عرفی اور فیضی کی غزل گوئی کے اسلوب نے اردو غزل کے لئے مہمیز کا کام کیا۔بالخصوص اردو کے دو بڑے شعراء میری مراد غالب و اقبال نے عرفی کا اسلوب اختیار کیا۔ یاد رہے کہ کسی حد تک عرفی اور فیضی کااسلوب ملتا جلتا ہے ۔ مغلیہ عہد کے یہ دونوں شعراء حریت فکر کے المبردار ہوئے ہیں ۔ نظیری اور طالب آملی نے غزل میں معاملات اور رشتوں کی باریکیوں پر توجہہ دی ۔غنی کاشمیری نے صائب کے تتبع میں تمثیل اور تشبیہہ پر زور دیا اور اتنا غلو کیا کیا کہ مزاق سخن ہی بدل کر رکھ دیا غزل غزل نہ رہی بلکہ تمثیل و تشبیہہ کی تجربہ گاہ بن گئی ۔ امیر خسرو نے ایرانی طرز کی عاشقانہ غزلیں کہی ۔ ان کا سفر کوئے مغاں اور بزم رنداں کے بیچ میں ہی رہا ۔ اور وہ غزل میں تخیل کی بلندیوں کو نہ چھو سکے ۔ حافظ نے سرمستی کا ڈھونگ رچایا اقبال نے انکی خوب خبر ہے ۔ حافظ کی شاعری شعور کا ترفع کا سامان نہ پیدا کرسکی ۔سعدی نے غزل کی طرح نئے ڈھنگ سے اٹھائی جو کہ پسند کی گئی۔ بیدل کے یہاں غزل کے مضامین اور علاقے وسیع اور عریض ہوجاتے ہیں لیکن مشکل پسندی اور پیچیدہ گوئی نے پھر غزل گوئی کی سلاست اور روانی کو متزلزل کردیا۔نتیجۃً ہمیں عرفی کی طرف لوٹنا پڑتاہے ۔ اور فیضی نے بھی غزل کی صحیح نہج پکڑی اور اپنے تیور دکھائے ہیں الغرض عرفی اور فیضی کے یہاں تخیل اور ہنر کا نہایت وقیع و رفیع تر امتزاج دکھائی دیتا ہے ان کی غزل گوئی ہمارے شعور کو بلند کرتی ہے اور معیار بھی قائم کرتی ہے ۔ یہ وہی معیار ہے جس کا آغاز مظہر جان جاناں نے خریطۂ جواہر کے انتخاب کے ذریعہ کیا تھا ۔ عرفی کے یہاں غزل نے بلند پرواز بھری اور طولالی جست لی ۔ بیشک عرفی کی غزل گوئی نے آگے چل کر ہماری اردو غزل کے معیار کا تعین کیا۔ عرفی کے مقابلے میں فیضی کے معیاری اشعار تعداد میں کم سہی لیکن غزل کے صحیح مزاج کی آئینہ برادری کرتے ہیں جس کا ذکر آگے صفحات پر ہوگا یہی جدید اردو غزل کی نہج ہے جس کو میر غالب اور اقبال نے اردو میں فروغ دیا اقبال کے یہاں غزل کی سرحد نظم سے جا ملتی ہے ۔ بہر کیف عرفی کے تخیلات کی بازگشت اقبال اور غالب کے علاوہ دوسرے شعراء کے یہاں بھی سنائی دیتی ہے ۔
غالب تو عرفی کے دیوانے تھے ۔ اور انہوں نے عرفی کے فکر و فن کی ستائش کی ہے اور ان سے کسب فیض بھی بہت کیا ہے غالب کے یہاں عرفی کے تتبع کی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں ۔
کیفیتِ عرفی طلب از طینتِ غالب
جامِ دگراں بادۂ شیراز ندارد
غالب
ترجمہ : عرفی کی کیفیت کو غالب کی مٹی سے ڈھونڈو ۔(غالب کے علاوہ ) دوسروں کے جام میں بادۂ شیراز نہیں ہے۔ در اصل غزل تو بادۂ شیراز ہی ہے جو فارسی کے خم خانہ سے نکل کر اردو اردو کے گنبدِ مینا میں آپہنچا ہے ۔
غالب و عرفی تقابلی مطالعہ :
مثال۱
زبان ز نکته فرو ماند و راز من باقی است
بضاعت سخن آخر شد و سخن باقی است
عرفی
غالب نے یہی خیال ندرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
غالب
مثال۲
از من بگیر عبرت و کسبِ ہنر مکن
با بخت خود عداوت ہفت آسمان مخواہ
عرفی
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
غالب
مثال۳
مردم کارگہ عشق ہنر مندانند
بیستون گر بشگافند دگر کاری ہست
عرفی
کارگاہ عشق کے لوگ ہنر مند ہیں بیستوں پہاڑ فرہاد نے کاٹ ڈالا لیکن اور بہت سارے کام کرنے باقی ہیں۔
کوہ کن گرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب
بے ستوں آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں
غالب
ہوسکے کیا خاک دست و بازوے فرہاد سے
بیستوں خواب گران خسرو پرویز ہے
غالب
مثال ۴
فروغِ آفتابم نہ بود خبر کہ بے تو
چو دو زلف تست یکساں، شب و روزم از سیاہی
ترجمہ : تیرے بغیر دن رات دو کالی لٹوں کی طرح یکساں تھے مجھے آفتاب کے چمکنے کی خبر ہی نہیں تھی ۔
جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو
غالب
مثال ۷
نماند قاعده ی مهر کوهکن به جهان
ولی عداوت پرویز و کوهکن باقی است
عرفی
دھمکی میں مر گیا جو نہ بابِ نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ، طلب گارِ مرد تھا
غالب
مثال ۷
راہی کہ خضر داشت ز سرچشمہ دور بود
لب تشنگی زراہ دگر بردہ ایم
عرفی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
غالب
مثال ۹
بہ کیشِ برہمناں آں کس از شہیدان است
کہ در عبادتِ بت روئے بر زمیں میرد
ترجمہ : برہمنوں کی مذہبی رسومات کے مطابق شیہد وہ ہے، جو بت کے سامنے سجدے کی حالت میں جان دے دے۔
وفاداری بشرطِ استواری، اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
غالب
مثال۔ ۱۰
غافل مرو کہ تا درِ بیت الحرام عشق
صد منزلست و منزل اول قیامتست
عرفی
ترجمہ : غافل مت رہو کہ بیت الحرام تک پہنچتے سے پہلے راہ میں سو مرحلہ آتے ہیں اور ان میں پہلا مرحلا قیامت ہے۔
دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
غالب
مثال ۱۱
عشق می خوانم و می گریم زار
طفلِ نادانم و اول سبق است
عرفی
عشق کا سبق لیتا ہوں اور زار زار رو رہا ہوں۔ جیسے نادان بچے کی حالت پہلے سبق میں ہوتی ہے۔
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
غالب
اقبال عرفی سے بہت پی متاثر ہوئے انہوں نے عرفی کے نیچے دیے گئے مشہور شعر کی تضمین میں طلوع اسلام جیسی مشہور نظم لکھ دی ۔
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمه کم یابی
حدی را تیز تر می خوان چو محمل را گراں بینی
عرفی
ترجمہ- اگر ذوقِ نغمہ کم ہوگیا ہے تو اپنی نوا کر تلخ تر کر دے، اگر اونٹ پر بوجھ زیادہ ہو تو حدی خواں اپنی لے اور تیز کر دیے ۔ اقبال متاثر ہی نہیں بلکہ عرفی سے مرعوب تھے ۔ عرفی کا شعر اقبال کی نظم میں در آبدار کی چمکتا ہوا صاف الگ نمایاں اور منفرد دکھائی دیتا ہے ۔ عرفی کے زور بیان کا جواب نہیں ۔ تاہم
نیچے دیے گئے اشعار کے تقابلی مطالعہ سے صورت حال واضح ہوجاتی ہے۔
عرفی و اقبال کا تقابلی مطالعہ :
مثال۱
عرفی به گیتی از خلد آمد که باز گردد
غافل که تازه پرواز گم سازد آشیان را
عرفی
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
اقبال
مثال ۲
عنایت صمدی رد کفر ما نکند
اگر کمال بہ دیر و صنم پرستی ما
عرفی
اگر ہو عشق تو ہےکفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافرو زندیق
اقبال
مثال ۳
گر سلیمانست وگر موری کہ در معنی گداست
ہر کہ دست از آبرو شست لبِ نانی شکست
عرفی
مانگنے والا گدا ہے ،صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا
اقبال
مثال ۴
از منطق و حکمت نکشاید پر معشوق
اینها همه آرائش افسانهٔ عشق است
عرفی
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے
اقبال
مثال ۵
ای که گشود چشم جان ، در طلب حقیقتی
طرف نقاب بر فکن ، پردگی حجاز را
عرفی
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
اقبال
مثال۶
من از فریب عمارت گدا شدم ورنہ
ہزار گنج بویرانۂ دل افتاد است
عرفی
ترجمہ : مجھے عمارت گری کے فریب نے گدا بنا دیا ورنہ دل کے ویرانہ میں ہزار گنج پڑا ہوا ہے
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
اقبال
مثال۷
در معرکۂ عشق زبون شو کہ درین رزم
ہر کس کہ بصد رنگ شہیدیست شجاعیست
ترجمہ: عشق کے معرکہ میں زیردست ہونا چاہئے جو سو طرح سے شہید ہو وہی بہادر ہے
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق.
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اقبال
مثال۹
ما طایر قدسیم سراسیمه در این دهر
کیفیت این آب و هوا را نشناسیم
عرفی
ترجمہ: میں سراسیمہ طائر قدسی ہوں ۔مجھے اس دنیا کی آب و ہوا موافق نہیں آتی۔
اقبال نے یہی خیال الٹ پلٹ کر ہیش کردیا لیکن انداز ملتا جلتا ہے اور خیال کی پرواز بھی ۔
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اقبال
مثال ۱۰
مردم کارگہ عشق ہنر مندانند
بیستون گر بشگافند دگر کاری ہست
عرفی
اقبال نے اس خیال کو مزید فروغ دیا
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
اقبال
مثال ۱۱
تا حرم فرشتگان از دل و دین تہی شود
رخصت جلوه ای بده، حجله نشین ناز را
عرفی
کیے ہیں فاش رموز قلندری میں نے
کہ فکر مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
اقبال
عرفی و اصغر گونڈوی ایک مثال:
هر گز مگو که کعبه ز بتخانه خوشتر است
هر جا که هست جلوهٔ جانان خوشتر است
عرفی
ترجمہ : یہ مت کہو کہ کعبہ بت خانے سے بہتر ہے بلکہ جہاں بھی جلوۂ چاناں ہے وہی جگہ بہتر ہے ۔
نہیں دیر و حرم سے کام ہم الفت کے بندے ہیں
وہی کعبہ ہے اپنا آرزو دل کی جہاں نکلے
اصغر گونڈوی
عرفی و آتش، ایک مثال :
تو پای کعبہ آمادہ کن کہ در ہر گام
ہزار خضر براہ سراغ میروید
ترجمہ: تو اپنے کعبہ کے نشان کے لئے آمادہ تو ہو ہزار خضر راستے میں ملے گا۔
آتش نے یہی خیال با تغییر پیش کیا ہے
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
آتش
عرفی اور حسرت موہانی ایک مثال :
ستم تہمت جہال نہ بر ما و تو رفت
یوسف این را متحمل شد و مریم برداشت
عرفی
ترجمہ: ہم اور تم پر ہی جہال نے ستم نہیں ڈھائے۔یوسف اور مریم نے اس قسم کی تہمتیں اور صدمے برداشت کئے ہیں ۔
رعنائی خیال کو ٹھہرا دیا گناہ
زاہد بھی کسقدر ہے مذاق سخن سے دور
حسرت موہانی
عرفی اور شاد عظیم آبادی
چرا خجل نکند چشم اشکبار مرا
که آرزوی دل آورد در کنار مرا
عرفی
ترجمہ: میری چشم اشکبار نے مجھے رسوا کیا۔ میرے دل کی آرزو کو آشکار کردیا۔ یعنی آنسو غماز ہیں جنہوں نے دل کا راز افشا کردیا۔
دیکھ لو اشک تواتر کو نہ پوچھو مرا حال
چپ رہو چپ رہو اس بزم میں غماز آیا
شاد عظیم آبادی
عرفی اور فیض احمد فیض
چرا خجل نکند چشم اشکبار مرا
که آرزوی دل آورد در کنار مرا
عرفی
کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جان جہاں غماز کیا
اعلان جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
فیض احمد فیض
گمان مبر که تو چون بگذری جهان بگذشت
هزار شمع بکشتند و انجمن باقی است
عرفی
یہی خیال اردو کے کسی شاعر نے خوب باندھا ہے
خدا جانے یہ دنیا جلوہ گاہ ناز ہے کس کی
ہزاروں اٹھ گئے لیکن وہی رونق ہے مجلس کی
ناشناس
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...