تعلق فلسطین سے تھا، وائل حمزہ جلیدان جس کا تعلق سعودی عرب سے ہی تھا، ایمن محمد ربیع الظواھری جن کا تعلق مصر سے تھا۔
سوویت یونین 1979 سے ہی افغانستان میں جنگ کر رہا تھا جو 1989 تک 9 سال کا عرصہ جاری رہی۔ 1984 میں “افغان سروس بیورو” نے فنڈز اکھٹے کر لے افغانستان بھیجنے شروع کر دیے تاکہ افغانستان سے سوویت یونین کا خاتمہ ہو اور مسلمانوں کا قتل عام روکا جائے۔ اس مشن میں مختلف اتحادی بھی شامل تھے جو سوویت یونین کو افغانستان سے بھگانا چاہتے تھے اور آج بھی اس بات کا کریڈٹ ان کے پاس ہے کہ ہم نے حکمت عملی سے سوویت یونین کو ناکوں چنے چبوا دیے۔
کچھ باذوق دوست دلیل دیتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کو تو سعودی شہری نہیں مانا جاتا جہاں سے وہ ہے اور اس کی شہریت بھی منسوخ کر دی گئی تھی سعودی عرب سے تو پھر ہم اس کے خلاف کیوں نہ ہوں۔یہ بات درست ہے کہ اسامہ بن لادن کی سعودی شہریت منسوخ کر دی گئی تھی۔ مگر کیوں کی گئی یہ جاننا بڑا ضروری ہے تاکہ معاملہ واضح ہو جائے۔ اگست 1990 میں عراق اور کویت کی آپس میں اَن بن ہو گئی جب عراق کا کمانڈر صدام حسین تھا۔ خطے میں جب بھی کہیں بھی حالات خراب ہوتے ہیں تو سعودی شاہی خاندان السعود کو اپنی جان کے لالے پڑھ جاتے ہیں کہ اس لڑائی کی لپیٹ میں ہم بھی نہ آ جائیں۔ تب بھی عراق اور کویت کی لڑائی میں سعودی عرب کو اپنی پڑ گئی اور اپنی حفاظت کے لیے امریکہ سے مدد مانگنے کا سوچا۔ جنکہ اسامہ بن لادن کا مؤقف تھا کہ ہم اپنی حفاظت کر سکتے ہیں اور ہماری اپنی آرمی ہے ہم امریکہ کو سعودی عرب کی ذمہ داری نہیں سونپ سکتے۔ کم از کم شہر مکہ اور مدینہ میں امریکی افواج داخل نہ ہوں۔ کنگ فہد نے اپنا فیصلہ کیا اور امریکی افواج کو سعودی عرب میں منگوا لیااور 82ویں ایئربورن ڈویژن سعودی عرب کے شہر ظہران میں آئی۔ امریکہ ایک طرف جنگیوں کو اسلحہ فراہم کر رہا تھا اور دوسری طرف سعودیہ سے حفاظت کے نام پر کمائی کر رہا تھا۔
اسامہ بن لادن امریکی فوج کے سعودی عرب داخلے اور سعودی تنصیبات کی سیکیورٹی امریکی فوج کو دینے پر امریکہ اور سعودی کنگ فہد کا تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور 1991 میں سعودی سے سے سوڈان میں چلے گئے۔ سوڈان میں اسامہ بن لادن نے انفراسٹرکچر اور زراعت کی ترقی پر کافی خرچ کیا اور عوام سے ہمدردی کے باعث اسامہ بن لادن کو سوڈان میں بہت پزیرائی ملی۔ اسامہ بن لادن سوڈان میں قیام کے دوران بھی مسلسل سعودیہ کے امریکہ سے اتحاد پر سعودی ولی عہد کنگ فہد پر تنقید کرتے رہے جس کے نتیجہ میں 1994 میں کنگ فہد نے انتقاماً اسامہ بن لادن کی سعودی شہریت منسوخ کر دی اور اس کی فیملی پر 7 ملین ڈالر کا کیس کر دیا۔ سعودی عرب کے بادشاہ آج بھی ہر سال کئی عالم دین کے سر قلم کر دیتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ ان کو بادشاہوں کی کسی بات پر اختلاف ہو جاتا ہے۔
سوڈان پر سعودی عرب اور امریکہ مسلسل اسامہ بن لادن کی وجہ سے پریشر ڈال رہے تھے لہذا سوڈان نے اسامہ بن لادن کو سوڈان سے جانے کے لیے سہولیات دینے کا فیصلہ کیا اور 1996 میں ایک چارٹر فلائیٹ کے زریعے اسامہ بن لادن کو افغانستان بھیج دیا گیا جہاں اسامہ بن لادن نے 1996 میں ہی امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اس نے سعودی عرب کو بھی کہا کہ اعراقی خطرہ 1990 میں ہی ختم ہو گیا تھا مگر اب 1996 تک امریکی فوج سعودی عرب میں کیوں ہے؟ اسامہ بن لادن کو کنگ فہد کے امریکہ کے ساتھ اتحاد پر سخت اختلاف تھا۔
اسامہ بن لادن کا نظریہ تھا کہ “مشرق وسطی کی برائیاں، امریکہ کا خطے پر قبضہ کرنے کی کوشش اور اسرائیل کی حمایت سے پیدا ہوئیں۔ اور اس مقصد کے لیے سعودی عرب کو امریکی کالونی میں تبدیل کر دیا گیا ہے”
اسامہ بن لادن نے امریکہ کے خلاف ایک فتوی بھی جاری کیا جو لندن کے ایک اخبار “القدس العربی” میں شائع ہوا تھا۔
اس طرح اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی سرگرمیاں تیز ہو گئیں اور 9/11 کا ڈرامہ رچایا گیا کیونکہ امریکہ کے پاس اسامہ بن لادن کے خلاف کھل کر لڑنے کا ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ اس پر لیبیا میں جرمنی کے ایجنٹ کو مارنے اور کئی امریکی ایجنٹس کو مارنے کا الزام بھی تھا اور اسلامی مجاہدین کو امریکہ کے خلاف لڑنے کے لیے مالی امداد کے الزام بھی تھے مگر اس کے کوئی ثبوت نہیں تھے امریکہ کو دنیا کو دکھانے کے لیے کچھ بڑا چاہیے تھا لہذا ایک ٹاور کو گرانے کا خود ساختہ ڈرامہ بنایا گیا اور اسامہ بن لادن نے اس کی ذمہ داری لینے سے بھی انکار کر دیا اور امریکہ اسے بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ آور ہو گیا۔ کلنٹن، بش اور اوبامہ، ہر ایک صدر کے دور حکومت میں اسامہ بن لادن کے خلاف مختلف منصوبے بنائے گے۔ 2 مئی 2011 کو امریکہ نے دعوی کیا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو شہید کر دیا ہے اور لاش منظر عام پر نہ لائے جس کی وجہ سے ابھی تک دنیا امریکی دعوی کو مشکوک تصور کرتی ہے۔
اب آپ فیصلہ کریں گے کے اسامہ بن لادن کی سعودی شہریت کیوں منسوخ ہوئی اور امریکہ کو اس سے کیا مسئلہ تھا۔ اور اب ہمیں اس سے کیا مسئلہ ہے، ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارا کسی کے بارے رائے قائم کرنے کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ بات ہماری پسند کی سیاسی پارٹی نے کی ہے یا مخالف نے۔ اگر عمران خان نے اسامہ بن لادن کو شہید کہا ہے تو ن لیگ والے اور پی پی پی والے اس سے اختلاف کریں گے جبکہ پی ٹی آئی والے اتفاق کریں گے۔ اگر یہی بات ن لیگ یا پی پی پی کا کوئی لیڈر کرتا تو ان کے کارکن اتفاق کرتے جبکہ یہی پی ٹی آئی والے دہشت گرد قرار دیتے۔ ہمارے ذہن بھی لگتا ہے ہمارے سیاستدانوں نے کنٹرول کر لیے ہیں ہم خود سے کچھ سوچنے اور فیصلہ کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں۔
شام، ایران، عراق، فلسطین، افغانستان، کشمیر اور حتکہ ہمارا پاکستان بھی امریکہ کے شر سے محفوظ نہیں، بتائیں حال ہی میں برما میں مسلمانوں کی نسل کشی پر امریکہ نے کتنے بدھ مت مطلوب لسٹ میں شامل کیے تھے؟ کوئی بھی نہیں۔ اور ہم یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ جن حالات میں بھی مگر امریکہ کے خلاف لڑنے والا شہید ہے یا نہیں۔ بطور مسلمان آپ کیا دلیل رکھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن دہشت گرد تھا؟ صرف یہ کہ وہ امریکہ کو مطلوب تھا امریکہ کی اپنی چولیوں اور امریکی اتحادیوں کے اسامہ بن لادن سے اختلاف کی وجہ سے اور عمران خان نے اسے شہید کہہ دیا؟ اگر آپ کے پاس یہی دلیل ہے تو آپ ذہنی معزور ہو چکے ہیں۔ کسی پارٹی کا سیاستدان ملکی خزانہ لوٹ کر بھاگ رہا ہو اور کسی کھائی میں گر کر مر جائے تو آپ اس کی قبر پر پانچ فٹ کی تختی لگا دیتے ہیں شہید کی اور اسامہ بن لادن کو شہید کہنے پر آپ کو اختلاف ہوتا ہے۔ جہاد کو لبرل میڈیا نے ایک گناہ بنا کر پیش کر دیا ہے نئی نسل کے آگے جبکہ جہاد اسلام کی روح ہے اور اس کے بغیر مسلمان اور اسلام محفوظ نہیں ہو سکتا۔ کسی کا حق چھینوں نہ اور اپنا حق کسی کو لوٹنے نہ دو۔
عمران خان سے اختلاف کرنے کے لیے آپ کے پاس ہزار وجوہات ہیں ان پر ہی اختلاف کرتے رہیں تو کافی ہے۔
جن کے آئیڈیل رنجیت سنگھ اور راجہ داہر جیسے لوگ ہیں ان سے اسامہ بن لادن کی شہادت کی تصدیق کی ضرورت ہی نہیں۔ اسامہ بن لادن شہید ہے اور اسے اسلامی نظریے سے شہید ہی کہا جائے گا ۔
علامہ اقبال رح فرماتے ہیں
فتوی ہے شيخ کا يہ زمانہ قلم کا ہے
دنيا ميں اب رہی نہيں تلوار کارگر
ليکن جناب شيخ کو معلوم کيا نہيں؟
مسجد ميں اب يہ وعظ ہے بے سود و بے اثر
تيغ و تفنگ دست مسلماں ميں ہے کہاں
ہو بھی، تو دل ہيں موت کی لذت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر
تعليم اس کو چاہيے ترک جہاد کی
دنيا کو جس کے پنجہ خونيں سے ہو خطر
باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے
يورپ زرہ ميں ڈوب گيا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہيں شيخ کليسا نواز سے
مشرق ميں جنگ شر ہے تو مغرب ميں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زيبا ہے کيا يہ بات
اسلام کا محاسبہ، يورپ سے درگزر!