اسامہ بن لادن کا ڈرائیور، عافیہ صدیقی کا بیٹا اور اللہ نذر کے بال بچے
اسامہ بن لادن کا ایک سایہ تھا۔ اس کو سلیم ہمدان کہتے ہیں۔ اسامہ بن لادن نے کیا کھایا ہے، کیا کھائیں گے،کیا پہنا تھا، کیا پہنیں گے، کہاں سے آ رہے ہیں، کہاں جانا ہے، اگلا ٹھکانہ کہاں ہے، پچھلا ٹھکانہ کون سا تھا، کس نے ملنے آنا ہے، کون مل کے گیا ہے، کس کو ملنے نہیں دیا گیا؟ یہ سب ہمدان جانتا ہے۔ ہمدان کو پکڑ لیجیے، گویا اسامہ بن لادن کو گدی سے پکڑ لیا۔
ہمدان کا تعلق یمن سے ہے۔ نوے کے اوائل میں مٹکتے بھٹکتے افغانستان پہنچ گیا تھا۔ 1994 میں القاعدہ کے یمنی لڑاکوں سے رابطے میں آیا۔ تیزی سے ہر منزل عبور کرتا ہوا اسامہ بن لادن تک پہنچ گیا۔ ہمدان کی ذہانت، دیانت اور کام سے کام رکھنے کی عادت نے اسامہ بن لادن کی توجہ کو کھینچ لیا۔ 1996 کے اواخرمیں اسامہ بن لادن نے اسے اپنا ڈرائیور رکھ لیا۔ انسان کے فرشتے جو نہیں جانتے وہ کوچوان جانتا ہے۔ کوچوانی اور دربانی اعتماد کا عہد و پیمان ہیں۔ دربان بگڑجائے تو لنکا ڈھا سکتا ہے۔ مطمئن رہے تو مصیبت پر نہیں مارسکتی۔ ہمدان کوچوان بھی تھا اور دربان بھی۔
سن 2000 تک ہمدان تیرہ شبوں اور وحشتوں کا ساتھی رہا۔ 2001کا سن آ گیا۔ القاعدہ کے ہائی جیکرز نے چار امریکی طیارے ہائی جیک کرلیے۔ دو طیارے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر مار دیے گئے۔ ایک جھٹکے میں ہزاروں گھر اجڑ گئے۔ ایک طرح کا سناٹا تھا جو دنیا نے اوڑھ لیا تھا۔ ان عمارتوں کو موجود ہونے تک جو دنیا تھی وہ معدوم ہونے کے بعد نہیں رہی۔ جیسے کسی دہکتے ہوئے سیارے کا دروازہ بھک سے کھلا ہو اور انسانیت یکلخت اس میں داخل ہوگئی ہو۔ چشمِ حیراں میں بس ایک ہی سوال ہو، اب کیا ہوگا؟ چشمِ زدن میں سب کچھ بدل گیا۔ ایک چیز پھر بھی نہیں بدلی۔ کل کی دنیا میں بھی جنگ کا میدان افغانستان تھا، آج کی دنیا میں بھی میدان جنگ افغانستان ٹھہرا۔ یعنی افغان مرگئے، کوہسار باقی۔ الحکم للہ والامر للہ۔
نائن الیون کے دو ماہ بعد ہمدان شمالی افواج کے ہتھے چڑھ گیا۔ فورا امریکی افواج کے حوالے کیا گیا اور گوانتاموبے پہنچادیا گیا۔ گوانتاموبے جیل جارج ڈبلیو بش کی شقاوت قلبی کا مظہرہے۔ یہ دور جزیرے پہ قائم ایک پنجرہ ہے۔ جہاں انسانوں کو آدمیت کی تذلیل کے واسطے رکھا گیا تھا۔ نئی دنیا میں پرانی دنیا کے جتنے انسان سوز تجربے ممکن تھے، اسی پنجرے میں دہرائے گئے۔ ملا عبدالسلام ضعیف کے وہ دن پڑھیے جو اس پنجرے میں گزرے۔ پِتہ پانی ہوجائے، دانتوں تلے پسینہ آجائے۔ یہ پرانا چلن ہے۔ تسلط اور توسیع کے عزائم سے ایسے ہی نمونے جنم لیتے ہیں۔
گئے وقتوں میں کالا پانی تو تازہ وقتوں میں بلیک واٹر۔ گوانتاموبے میں جارج بش نے ملٹری کمیشن سسٹم قائم کیا۔ یہ سسٹم نہ تو فوجی عدالتی نظام کے دائرے میں آتا تھا اور نہ ہی سول عدلیہ کے تحت۔ یہ نظام صرف جارج بش کی خواہش کے تابع تھا۔ یہاں طے شدہ فیصلے سنائے جاتے تھے۔ یہیں ہمدان کو جنگی قیدی ڈیکلئر کیا گیا تھا۔ معاملے نے اس وقت ڈرامائی موڑ اختیار کرلیا کہ جب ہمدان نے دعوی کیا کہ میں جنگی قیدی نہیں ہوں۔ میں اسامہ بن لادن کا تنخواہ دار ڈرائیور تھا، القاعدہ کا رکن نہیں تھا، اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ذاتی ملازم کوجماعت کا رکن تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہی بات ہے جوعاصمہ جہانگیر نے تب کہنے کی ہمت کی تھی جب ایبٹ آباد آپریشن کے بعد اسامہ بن لادن کی فیملی کو حراست میں رکھا گیا تھا۔ عاصہ جہانگیر نے کہا تھا “اسامہ بن لادن کی اہلیہ کو دہشت گرد قرار دے کر زیرحراست نہیں رکھا جا سکتا”۔ یہی بات تب کہی گئی تھی جب عافیہ صدیقی کو بچے سمیت امریکی افواج کے حوالے کیا گیا تھا۔
دو باتوں پر غورکیجیے۔ پہلی یہ کہ گوانتانامو بے جبر و قہر کی تجربہ گاہ تھی۔ دوسری یہ کہ ہمدان پر دہشت گرد ہونے کا گمان غالب تھا۔ خود ہی بتائیے، اگر آپ سے کہا جائے کہ یہ شخص ملا عمر کا خانساماں تھا تو آپ کیا سمجھیں گے؟ سہولت کار و مددگار ہی سمجھیں گے نا؟ اب اگلی بات پر غور کیجیے۔ اس پورے منظرنامے کے باوجود ہمدان کے اس دعوے کو دبایا نہیں جاسکا جس میں اس نے ملٹری کمیشن کے فیصلے کو مسترد کیا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد یہ پہلا مقدمہ تھا جو کسی جنگی قیدی کے خلاف جارج بش کے ٹریبونل میں چل رہا تھا۔
کئی برس جیل میں گزرے، مگر کیس کو فیڈرل اپیلز کورٹ تک رسائی سے کوئی نہیں روک سکا۔ پھر یہ دیکھیے کہ سماعت کے آغاز پر ہی اپیلز کورٹ نے قبول کرلیا کہ ہمدان اسامہ بن لادن کا تنخواہ دار ڈرائیور تھا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ بین الاقوامی قانونِ انسانیت کے تحت اسامہ بن لادن کی سزا ہمدان کو نہیں دی جا سکتی۔ کورٹ نے ہمدان کی سزا خارج کردی۔ یوں وزیردفاع رمز فیلڈ کو شکست ہوئی اور قیدی ہمدان جیت گیا۔ اسی فیصلے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے ملٹری کمیشن کے خلاف آواز اٹھائی۔ کانگریس میں گوانتاناموبے کے حوالے سےطویل مباحثے ہوے۔ ماہرین قانون نے تحقیقی مقالے لکھے۔ ذرائع ابلاغ پر مسلسل تشویش کا اظہار ہوا۔ اگست میں فیصلہ سنایا گیا، نومبر 2008 میں محکمہ دفاع نے سلیم ہمدان کو خصوصی طیارے کے ذریعے صنعا کے ہوائی اڈے پر فوجی بیس پہنچایا گیا۔ وہاں سے ہمدان کو مقامی جیل منتقل کیا گیا۔ ڈیڑھ دو ماہ کی ضروری کارروائی کے بعد جیل کا پھاٹک اٹھا دیا گیا۔ ہمدان تب سے یمن کے دارلحکومت صنعا میں ٹیکسی چلا رہا ہے۔
ایک ہم ہیں۔ ہم شعر نیا کہتے ہیں۔ ہم یا تو نیک محمد کو ہار پہناتے ہیں یا پھر اس کو معصوم بیوی بچوں سمیت جلا کر بھسم کر دیتے ہیں۔ ہم عافیہ صدیقی کو ماورائے عدالت اٹھاتے ہیں، سو اٹھاتے ہیں، اس کے نومولود بچے کو بھی اچک لیتے ہیں۔ اللہ نذر پر ادھار چڑھا ہو تو اس کی اہلیہ سے حساب بے باق کرتے ہیں۔ دراصل ہمارےاجتماعی شعور نے غلط کو درست تسلیم کر لیا ہے۔ جس کا اظہار ہر سطح پر ہوتا ہے۔ ایک مرکزی ٹی وی چینل کا اینکر گزشتہ دنوں بلٹ پروف جیکٹ پہن کر عذیر بلوچ کے گھر میں داخل ہوا۔ داخل ہوتے ہی اس کا سامنا عذیر بلوچ کے معصوم بیٹے سے ہوا۔
بچہ اینکر کے پاوں میں سہما سہما کھڑا ہے، اینکر عذیر سے متعلق آن کیمرہ گفتگو جاری رکھا ہوا ہے، بچہ دیکھ رہا ہے۔ اینکر کمرے میں داخل ہوا تو عذیر کی ماں دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑی ہیں۔ عذیر نے دوباتیں ماں سے کیں۔ پھر ماں کے ساتھ ہی کھڑے ہوکر عذیربلوچ سے متعلق ناظرین سے گفتگو شروع کردی۔ جو الفاظ وہ اینکر کہہ رہا تھا، ان میں کافی سچائی تھی، مگر ان الفاظ نے ایک بے قصور ماں کا دل بہت دکھی کردیا۔ وہ بے تکان بولے جارہا تھا ماں آنسو پیے جارہی تھی۔ اینکر ایک قدم ہٹا تو ماں کا ضبط جواب دے گیا۔ ایک چیخ سنائی دی، اور میں نے ٹی وی بند کرکے کتاب اٹھالی۔ کتاب میں لکھا کچھ تھا، میں پڑھ کچھ رہا تھا۔
بہت واضح محسوس ہوا کہ ہماری ذہنی حالت اب قابل رحم ہو چکی ہے مگر ہمیں احساس نہیں ہے۔ ہم ایک اذیت پسند معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ ہم اس معاشرے میں یہ سوال نہیں اٹھا سکتے کہ اس اینکر کو بنا اجازت گھر میں داخل ہونے کا حق کس نے دیا۔ اینکر سے چیف نے بھی نہیں پوچھا ہوگا کہ عذیر بلوچ کے کیے کی سزا اس کے بے زبان بچے کو کیوں دی؟ عذیر بلوچ کے عمل کی سزا اس کی بوڑھی ماں کو کیوں دی؟ یہ سارے سوال آپ اس لیے نہیں اٹھا سکتے کہ یہ معاشرہ کسی بھی مجرم کو کسی بھی انسانی حق کا حقدار نہیں سمجھتا۔ مجرم کے اہل خانہ کو ہم اذیت اس لیے دیتے ہیں کہ ہم شعوری طور پر اسے جرم کی جائز سزا تصور کرتے ہیں۔۔
ڈاکٹر اللہ نذر ریاست پاکستان کے شہری ہیں۔ انہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں۔ ازروئے آئین و قانون وہ ریاست کے باغی ہیں۔ اپنے کیے کے لیے وہ اسٹیٹ کو جوابدہ ہیں۔ مگر اس کے بچے؟ مگر اس کی بیماراہلیہ؟ انہیں کیوں حراست میں لے لیا گیا۔ یہ سوال آپ نہیں اٹھا سکتے۔ اس لیے نہیں کہ ہم دہشت گرد کی اہلیہ کو بھی دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ اہلیہ کے لیے آواز اٹھانے کو بھی ہم ریاستِ پاکستان سے غداری سمجھتے ہیں۔ صاحب! مشکل یہ نہیں ہے کہ ہم کچھ غلط کررہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم غلط کو باقاعدہ درست سمجھ رہے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“