جان وہیلر ایک بڑا سائنسدان تھا۔ بہت بڑا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے آئن سٹائن کے سپیسٹائم اور گریوٹی کے بارے میں ایک جملہ بولا تھا جو اب عام استعمال ہوتاہے،
’’میٹر ٹیلز سپیسٹائم ہاؤ ٹُو کرْو، اینڈ سپیسٹائم ٹیلز میٹر ہاؤ ٹُو مُوو‘‘
رچرڈ فائن مین جو خود ایک بہت بڑا سائنسدان ہے اور جس کے ڈایا گرامز کی وجہ سے کوانٹم الیکٹروڈائنامیکس وجود میں آئی جو واحد ایسی تھیوری ہے جس پر پوری دنیا کے سائنسدان پہلی بار متفق ہوئے کہ ’جی ہاں، یہ کسی حد تک آئن سٹائن کے سپیسٹائم اور کوانٹم فزکس کا مقامِ اتحاد ہے۔ صرف اس ایک بات پر ہی متفق نہیں ہوئے بلکہ یہ بھی تسلیم کرلیا کہ رچرڈ فائن مین ڈایا گرام واحد ایسی کوانٹم فزکس ہے جس کی ایک ہی تشریح یعنی رچرڈ فائن مین والی تشریح مادی دنیا میں مکمل طورپر قابلِ تصدیق ہے۔ خیر! تو رچرڈ فائن جان وہیلر کا شاگرد تھا۔ جان وہیلر پرانا ہے یعنی آئن سٹائن کے زمانے کا۔ ایک دن رچرڈ فائن مین کو جان وہیلر کی فون کال آئی۔ پرانے دور کے بڑے کریڈل والے ٹیلیفون سیٹ ہوا کرتے تھے۔ فائن مین نے ریسور کان سے لگایا تو دوسری طرف سے جان وہیلر بڑے پُرجوش لہجے میں بول رہا تھا۔ اس نے سلام کیا نہ دعا، بلکہ کہا،
’’فائن مین! مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تمام الیکٹرانوں کا ایک جیسا چارج اور ایک جیسا ماس کیوں ہے؟‘‘
فائن مین نے پوچھا، ’’کیوں ہے؟‘‘
جان وہیلر نے کہا،
’’کیونکہ سب کے سب اصل میں ایک ہی الیکٹران ہیں‘‘
اس کے بعد دوسری جنگِ عظیم چھڑگئی۔ وہیلر اور فائن مین ایٹم بم بنانے میں مصروف ہوگئے۔ پھر اس کے بعد کے حالات وغیرہ کی وجہ سے یہ بات آئی گئی ہوگی۔ آج اس بھولی بسری تھیوری کو ’’ون الیکٹران تھیوری‘‘ کہتے ہیں۔ اس تھیوری کے مطابق الیکٹران کا اینٹی میٹر یعنی پازیٹران یا مثبت چارج والا الیکٹران چونکہ ماضی میں سفر کرتا ہے اور عام الیکٹران مستقبل میں سفر کرتاہے اس لیے ان دونوں کو ملا کر دیکھا جائے توالیکٹرانوں کی کاپیاں یعنی نقلیں خود بخود نظر آئیں گی۔ وہ اِس طرح کہ فرض کریں، آپ ماضی میں سفر کرتے ہیں اور اب سے فقط ایک سیکنڈ پہلے والے ماضی میں نمودار ہوتے ہیں تو کیا ہوگا کہ آپ ابھی اِسی جگہ، اپنے آپ کو ایک بجائے دو کی صورت دیکھیں گے کیونکہ ایک سیکنڈ پرانا ماضی تو ابھی اتنا دور نہیں گیا ۔ اور اگر آپ ہرسیکنڈ میں ایسا کرتے جائیں کہ اپنے ماضی میں بھی اُسی طرح سفر کریں جس طرح مستقبل میں کرتے جارہے ہیں تو آپ کاپیوں کی شکل میں نظر آئیں گے۔ دوچار نہیں۔ لاکھوں کاپیوں کی شکل میں۔
چنانچہ الیکٹرانوں کے پیئرز یعنی جوڑے اس طرح وجود میں آتے ہیں کہ ایک الیکٹران پیدا ہوتا ہے تو لازمی طورپر ایک پازیٹران جو اس کا جڑواں بھائی ہے اور اینٹی میٹر کہلاتاہے، وہ بھی عین اسی وقت اُسی کے ساتھ پیدا ہوجاتاہے۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ جڑواں الیکٹران کا چارج مقدار میں برابر لیکن اُلٹ ہوتاہے اور زمانہ بھی، اس لیے سپیسٹائم کے گراف پر وہ کون (Cone) کے نچلے حصے میں سفرکرجاتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہرالیکٹران جو مستقبل میں سفر کررہاہے اس کا ایک جڑواں بھائی ماضی میں بھی سفر کررہا ہے اور اِس وجہ سے الیکٹرانوں کی بہت ساری نقول خود بخود وجود میں آتی جارہی ہیں۔ جان وہیلر یہ کہنا چاہتا تھا کہ
’’فائن مین! میری بات سنو! یہ دنیا ہمیں ایسی نظر آتی ہے، جسی نظر آتی ہے، ورنہ سچ یہ ہے کہ یہ ساری کائنات فقط ایک اور فقط ایک ہی الیکٹران ہے۔ جو ماضی و مستقبل میں اپنی مخصوص جِگلنگ یعنی موجی حرکت کی وجہ سے کھربہا نقول پیدا کرنے اور اس کی وجہ سے مادہ پیدا کردینے کا باعث بن رہاہے۔ اس کا مبعث یعنی سپیسٹائم، ہمیں کائنات کی صورت میں اس لیے نظر آرہا ہے کہ ہم سپیسٹائم کے درمیانی نقطے یعنی حال پر کھڑے ہیں۔
ساری کائنات فقط ایک ذرہ ہے یا ایک ہی ذرے کا ایسا کرشمہ ہے جو ہمارے بھینگے پن کی وجہ سے ہمیں بصورتِ کائنات نظر آرہا ہے۔ اگر ہم میں سیدھا (یعنی بغیر بھینگے پن کے) دیکھنے کی صلاحیت ہوتی تو ہم یہ جان جاتے کہ یہ سب ایک ہی پارٹیکل یا سٹرنگ ہے اور باقی سب ہماری بھول یا نا سمجھی ہے۔