اون کے گولے اور سلائیاں!
ہاتھوں سے بنے اون کی جرسی سوئیٹر کی نرمی و گرمی کی بات ہی کچھ اور ہے جس کے ایک ایک پھندے ایک ٹانکے میں انگلیوں کی پوروں کا لمس اور حرارت و دبازت محسوس ہوتی ہے جیسے سچے رشتوں کا سچا پیار۔۔۔
لیکن اب ہم لوگ سچے پیار کی نرمی و گرمی کے بجائے دکھاوے کی خوبصورتی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔۔
پرانے زمانے میں خواتین گھروں میں اسی طرح کی گرھستی میں مصروف رہتی تھیں۔ سردیوں کی آمد سے پہلے لحاف گدوں کی روئ نکلوا کر دھنکوائ جاتی پھر ان کو دوبارہ غلاف میں بھر کر موٹے دھاگے اور سوئے کی مدد سے ڈورے ڈالے جاتے۔ پرانے
تیز فینائل کی بو والےسوئیٹر ادھیڑ کر یا پھر بازار سے اون کے گولے اور نٹنگ سلائیاں منگوائ جاتیں۔ ان سلائیوں کے موٹائ کے لحاظ سے کچھ نمبر بھی ہوتے تھے۔ بچپن میں یاد ہے کہ اکتوبر نومبر آتے ہی امی بازار سے اون کے گولے منگواتیں اور پھر گھر میں پچھلے سال منگوائ گئ نٹنگ سلائیوں کی ڈھنڈیا پڑتی لیکن ہم گرمیوں میں ان سلائیوں کو کمان میں بطور تیر لگا کر نشانے لگاتے تھے جس کی وجہ سے وہ سلائیاں کسی کام کے قابل نہ رہتیں اور پھر نئے سرے سے سلائیاں منگائ جاتیں۔ اون ایک تو ABC برانڈ ہوتی تھی۔ دوسرا ایک اور بھی برانڈ تھا جس کا مجھے نام یاد نہیں آرہا اور وہ ABC سے مہنگا ہوتا تھا۔
موسم سرما میں میری خالہ اور امی کے درمیان باقاعدہ مقابلہ چلتا تھا کہ کون پہلے سوئیٹر مکمل کرتا ہے۔۔۔۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ میری خالہ (اللہ انہیں غریق رحمت کرے)
کا کوئ نہ کوئ پھندا غلط ہوجاتا یا ڈیزائن بگڑ جاتا یا پھر سائز میں کچھ کمی بیشی رہ جاتی اور ان کو سوئیٹر ادھیڑ کر دوبارہ نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا۔ ہماری ممانی جان نے تو باقاعدہ سنگر سے نٹنگ کی تربیت لے کر نٹنگ مشین خریدی تھی جس پر وہ دن بھر بڑے عمدہ سوئئیٹرز شالیں اور ٹوپیاں بڑے خوبصورت ڈیزائن میں بنتی تھیں۔ اس نٹنگ مشین کی بناوٹ بڑی پیچیدہ اور نازک سی ہوتی ہے اس نٹنگ مشین پر جب ہینڈل پکڑ کر سینکڑوں سلائیوں پر دائیں بائیں پھیرا جاتا ہے تو اس کی زوں زوں کی آواز بڑی بھلی لگتی تھی اور اس کے ایک ہی پھیرے میں پھندوں کی ایک پوری لائن تیار ہوجاتی تھی۔ اس سے سینکڑوں طرح کے خوبصورت ڈیزائن کے جرسی سوئیٹر انتہائ نفیس اور خوبصورت تیار ہوتے ہیں۔ آج بھی کراچی کے علاقے صدر میں سنگر شوروم موجود ہے جو اب بھی خواتین کو سلائ اور نٹنگ کی تربیت بھی فراہم کرتے ہیں اور ضرورت مند خواتین کو آسان اقساط پر نٹنگ مشینیں بھی فراہم کرتے ہیں۔ تو اس زمانے میں گھر میں ہر خاتون کسی نہ کسی کا سوئیٹر یا ٹوپی بنتی نظر آتی۔۔۔
خاص طور پر جس گھر میں کسی نئے بچے کی آمد آمد ہوتی تو وہاں تو بڑی سرگرمی سے دھڑا دھڑ ننھی ننھی ٹوپیاں رنگ برنگی جرابیں اور گڑیا کے ناپ کے سوئیٹر بنے جاتے تھے۔ رنگ برنگی اون کے گولے گھروں میں لڑھکتے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔ لڑکیاں اور عورتیں اون سلائیاں سنبھالے اپنا وقت گزارتی تھیں۔ سوئیٹر،مفلر، دستانے، شالیں اور ٹی کوزیاں بنی جاتی تھیں۔ گھر کے بنے ہوئے سوئیٹر بچے بڑے سبھی شوق سے پہنتے تھے۔ سوئیٹروں پر مختلف ڈیزائن بنائے جاتے تھے۔ نوجوانوں میں سنگل والے سوئیٹر مقبول تھے۔مختلف ڈیزائن سوئیٹر بننے والی کی مہارت کا ثبوت ہوتے تھے۔
باقاعدہ ایک سے ایک نئے ڈیزائن کو تلاش کیا جاتا۔ ایک خاتون جن کا تعلق لاہور سے ہے بتاتی ہیں کہ اسی لاہور میں جہاں انارکلی میں کسی راہ گیر کے سوئیٹر کا نمونہ دیکھ کے ہماری ایک عزیزہ نے وہیں سے اون سلائیاں خریدیں اور ان صاحب کا تعاقب کرتے کرتے نمونہ اتار لیا، اسی لاہور میں اب کوئی ہاتھ کے بنے سوئیٹر نہیں پہنتا اور کسی کو چشمِ بلبل کا نمونہ ڈالنا نہیں آتا۔
اس ڈیزائن اتارنے کے چکر میں بڑے بڑے لطیفے ہوتے تھے۔
ایک خاتون اپنی والدہ کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ امی بتاتی ہیں ایک دفعہ واپڈا دفتر سے ایک آدمی ہمارے گھر آیا۔بجلی کے میٹر کے سلسلے میں۔ہم نے ابا جی سے کہا اسکو بٹھا کر رکھیں ہم نے ڈیزائن لینا ہے۔بڑی خالہ نے چائے بنائی اور اتنی دیر میں امی نے ڈیزائن اتار لیا۔
اسی طرح ایک خاتون اپنی والدہ سے متعلق واقعہ بیان کرتی ہیں کہ ھماری امی بھی ایسے ھی لوگوں سے ڈیزائین کاپی کرتی تھیں ایک بار بینک میں ایک صاحب کا سوئیٹر گھور رھیں تھیں وہ بے چارے کنفیوز ھوکر بولے باجی معافی چاھتا ھوں میں آپکو نہیں پہچان پایا آپ بہت دیر سے مجھے دیکھ رھیں ھیں مگر میری یاداشت میں آپ نہیں آرھیں امی بولی ارے میں تو ڈیزائن دیکھ رھی تھی آپکے سوئیٹر کا بے چارے مذید شرمندہ ھوگئے گھر آکر ھم نے کلاس لی امی کی کیا کرتی ھیں آپ بھی.
پھر رفتہ رفتہ گھریلو دستکاریوں اور ہنر و فن کی دوسری اشیاء کی طرح اون کی ہاتھ سے بنی چیزیں بھی طاق نسیاں پر رکھ دی گئیں۔ مشین سے بنے سوئیٹراشتہاروں سے نکل کر گھروں میں آ گئے اور فیشن کا حصہ بن گئے۔
سوئیٹر موسم سرما کا ایک خاص پہناوا ہے ، سوئیٹر گھر کا بنا ہو یا باہر کا اس کے لئے اون بھیڑوں اور چند مخصوص قسم کی بکریوں یا بھیڑوں سے حاصل کیا جاتا ہے ، یہ اون ریشے دار لحمیات سے بنا ہوا ایک مادہ لینولن
ہوتا ہے جو خاص قسم کی جلد کے خلیوں سے حاصل کیا جاتا ہے ، یہ پالتو بھیڑوں سے حاصل ہوتا ہے لیکن بکری اور یاک وغیرہ کی کھال سے بھی کیمیکل ڈال کر بنایا جا سکتا ہے ۔
کپڑا بنانے کے لئے دنیا بھر میں کپاس کے بعد اون کی سب سے زیادہ اہمیت ہے ، یہ ریشہ سردی کو جذب کرتا اور جسم کو گرمائش دیتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کشمیری نسل کی بکریوں سے دنیا کی اعلی ترین اون حاصل کی جاتی ہے۔ یہ اون دنیا بھر میں کشمیری اون کے نام سے مشہور ہے ، اون کی اس ورائٹی کو پشمینہ بھی کہتے ہیں ۔
یہ اون وزن میں انتہائی ہلکی لیکن بہت گرم ہوتی ہے ، کشمیر وول کا ایک عام سا مردانہ سوئیڑ امریکی مارکیٹ میں ڈیڑھ سو سے دو سو ڈالر میں بیچا جاتا ہے ۔ کشمیری پشمینہ کو زیادہ تر شالیں بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، ان شالوں کی قیمت بھی اوسطا دو سو ڈالر فی شال ہوتی ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں سالانہ آٹھ کروڑ ڈالر مالیت کی پشمینہ اون حاصل ہوتی ہے ۔وادی میں تبتی اور منگولیا نسل کی بکریاں بھی موجود ہیں لیکن ان سے حاصل ہونے والے اون میں وہ نرمی اور ملائمت نہیں ہوتی نہ ہی وہ پشمینہ کی طرح گرم ہوتی ہے ، پشمینہ اون دینے والی بکریوں کی نسل بہت نایاب ہے ۔
لیکن اب ہمارے یہاں ان تمام چیزوں کو دقیانوسیت سمجھا جانے لگا ہے۔
جتنی زیادہ مشینیں اور کام میں سہولت پیدا ہوتی جارہی ہے اتنا ہی وقت کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں جدت و فیشن کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ہر کام مشین سے کیا جائے۔ کچھ دقت طلب کام ایسے ضرور ہیں کہ جن کو کرنے کے لئے مشین کی ضرورت ناگزیر ہے جیسے کہ کپڑے دھونا۔۔۔۔ لیکن صفائ ستھرائ جھاڑ پونچھ اور چیزوں کو سلیقے قرینے سے رکھنے کا جو لطف خود کرنے میں ہے وہ خادم یا خادمہ کے ھاتھوں میں نہیں ہے۔
ہم انگریز سے زیادہ امریکن بننے کے چکر میں ہیں۔جبکہ میں نے دیکھا کہ جب پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے دورے پر گئ تو وہاں میچ کے دوران اکثر تماشائ خواتین آرام سے گھاس پر بیٹھے سوئیٹر بنتے نظر آئیں۔ گاہے بگاہے کھیل کی طرف بھی نظر ڈال لیتیں لیکن ان کی انگلیاں نہایت مہارت و سرعت کے ساتھ سوئیٹر بننے میں مصروف رہتیں۔
ایسی مصروفیات انسان کا ذہن مصروف رکھتی ہیں اور انسان منفی سوچ و ذہنی تنائو سے دور رہتا ہے۔ سوئیٹر جرسی ٹوپی مکمل ہونے کے بعد کی خوشی اور پھر کسی اپنے پیارے کو سردی سے بچنے کے لئے اسے پہنے دیکھ کر جو قلبی مسرت حاصل ہوتی ہے وہ ایسا کچھ بننے والی ہی جانتی ہے۔
ایک چٹکی سیندور کی قیمت تم کیا جانو چنی بابو!
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں کچھ ویب سائٹس اور بلاگز سے بھی مدد لی گئ ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔