افیون اور ہیروئن
افیون در حقیقت خشخاش کے پودے کے کچے پھل کا منجمد رس ہے۔ خشخاش بذات خود نقصان دہ نہیں ہے۔ طب اسلامی اور ویدک میں بے شمار امراض کے لئے مفید ہے۔ بے خوابی کو دور کر کے نیند لاتی ہے لیکن نشیلی نہیں ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ خشخاش کے پھل کا رس اور اس سے حاصل ہونے والا معمولی سا جزو اگر نشہ آور ہے تو باقی پودے کے اجزاء کو کیوں تلف کیا جائے یا ان کی فصلوں کو جبرا کاٹ پھینکا جائے یا کاشت پر پابندی لگائی جائے۔ اس کی مثال بالکل واضح ہے۔ انگور اور کھجور سے شراب کشید کی جاتی ہے لیکن اسلامی شریعت میں نہ ان کے اگانے پر پابندی ہے۔ نہ دیگر استعمالات پر بلکہ انگور سے سرکہ تک بنانے کی اجازت ہے لیکن جب خمیر پیدا ہو کر نشہ دینے لگے تو پھر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ افیون دنیا بھر میں ہزارہا سال سے مستعمل ہے۔ قدیم یونانی اس دوا سے متعارف تھے۔ بقراط کا ہم عصر ریاگوراس اس کے استعمال سے واقف تھا اور دماغی اور نخاعی امراض کے لئے مریضوں کو دیتا تھا۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے 300 سال قبل حکیم ثاؤفر طس اور دسقیوریدوس نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ جالینوس، پلاٹینی رومی، بو علی سینا اور رازی نے افیون کی افادیت بیان کی ہے۔ چودھویں صدی میں شائع ہونے والی ایورویدک کی معروف تصنیف شارنگندھر اور سولہویں صدی میں بھاؤمشر میں اس کے سن کرنے اور نیند لانے کی کیفیت کا تذکرہ موجود ہے۔ برصغیر کے تمام معروف اطبائے کرام اور وید اسے استعمال کراتے تھے۔ کوئی طبی اور ویدک تصنیف ایسی نہیں ہے جس میں تیار ہونے والی ادویہ میں افیون بعض امراض میں مفید نہ تسلیم کی گئی ہو۔ 1979ء میں حدود آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے تک پاکستان میں آٹے اور چینی کے ڈپوؤں کی طرح افیون کے ڈپو بھی تھے لیکن کھلے عام ڈپوؤں پر اور سستی ملنے کے باوجود افیونیوں کی تعداد دیہاتوں اور قصبوں میں انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ شہروں کے اندر کسی کسی محلہ میں شاذ ہی کوئی افیمی ہوتا تھا اور اسے بھی لوگ برداشت نہیں کرتے تھے۔ حکماء اور وید جن مریضوں کو ایسی دوا دیتے تھے جن میں افیون شامل ہو، انہیں دودھ اور گھی کثرت سے استعمال کرنے کی تاکید کرتے تھے تاکہ اس کا کوئی منفی اثر نہ ہو اور اس دوا میں افیون کے نشیلے اثر اور خشکی کو دور کرنے والے مصلح بھی ڈالے جاتے تھے۔ وہ اہل مغرب کی طرح اس کے زہریلے اثرات کو شفا بخش ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتے تھے۔
امریکہ اور اقوام مغرب افیون کے نقصانات کی وجہ سے اور منشی ہونے کی بنا پر اس کے خلاف عالمی تحریک نہیں چلا رہے بلکہ
؎ سبب کچھ اور ہے جس کو تو خود سمجھتا ہے
اور وہ سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ امریکی ہپیوں اور یورپی نشہ بازوں کو سکون مغرب کی شراب کے بجائے مشرق کی افیون سے ملتا ہے اور جب 400 روپے کلو گرام بکنے والی افیون سے ہیروئن برآمد ہو کر پاکستان ہندوستان کے ڈرگ مافیا کے ایجنٹوں کے پاس پہنچتی ہے تو اس کی قیمت ایک لاکھ روپے کلو گرام اور امریکہ میں بریف کیس کی تبدیلی کے بعد کم از کم پچاس لاکھ روپے فی کلو گرام ہو جاتی ہے۔ مغرب جو اس بات کا عادی تھا کہ مشرق سے انتہائی سستے داموں خام مال خریدتا تھا اور اس سے مصنوعات تیار کر کے انہیں بیسیوں گنا قیمت پر بیچ دیتا تھا، اس معاملہ میں مات کھا گیا اور لاکھوں گورے نشئی اس سے ہم وصل ہونے کے لئے اپنا سب کچھ اس پر قربان کرنے کو تیار ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی ڈالر اور برطانوی پاؤنڈ جس کے حصول کے لئے وہ سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں، ان کا رخ مشرق کی طرف ہو گیا اور چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے مصداق اپنی دولت کو بچانے کے لئے انہوں نے ’’نشہ کے خلاف جہاد‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اگر امریکہ میں ہی ہیروئن سازی کے فیکٹریاں رہتیں اور مشرق میں قائم نہ ہوتیں تو 1981ء سے پہلے کی طرح انہیں اب بھی کوئی تکلیف نہ ہوتی۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقدار میں افیون بھارت میں پیدا ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ مارفین اور ہیروئن وہاں تیار ہوتی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ مطعون پاکستان اور افغانستان کو کیا جاتا ہے۔ جو قوم منشیات میں لتھڑی ہوئی ہو اسے یہ حق کس نے دیا کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے غیور عوام پر زبان طعن دراز کرے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“