اس سوال کا آسان جوب تو ایک بچہ بھی دے سکتا ھے۔۔بیچ دے۔۔خرید لے۔۔سب کچھ آن لاین ھے ۔لان کے نۓ ڈیجیٹل پرنٹ سے قراں کی تعلیم تک۔۔جی۔۔ اب تعلیم یافتہ اور جدید ماں باپ قران بھی پیسے دے کر پڑھوا سکتے ھیں تو خود کیوں پڑھایؑیں۔۔ مگر یہ بھر حال میرا موضوع سخن نھیں۔۔
کیا آپ افریقہ۔۔یا پاکستان کے کسی دور افتادہ مقام کا تصور کر سکتے ھیں جھاں سڑک نھیں تو ٹرین کیا ھوگی۔ جیسے شاھیں کا بسیرا پھاڑوں کی چٹانوں پر۔۔ راسے برفباری سے سال کے آٹھ ماہ بند رھتے ھوں۔نہ بجلی ھو نہ گیس۔ نہ اسکول نہ ھسپتال۔۔ایک بھت بڑا علاقہ انتھاٰی شمال میں ایسا ھے اور آباد بھی ھے۔۔تھر کے صحرا میں بھی جینا اتنا ھی مشکل ھے۔۔اور مرنا اس سے بھی زیادہ مشکل۔۔ ایسی جگہ آپ کراچی کے آغا خان یا اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ھسپتال جیسی طبی سھولیات کی دستیابی کے تصور کو کیا کھیں گے؟ ظاھر ھے دیوانے کا خواب
لیکں یہ خواب شرمندہؑ تعبیر ھونے کو ھے۔چترال یا اسکردو سے بھی آگے کھٰیں بھی۔۔ ایک یا دو کمروں کی چھت پر چھوٹی سی ڈش ھوگی ۔ مریض آۓ گا تو ایک تربیت یافتہ آدمی جنریٹر آن کرے گا اور مریض کو کسی کیمرے اور مایک کے سامنے بٹھا دے گا۔سٹلایٹ سے ٹی ؤی پر کسی اسپیشلسٹ کی تصویرآۓ گی ۔ پردہ نشیں عورت ھوگی تو لیڈی ڈاکٹرکی جو مریض کو اسی طرح کراچی میں دیکھ اور سن رھی ھوگی۔ حال جان کر ڈاکٹر جو دوا لکھے گا وہ نسخہ بھی نظر آےؑ گا۔ممکن ھے اس کمرے میں ایکس رے مشین بھی ھو اور خوں ٹسٹ بھی ھوجاۓ۔۔ اور مریض قریب ترین شھر یا قصبے سے دوا منگوا لے۔۔جی۔۔ایک ایسا رفاحی منصوبہ 400 ناقابل رسایؑ مقامات کیلۓ زیر تکمیل ھے۔۔اس علاقے کا طالب علم یورپ سے آن لایں ڈگری لے سکتا ھے۔۔اسے آن لاین تمام نصابی کتب دستیاب ھیں جونہ وہ افورڈ کر سکتا ھے نہ وہ پاکستان کی مارکٹ میں دستیاب ھیں ۔۔ ھاں پاکستان کی مارکیٹ میں وہ ٹی وی اے سی دستیاب ھیں جن کا ریموٹ اپ امریکہ یا افریقہ سے ان لاین آپریٹ کر سکتے ھیں۔اپنے گھر یا گاڑی کو لاک کرنا لایٹس آن آف کرنا یہ سب بھی آن لاین ھورھا ھے۔ مری یا کاغان میں کراچی کے بنک اکاونٹ کوتو سب ھی آپریٹ کر رھے ھیں۔۔موبایل فون اور نیٹ کی کیا بات کرنی۔ جدھر دیکھتا ھوں ادھر تو ھی تو ھے۔۔ ۔۔اس کو متن سے الگ کون کافر سمجھے گا مگر پھر بھی استغفراللہ
صاحبو۔! یہ جادو اسی اسپوتنک ون کا ھے جس نے 1957 میں خلا میں پرواز شروع کی تو عقل انگشت بدنداں تھی اور ؎ ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کھۓؑ۔۔کروڑوں ڈالر کا یہ کھیل چہ معنی دارد؟ تب سے ابتک سینکڑوں مصنوعی سیارے خلا میں گۓ تو ان میں دو چار ھمارے بھی ھیں الحمدو للہ۔۔ ماشا اللہ۔ سبحان اللہ
سایسداں کی پٹاری تو عمر عیار کی زنبیل ھے مگر ھمارا مسلؑہ یہ ھے کہ وہ مداری اس مغرب کا ھے جس میں ھم صرف بے حیایؑ دیکھتے ھیں اور عریانی یا شراب نوشی اور کفر و الحاد جیسے اسباب ۔۔
ایک تعلیم یافتہ خاتوں چوتھای صدی سے یورپ کۓ خوشحال تریں ملک سویڈن میٰں رھایش کے تمام فوایدؑ سمیٹ رھی ھیں مگر ایک دن اچانک ان کو یہ روحانی صدمہ ھوا کہ "وای﷽بر" تودشمن اسلام اسراییل کی ایجاد ھے اور انھوں نے فیس بک پر مظاھرہ کیا کہ"وایبر کا ستعمال بندکرو" میں نے پوچھا کہ بی بی،،کیا تمام ھسپتالوں سے "کلر ڈوپلر" بھی ھٹادیں؟ کیونکہ وہ تو سو فیصد یھودیوں کی ایجاد ھیں۔۔ صاحبو ۔۔۔ یہ جادویؑ مشین ٹی وی اسکرین پر لال اور نیلے رنگ میں دکھاتی ھے کہ پورے جسم میں خون کھاں کس رفتار سے آرھا ھے اور جارھا ھےرکاوٹ ھے تو کھاں اور کتنی۔یہ شریانوں اور وریدوں کا جال کراچی کی شاھراھوں سے تنگ ترین گلیوں جیسا الجھا ھوا ھے۔۔ ۔مشینیں تو ایکس رے۔ یا ایم آر آیؑ یا سی ٹی اسکین کی بھی بخدا ھم نے یا کسی اھل ایمان نے نھیں بناییں۔مگر کیا کریں؟
یہ تو میری گنھگار آنکھوں نے بقلم خود دیکھا کہ چیچک نے ۔۔ جس کا نام لیتے خواتیں کانوں کو ھاتھ لگاتی تھیں۔۔کتنی بصارتوں کو ختم اور کتنی صورتوں کو بدصورتی دی۔۔ اس سے پھلے چوھے جیسی حقیرسی مخلوق نے اشرف المخلوقات کی بستیان یوں اجاڑیں کہ جناز ے اٹھانے والا نہ رھا۔۔ اپنی طب مشرق میں قوت باہ کے مجرب تسخے تھے مگر مچھر والے ملیریا کا علاج نہ تھا۔۔اور کون نھیں جانتا کہ انھی کافروں نے کرہ ارض سے ان بیماریوں کا وجود مٹایا۔۔پھر ٹی بی کے درپے ھوے ۔ٹیٹنس کا خاتمہ کیا اب پولیو اور ھیہی ٹایٹس سی کو مٹانے کے درپے ھیں۔۔کیا اہنی صحت کیلۓ ھم ان کے مقروض نھیں؟ وہ کاریں ھوای جھاز چھاپے خانے اورھمارے گھر کی سب چیزیں بجلی سے بلب تک اور فرج ٹی وی واشنگ مشین پنکھے اور اے سی تک سب کچھ بنا کے دے چکے ۔ھماری مساجد اب ایر کنڈیشنڈ ھیں ۔۔الحمد للہ
ھم نے کیا بنایاٰ؟ نشروب مشرق۔۔ قورمہ۔۔ تاج محل۔۔فرقے۔گٹکا
۔کیا ھم مغرب کے احسان مند ھیں؟ احسان مند نہ سھی شکر گزار ھیں؟
میرے ایک دوست امریکا میں 1995 میں فزکس کا نوبل پرایز لینے والے ساینسداں کے ساتھ تھے کسی قانوں کے تحت ضروری تھا کہ 8 سال بعد وہ پاکستان واپس آکے دوبارہ جاییںؑ ۔اس ساینسداں نے کھا کہ فکر نہ کرو کچھ نھیں ھو گا۔۔اب کرنا خدا کا یوں ھوا کہ جب وقت آیا تو وہ ساینسداں بعارضہ کینسر فوت ھوگیا۔طوطا چشم امویکی حکام نے کھا کہ میاں قانون تو قانون ھے۔تیں مھینے دیتے ھیں کہ تم اس ساینسداں کی لیبارٹری کومیوزیم بنانے کیلۓ سارا ریکارڈ مرتب کردو تاکہ آنے والی نسلیں بھی دیکھیں۔۔اس کے بعد اللہ نگھبان
مایوس شخص نے یہ بپتا ٹوکیو میں کسی دوست کو لکھی۔۔لو جی۔۔ا س ساینسداں کے نام نے بند دروازے کھول دۓ ۔جاپان والوں نے کھا کہ چشم ما روشن دل ما شاد ۔۔آو باقی کام ھمارے لۓ کرو۔ وہ جاپان جا پھنچا۔ایک ملاقات میں پوچھا کہ جاپانی قوم تو اپنی مصنوعات پر بھت نازاں ھوگی مثلا" ٹیوٹا ھی دنیا میں نمبر ون ھے کاروں کی سیل میؐں۔۔اس نے جو بات کھی عجیب تھی۔۔ کھنے لگا کہ جرمن برطانوی اور امریکی اقوام کے سامنے وہ شدید احساس کمتری کا شکار ھیں۔۔۔کھتے ھیں وہ موجد ھیں ھم میکانک۔۔ ھم نے ھرچیز بھت اچھی بناٰیؑ۔۔ایجاد کچھ نھیں کیا
نشاں یھی ھے زمانے میں زندہ قوموں کا
(مقصود اس سے قطع محبت نھیں مجھے۔۔ جو مجھے اپنے وطن اپنے دین اورآپ سے ھے)