سائرہ کروپ : آپ کو کیا زیادہ پسند ہے۔۔ غم کی کہانیاں یا خوشی کے افسانے۔۔؟
پاموک : میں بہت غمگین یا بہت خوش ہونے سے خائف نہیں ہوں۔۔ ناول لکھنا صرف ایک کہانی کا بہت دلچسپ انداز میں بندوبست کرنا ہی نہیں بلکہ قاری کے جذبات کو سنھبالا بھی ہے۔۔ کردار صرف ایک پلاٹ کا تعاقب کرنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اُنہیں اُس جذبے کو بھی لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے جو کرداروں کے احساسات کی شناخت کے ساتھ وارد ہوتا ہے۔۔۔ کچھ ادیب اپنے محسوسات کو میلو ڈرامائی بنانے سے ڈرتے ہیں۔۔ میں اُن جیسا نہیں ہوں۔۔ میں اُن احساسات سے خائف نہیں ہوں۔۔
سائرہ کروپ : کیا آپ کبھی خوشی کے انجام کے ساتھ محبت کی کوئی کہانی لکھنے پر غور کرینگے۔۔؟
پاموک : فکشن میں کچھ بھی ممکن ہے۔۔ ہاں میں خوشی کی انجام والی ایک کہانی لکھنا پسند کرونگا مگر میں ایک ایسی لُو سٹوری لکھنا چاہوں گا جس میں ہر لمحہ مسرت کا ہوں۔۔۔ لیکن کیا یہ لوگوں کو قائل کرنے والی بات ہوگی اور کیا اِس میں قاری کی دلچسپی ٹھہر پائے گئی۔۔؟
سائرہ کروپ : کیا آپ لکھنے سے پہلے کسی ناول کا منصوبہ بنا لیتے ہیں یا لکھنے کے دوران کرداروں کو حاوی ہو جانے دیتے ہیں۔۔؟
پاموک : ایک ناول کو ہم یوں سوچیں کہ وہ پتوں سے بھرا پیڑ ہے۔۔ کوئی تمام پتوں کا تصور نہیں کر سکتا، ہم تنوں اور شاخوں کو تو سوچ سکتے ہیں۔۔ پھر ایک ایک کر کے پتوں کی تخلیق کرتے ہیں۔۔ یوں تو دیگر ناول نگاروں کے مقابلے میں، مَیں اپنی کہانی لکھنے سے پہلے اس سے واقف ہو جاتا ہوں۔۔ پھر میں اپنی کہانی کے ابواب بناتا ہوں۔۔ کسی باب میں اٹک جاؤں تو اُسے چھوڑ کر اگلے باب میں جا نکلتا ہوں۔۔ اِس سے میں وقت اور جسے امریکی لوگ ” ادبیوں کے روکاوٹ ” کہتے ہیں دونوں سے بچ نکلتا ہوں۔۔ ای ایم فورسٹر نے کہا تھا کہ ؛
کردار کہانی پر قابض ہو جاتے ہیں اور جہاں چاہیں کہانی کو اپنے بس میں کر لیتے ہیں۔۔ لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔۔ آپ چاہیں تو پلان کر سکتے ہیں۔۔
سائرہ کروپ : کیا یہ ضروری ہے کہ ایک ادیب اپنے کلچر کی جڑوں میں اُترا ہوا ہو اور کیا یہ صرف اُسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنی زبان میں لکھتا ہو۔۔؟
پاموک : میں ترکی میں لکھتا ہوں۔۔ میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا کہ کوئی اپنی مادری زبان میں نہیں لکھے گا۔۔ لیکن میں اُن قلمکاروں کے بارے میں بھی سوچتا ہوں جو اپنی زبان میں کتابیں نہیں چھپوا سکتے، مثلاً Nabokov اور Conrad جو جلاوطنی میں تھے اور اِس لیے انگریزی میں لکھنے پر مجبور ہوئے۔۔
میرے لیے سب سے جزباتی بات لکھنے کی سرخوشی ہے جو اپنی مادری زبان میں لکھنے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔۔
لیکن میں میلان کنڈیرا سے لیکر کونراڈ تک اُن ادیبوں کی بھی عزت کرتا ہوں جنہیں دوسری زبانوں میں لکھنا پڑا۔۔ آخر ادب، خود اظہاریت کا نام ہے اور ہمیں ادیب کا احترام کرنا پڑتا ہے چاہیے وہ جس زبان میں لکھے۔۔
سائرہ کروپ : کیا آپ ترکی کے لیے آرزو مندی کے احساس کے ساتھ لکھتے ہیں۔۔؟
پاموک : اپنے کلچر سے دور رہنا اور اس سے محبت رکھنا مصنف کے لیے اچھا ہے۔۔ اِس سے غصہ نرم ہو جاتا ہے لیکن ایک شیریں ناسٹلجیا بھی ہوتا ہے جو کتاب میں چیزوں کو زیادہ پُرکشش بنا دیتا ہے۔۔ لیکن میں ترکی سے سال میں چار مہینوں سے زیادہ باہر کبھی نہیں رہتا۔۔
سائرہ کروپ : کیا مڈل ایسٹ میں ناول زندہ ہے اور بخیریت ہے۔۔؟
پاموک : ناول کا آرٹ ساری دنیا میں زندہ ہے اور خیریت سے ہے۔۔ ناول مر گیا ہے ایسی جھوٹی افواہوں سے آپ گمراہ نہ ہوں۔۔ ناول کی آرٹ پر اب چینیوں، ہندوستانیوں، ترکوں نے قبضہ کر لیا ہے۔۔ عالمی ادب کے بازار میں پرانی کولونئیل سوسائٹیاں نمودار ہونے لگی ہے۔۔ ہندوستان، کوریا، افریقہ، لاطینی امریکہ۔۔ یہ پیش رفت معیشت میں ترقی کے متوازی ہے۔۔ ہاں، اُنہیں صحیح منظوری کبھی نہیں ملے گی۔۔ اگر کوئی ویتنامی، کوریائی، منڈران زبانوں میں لکھتا ہے تو اُسے پبلشر ملنا مشکل ہے۔۔ اور ان میں سے بیشتر ملکوں کے بارے میں انگریزی ادیب ہی لکھتے ہیں جو مغرب میں رہتے ہیں۔۔ لیکن یہ صورتحال بدل جائے گئی۔۔
سائرہ کروپ : کیا ادیبوں پر بنیاد پرستی اور آزادی اظہار کی حمایت میں بولنا یا لکھنا فرض ہے۔۔؟
پاموک : ادیبوں پر فرض نہیں ہے کہ وہ سیاسی باتوں کو قبول کریں البتہ اپنے وطن اور دنیا کے شہری ہونے کے ناتے سے سچ کا اظہار کرنا ہمارا فرض ہے۔۔ وہ آپ کو مجبور کر دینگے، جیل میں ڈال دیں گے اور آپ جانتے ہیں ایک شخص خاموش رہ کر اپنی عظمت کو برقرار رکھ لیتا ہے، ورنہ سچ بولنا تو نسبتی relative امر ہے۔۔
ناول کا آرٹ صرف خود کا اظہار نہیں بلکہ یہ اِن لوگوں کو سمجھنے کا آرٹ بھی ہے جو ہم جیسے نہیں ہے۔۔ یہ امتیازی انسانی وصف۔۔۔ یعنی اُن لوگوں کے ساتھ شناخت کے قابل بن جانا جو ہم جیسے نہیں ہیں۔۔ اسے ہم ترس یا رحمدلی کہتے ہیں۔۔ تو ناول کا آرٹ اُن لوگوں کے لیے ترس یا رحم محسوس کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے جو ہم جیسے نہیں ہے۔۔ اِس سے ناول کارگر بن جاتا ہے۔۔ میری کتابوں میں، میں نے خود کو ایک بنیاد پرست دہشت کے ساتھ ائڈینٹفائی کرنے کی بہترین کوشش کی ہے، میں اگر اس کے سیاسی نظریات سے متفق نہ ہوں، تب بھی۔۔
البتہ ناول نگار کا محرک اخلاقیاتی حکم صادر کرنے کے بجائے اُن باتوں کو سمجھنے میں مضمر ہے۔۔
سائرہ کروپ : کیا آپ کچھ ہندوستانی ادیبوں کو پسند کرتے ہیں اور ان کا آپ پر کبھی کوئی اثر رہا تو کیسا تھا یا ہے۔۔؟
پاموک : میرے کئی ہندوستانی دوست ہیں۔۔ اُن کے بارے میں کرن دیسائی سے بات کرتا ہوں۔۔ سلمان رشدی سے لے کر امیتابھ گھوش، نیپال سے پنکج مشرا تک میں اِن سبھوں کو پڑھتا ہوں۔۔۔
سائرہ کروپ : کیا ترکی میں مغریبانے کے عمل اور روایت کے مابین دیگر ملکوں مثلا ہندوستان سے زیادہ مقابلہ ہوتا ہے۔۔؟
پاموک : مغرب کی منظوری حاصل ہو جائے اور یہ کہ مغرب آپ کو بہ خوبی سمجھ لے، یہ خواہش ہر جگہ یکساں پائی جاتی ہے۔۔ مغرب اور یورپ کے خلاف غصہ اور احتجاج بھی شاید ایک جیسا ہی ملتا ہے۔۔ مسلہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں روایت کو اس طرح کیسے زندہ رکھا جائے کہ ہم یہ محسوس کریں کہ ہم اپنی جڑوں سے دور نہیں ہو رہے ہیں، ہم ایک تاریخ سے متعلق ہیں، ایک تسلسل سے جڑے ہوئے ہیں۔۔۔ اور جدیدیت کی طرف بڑھتے ہوئے ہم اپنی عظمت کو گنوا نہیں رہے ہیں۔۔۔
سائرہ کروپ : آپ قلم اور کاغذ کا استعمال کرتے ہیں لکھنے کے لیے۔۔؟
پاموک : جس وقت لیپ ٹاپ انقلاب آیا میں ہاتھ سے لکھنے کا ہی عادی تھا۔۔۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی زندگی کا ڈھب نہیں بدلوں گا۔۔۔ گارسیا مارکیز نے ایک بار کہا کہ ؛
کمپیوٹر آنے سے اُس کی لکھنے کی رفتار بڑھ گئی ہے۔۔ شاید ایسا ہوا ہو۔۔۔ ممکن ہے، لیکن میں اپنی عادتوں میں قدامت پرست، کنزروٹیو واقع ہوا ہوں۔۔۔
سائرہ کروپ : آپ کے اگلے ناول کے پیچھے کیا خیال ہے۔۔؟
پاموک : جب میں پیدا ہوا استنبول دس لاکھ کی آبادی والا شہر تھا۔۔ اب بتاتے ہیں کہ آبادی 11 یا 12 لاکھ ہو گئی ہے۔۔غریب اناطولیہ سے چھٹی یا ساتویں دہائی میں اور پھر 2005 تک ہجرت کر کے لوگ یہاں آتے رہے۔۔ میں ایک ناول لکھ رہا ہوں جو ایک طرح سے ترکی میں رفیوجیوں کے اس زبردست انخلا کی تصویر کشی کرتا ہے۔۔۔اولین جھونپڑ پٹیوں – خوانچہ فروشوں – پرانی طرز کے ناولوں کے سارے مواد کے ساتھ فنٹاسی کے Surrealistic لمس کے ساتھ۔۔
سائرہ کروپ : کیا تخلیقی تحریر واقعی سکھائی جا سکتی ہے۔۔؟
پاموک : یہ ممکن تو ہے لیکن شاید زیادہ استعداد کے ساتھ نہیں۔۔۔ ایسے مصنف ہیں مثلا کا زُوو اِشی گرو، فلینری او کونّر، (Kazuo Ishiguru,Flannery O Conner)
جنہوں نے تخلیق نگاری سیکھی اور بڑے ادیب بن گئے۔۔کچھ مثبت ہو تو رہا ہے، اِس سے ہم انکار نہیں کر سکتے لیکن ہمیشہ ایسا ہوا ہو یا ہو جائے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔۔۔
•••
ترجمہ : ف س اعجاز
حوالہ : رسالہ انشاء کلکتہ
انتخاب و ٹائپنگ : احمد بلال
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...