(Last Updated On: )
جب وہ چل بسی تو اُس نے اُس کی عمدہ تدفین کی۔ اُس کی تمام سہلیوں نے شرکت کی، نرم نمدے والی چپٹی ٹوپیوں اور آبی اُود بلاؤوں کی سمور کے کالروں والے سرمائی کوٹوں میں، جن سے کافور کی بُو آتی تھی اور جن سے اُن کے سر بڑے بڑے زرد گومڑوں کے مانند باہر نکلے ہُوئے تھے، ملبوس کریہہ الصُورت بُڈّھیاں۔برساتی پانی میں بھِیگی رسّیوں پر لٹکے تابُوت کے روانہ ہوتے ہی وہ چال بازانہ سسکیاں اور سبکیاں بھرنے لگیں؛ پھر اُنھوں نے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں، ناقابلِ یقین نقش و نگار والی لپٹی ہُوئی اپنی چھتریوں کے گنبدوں تلے، اپنے اپنے بس سٹاپوں کا رُخ کیا۔
ٹھیک اُسی شام اُس نے، یہ فہم ہُوئے بغیر ہی کہ وہ کیا ڈھونڈ رہا ہے، وہ الماری کھول کر تلاشی لی جہاں وہ اپنے کاغذات رکھتی تھی۔ رقم۔ خفیہ حِصّص۔ ضعیف العمری کے بونڈ، جن کی ہمیشہ ٹیلی ویژن پر جھڑتے پتّوں سے اَٹے موسمِ خزاں کے مناظر کے ساتھ تشہیر کی جاتی تھی۔
اُسے محض ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کی دہائی کے بیمے کے کچھ پُرانے کتابچے؛ اُس کے باپ کاایک جماعت کا کارکن بننے کا کارڈ، جو ۱۹۸۰ء میں وفات پا چکا تھا اپنے اِس خالص یقین کے ساتھ کہ اشتراکیت ایک مابعدالطبیعاتی دوامی نظم ہے؛ اور نرسری سکول کے زمانے کی اپنی کچھ ڈرائینگیں جنھیں احتیاط کے ساتھ ربڑ کے ایک چھلّے کے ساتھ باندھ کر گتّے کے ایک کاغذ گیر میں رکھا گیا تھا۔ یہ بات دِل کو چُھو لینے والی تھی کہ اُس نے اُس کی ڈرائینگوں کو سنبھال کر رکھا تھا— اُس نے اِس کا کبھی تصوّر بھی نہیں کیا تھا۔ اُس کی کچھ نوٹ بُکیں بھی تھیں جو اچاروں، چٹنیوں اور جاموں کی تراکیب سے بھری پڑی تھیں۔ ہر ترکیب الگ صفحے پر شروع ہوتی تھی اور ہر ترکیب کے نام کو مقدور بھر زیبائش سے سجایا گیا تھا—- طبّاخی کے اظہار کی ضرورت بھر خُوب صُورتی۔ ’’سرسوں کا اچار‘‘۔ ’’مسالہ جات جذب کروایا ہُوا پیٹھا‘‘۔ ’’اَیوی نون [1] کی سلاد‘‘۔ ’’کریول طرز کی کُھمبیاں‘‘۔ بعضوں پر کچھ انوکھی عبارت بھی تھی: مثال کے طور پر ’’سیب کے چھلکے کی رُب‘‘ یا ’’چینی میں میٹھا جھنڈا۔"‘‘
اِس امر نے اُسے نیچے حجرے میں جانے پر مجبور کر دیا—- وہ وہاں کئی برسوں سے نہیں گیا تھا۔ لیکن اُسے وہاں وقت گذار کر مسرت ہوتی تھی جس پر وہ حیرت زدہ بھی ہوتاتھا۔ جب بھی اُسے لگتا کہ وہ بے حد بلند آواز میں میچ دیکھ رہا ہے، جب بھی اُس کے ناتواں شکایتیں رائیگاں جاتیں تو وہ کُنجیوں کی جھنکار سنتا، پھر دروازہ دھڑام سے بند ہونے کی اور وہ طویل اور سکھی وقت کے لیے غائب ہو جاتی۔ اِس دوران میں وہ بہ خُوشی اپنے پسندیدہ شغل میں مشغول رہتا: دو گروہوں کو پِچ کے ایک سمت سے دُوسری سمت بھاگتے دیکھتے ہُوئے بیئر کے ڈبّے خالی کرنے میں۔
حجرہ بے حد صاف ستھرا دِکھائی دے رہا تھا۔ وہاں ایک پھٹا پُرانا نمدہ پڑا تھا—- اوہ، ہاں، وہ نمدہ اُسے بچپن سے یاد تھا اور رُوئیں دار کپڑے کی بُنائی والی آرام کُرسی بھی تھی جس پر صفائی سے تَہ کیا ہُوا سلائیوں سے بُنا ہُوا کمبل دھرا تھا۔ وہاں رات کو جلانے کے لیے ایک لیمپ بھی تھا اور چند کتابیں جن کا اِتنا مطالعہ کیا گیا تھا کہ وہ لِیرلِیر ہو گئی تھیں۔ لیکن وہاں تأثر کو برباد کرنے والی چیز سفر جل کی ہُوئی چیزوں کے پالش کیے ہُوئے مرتبانوں سے پُر الماریاں تھیں۔ سب پر ایک ایک پرچی چسپاں تھی جس پر نوٹ بُک والی تراکیب کے نام تحریر تھے۔ ’’سٹاشیا [2]کے مسالہ جات میں ڈبویا ہُوا کھیرا، ۱۹۹۹ء‘‘، ’’لال مرچ کا اشتہا انگیز، ۲۰۰۳ء‘‘، ’’بیگم ز کا ٹپکنے والا پانی‘‘۔ کچھ نام پُراَسرار تھے: ’’ڈوری کی بُھوک کھلی ہُوئی پھلیاں‘‘۔ وہ زندگی بھر نہیں سمجھ سکتا تھا کہ ’’بُھوک کھلی ہُوئی‘‘ کا کیا مطلب ہے، لیکن جار میں ٹھنسی ہُوئی زرد کھمبیوں یا لہو جیسی سُرخ مرچوں نے اُس کے اندر زندگی کی خواہش بھر دی۔ اُس نے محفوظات کے ذخیرے کو کھنگالا مگر اُسے اُن کے عقب میں کاغذوں سے پُر کوئی فائل ملی نہ گول لپیٹی ہُوئی رقم۔ یُوں لگتا تھا جیسے اُس نے اُس کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔
اُس نے اپنی نشست و برخاست خواب گاہ تک بڑھا لی—- اب وہ وہاں اپنے غلیظ کپڑے پھینک دیتا اور بیئر کے کارٹن جمع کر لیتا۔ وقتاًفوقتاً وہ محفوظات کے مرتبان بالا خانے میں لے جاتا، اپنے ہاتھ کے ایک ہی گھماؤ سے مرتبان کھولتا اور اُس میں موجود شے کو کانٹے سے نکالتا۔ بیئر اور مونگ پھلیوں کے ہم رَاہ مسالے دار مرچیں یا چھوٹے چھوٹے کھیرے اِتنے نرم لگتے جیسے شیرخواروں کا عمدہ ذائقہ ہوتا ہے۔ وہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر اپنی زندگی کی نئی صُورتِ حال، اپنی نئی نویلی آزادی پر غوروفکر کرتا تو اُسے لگتا جیسے اُس نے حال ہی میں سکول کا اپنا آخری امتحان پاس کیا ہے اور تمام دُنیا اُس کے سامنے کھلی پڑی ہے۔ گویا ایک نئی اور بہتر زندگی کا آغاز ہو۔ وہ اچھی خاصی عمر کا تھا—-گذشتہ برس اُس نے چالیس کا ہندسہ عبور کیا تھا—- لیکن وہ اپنے آپ کو ہائی سکول کے گریجوایٹ کے مانند نوجوان محسوس کرتا۔ اور اگرچہ اُس کی مرحومہ ماں کی آخری پینشن بتدریج ختم ہوتی جا رہی تھی اور ابھی اُس کے پاس درست فیصلے کرنے کا وقت موجود تھا—- اُسے چاہیے تھا کہ اِس دوران میں وہ اُس کے چھوڑے ہُوئے ترکے کو آہستہ آہستہ استعمال کرتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ کچھ مکھن اور ڈبل روٹی خریدتا رہتا۔ اور بیئر بھی۔ پھر وہ کوئی ملازمت لازماً ڈھونڈتا جس کے لیے وہ اُس سے پچھلے بیس برسوں سے پیہم تکرار کرتی چلی آرہی تھی۔ وہ نوکری دِلانے والے محکمے کا رُخ کرتا—- وہ یقیناً اُس جیسے چالیس سالہ ہائی سکول کے گریجوایٹ کے لیے کچھ نہ کچھ ڈھونڈ نکالتے۔ وہ اب بھی، جب تک کہ ٹی وی پر کوئی میچ نہ چلتا، ہلکے رنگ کا وہ لباس ، جو اُس نے اُس کے لیے اچھی طرح استری کر کے الماری میں لٹکایا تھا، نیلی قمیص کے ساتھ پہن کر شہر کو جا سکتا تھا۔
اور اُسے اب بھی اُس کی چپلوں کے گھسٹنے کی یاد ستاتی تھی کہ جس کی دبی دبی آواز کا وہ عادی ہو گیا تھا اور جو عموماً اُس کی دِھیمی آواز میں اِس بات کے ساتھ آتی تھی: ’’کیا تم اِس ٹیلی ویژن کو تھوڑا سا سکون نہیں دے سکتے؛ کیا تم باہر جا کر لوگوں سے نہیں مل جل سکتے، کیا تم کسی لڑکی سے ملاقات نہیں کرسکتے؟ کیا تمھارا اِرادہ باقی ساری زندگی یُوں ہی بسر کرنے کا ہے؟ تمھیں اپنے لیے ایک الگ مکان لینا چاہیے—- یہاں ہم دونوں کے لیے جگہ کم ہے۔ لوگ بیاہ کرتے ہیں، بچّے جنتے ہیں، چھٹی کے دِنوں میں باہر سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں اور باربی کیو بنا کر کھاتے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کو دیکھو، تمھیں ایک بیماری ضعیف عورت کے آسرے پر پلتے ہُوئے شرم نہیں آتی؟ پہلے تمھارا باپ تھا اور اب تم ہو—- میں تمھارے کپڑے دھوتی اور استری کرتی ہُوں اور گھر کی تمام خریداری بھی خُود کر کے لاتی ہُوں۔ یہ ٹیلی ویژن مجھے ہمیشہ تنگ کرتا ہے، میں سو نہیں پاتی لیکن تم سویر ہونے تک اِس کے سامنے بیٹھے رہتے ہو۔ ساری ساری رات اِس پر کیا دیکھتے رہتے ہو؟ کیسے ہوسکتا ہے کہ کبھی بیزار نہیں ہوتے؟‘‘ آخر وہ گھنٹوں تک ہتھوڑے کی طرح بجنے لگی تو اُسے اپنے لیے اُذنک خرید کر لانا پڑا۔ یہی حل تھا—- اب وہ ٹیلی ویژن کی آواز نہ سن پاتی اور وہ اُس کی۔
لیکن اب نہایت گہرا سکوت لگنے لگا تھا۔ کسی زمانے میں اُس کا صاف ستھرا رہنے والا کمرہ اب گتّے کے ڈبّوں کے نیچے سے جھانکتی رَکابیوں اور شیشوں کی الماریوں سے اَٹا ہُوا تھا، جو بعد میں ایک عجب سڑاند سے بھر گیا تھا—- گلتی سڑتی چادروں، پھپھوندی زدہ پلستر اور ہَوا کا گذر نہ ہونے اور تخمیر ہو جانے والی تنگ جگہ کی سڑاند سے۔ ایک روز صاف تولیے ڈھونڈتے ہُوئے اُسے الماری کی تَہ میں مرتبانوں کی ایک پُوری قطار ملی جنھیں چادروں کے ڈھیر کے نیچے چھپایا گیا تھا یا اُون کے لچھوں کے نیچے دھرے گئے تھے جیسے وہ کسی خفیہ جماعت کے طرف دار ہوں یا مرتبانوں کی دُنیا میں دشمن ملک کا جاسوس گروہ۔ اُس نے اُن پر احتیاط بھری نگاہ ڈالی—- وہ عمر کے اعتبار سے حجرے والوں سے مختلف تھے۔چسپاں پرچیوں کی عبارتیں بھی قدرے مِٹی ہُوئی تھیں اور کئی پر سال ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۲ء لکھے ہُوئے تھے لیکن کچھ الگ رکھے ہُوئے نمونے زیادہ قدیم تھے—-۱۹۸۳ء اور ایک تو ۱۹۷۸ء کا بھی تھا۔ گھناؤنی بدبو کی یہی وجہ تھی۔ آہنی ڈھکن زنگ آلود ہو کر ہَوا کی اندر تک رسائی کا باعث بن گیا تھا۔ مرتبان میں جو کچھ بھی رکھا گیا تھا اب وہ خاکی رنگ کے ایک ڈھیر میں بدل چکا تھا۔ اُس نے اُسے کراہت سے پھینکا۔ اُن کی پرچیوں پر بھی ویسی ہی عبارات درج تھیں: ’’پسی ہُوئی کشمش کی لُبدی میں پیٹھا‘‘ یا ’’پسے ہُوئے پیٹھے کی لُبدی میں کشمش‘‘۔ وہاں کچھ کھیرے بھی تھے جو کاملاً سفید پڑ چکے تھے۔ لیکن وہاں بہت سی ایسے مرتبان بھی تھے جن کے اندر کی چیزوں کی وہ شناخت، شائستہ اور رہنما پرچیوں کے باوجود، نہیں کر پایا۔ ککّرمتوں کا اچار پُراَسرار کثیف رُب، جمے ہُوئے سیاہ گُودے میں بدل گیا تھا۔ لحم دار مسالہ ٹھوس ہو کر سُکڑی ہُوئی مُٹھّیاں بن گیا تھا۔ اُسے جُوتوں کی الماری اور غسل خانے کی عقبی کوٹھڑی میں سے کچھ اَور مرتبان ملے۔ یہ ایک تحیّرکُن ذخیرہ تھا۔ کیا وہ اُس کے لیے خُوراک چھپاتی رہی تھی؟ کیا اُس نے یہ رسد، اِس خیال کے تحت کے ایک روز اُس کا بیٹا چلا جائے گا، اپنے لیے رکھی تھی؟ یا شاید اُس نے واقعی اُس کے لیے چھوڑی تھی اِس تصوّر کے تابع کہ پہلے وہ جائے گی—- بہرصُورت، مائیں ہی اپنے بیٹوں سے پہلے جاتی ہیں، پس شاید وہ اُن مرتبانوں سے اُسے مستقبل کے لیے خوراک مہیا کرنا چاہتی ہو۔ اُس نے اُن محفوظات کا محبت اور کراہت کے امتزاج کے ساتھ معائنہ کیا۔ یہاں تک کہ وہ مطبخ کے برتن دھونے والے تسلے رکھے ہُوئے ایک ایسے مرتبان تک پہنچ گیا جس پر پرچی چسپاں تھی ’’سرکے میں تسمہ، ۲۰۰۴ء‘‘ اور اُس نے اُسے چوکنّا کر دیا۔ اُس نے گیند کی طرح گول کی ہُوئی بُھوری ڈوری کو تمام مسالہ جات کی لوندیوں کے ساتھ سمندر کے کھارے پانی میں تیرتے دیکھا۔ اُسے اضطراب محسوس ہُوا، اور بس۔
وہ جب بھی اُذنک اُتار کر غسل خانے کو جاتا تو وہ لیٹی ہُوئی اُس کا انتظار کر رہی ہوتی؛ وہ کھڑبڑ کرتی ہُوئی مطبخ سے برآمد ہوتی اور اُس کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی۔ ’’سارے نوجوان پنچھی گھونسلے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں—- یہی قانونِ فطرت ہے، ماں باپ کو آرام کا حق ہوتا ہے۔ یہ قانون بِلاتفریق سب پر لاگو ہوتا ہے۔ تم اب تک کیوں میرے پیچھے پڑے ہُوئے ہو؟ تمھیں بہت پہلے یہاں سے دفع ہو کر اپنی زندگی خُود گذارنا چاہیے تھی۔‘‘ وہ نالہ زاری کرتی ہے۔ پھر، چُوں کہ وہ آہستگی سے اُس کے قریب سے کھسکنے کی کوشش کرتا تھا، اُسے آستین سے دبوچ لیتی اور اُس کی آواز بلند ہو جاتی، یہاں تک کہ چِلّاتی ہُوئی: ’’میں بُڑھاپے میں سکون کی حق دار ہُوں۔ مجھے اکیلا چھوڑ دو، میں آرام چاہتی ہُوں۔‘‘ لیکن وہ اِس سے قبل ہی غسل خانے میں جا چکا ہوتا؛ وہ چابی گھماتا اور اپنے خیالات میں کھو جاتا۔ وہ واپسی پر بھی اُسے لپکنے کی کوشش کرتی البتّہ اِس بار کم جارحیت ہوتی۔ پھر وہ جاکر اپنی خواب گاہ میں گُم ہو جاتی اور اُس کا اگلی صبح تک، جب وہ دانستہ برتنوں کو کھڑکانے لگتی تاکہ وہ سو نہ سکے، نام و نشان نہ ملتا۔
لیکن جیسا کہ سب آگاہ ہیں کہ مائیں اپنے بچّوں سے محبت کرتی ہیں اور مائیں اِسی لیے ہوتی ہیں—- محب اور معاف کر دینے والی۔ اِس لیے وہ تسمے یا ’’ٹماٹر کی چٹنی میں اسفنج‘‘ کے، جو اُسے حجرے میں ملا تھا، بارے میں ذرا سا بھی فکرمند نہیں تھا۔ بہرحال، اُس پر اخلاص کے ساتھ ’’ٹماٹر کی چٹنی میں اسفنج، ۲۰۰۱ء ‘‘ درج تھا۔ اُس نے اُسے کھولا، جانچ کی کہ پرچی غلط تو نہیں اور اُسے کُوڑے دان میں پھینک دیا۔ لیکن وہ کوئی خُوش ذائقہ چیز بھی ڈھونڈ رہا تھا۔ حجرے کی کارنس پر دھرے آخری مرتبانوں میں سے ایک میں اُسے سؤر کا لذیذ بندِ اُنگشت ملا۔ یا اُسے کمرے کے پردے کے عقب میں سے گرم اور مسالے دار چھوٹے چھوٹے چقندر ملے۔ دو دِن کے اندر اُس نے بہت سے مرتبان کھا ڈالے۔ میٹھے کے طور پر وہ پھلوں کے سفر جل کیے ہُوئے گُودے کو اُنگلی سے چاٹتا رہا تھا۔
پولینڈ اور انگلستان کے میچ کے لیے وہ حجرے سے سفر جل کی شے کا ایک پُورا ڈبّہ اُٹھا لایا اور اُنھیں بیئر کے ڈبّوں میں گھیر دیا۔ اُس نے ڈبّے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور یہ دیکھے بغیر کہ کیا کھا رہا ہے، جلدی جلدی محفوظ کی ہُوئی چیز کے لقمے مار لیے۔ اُس کا دھیان ایک چھوٹے مرتبان کی سمت گیا جس پر درج تھا: ’’کھمبیوں کا اچار، ۲۰۰۵ء‘‘۔ اُس نے نرم نرم لچھے نکالنے کے لیے ایک کانٹے کا استعمال کیا، جو اُس کے حلق سے یُوں نیچے پھسلے گویا جان دار ہَوں۔ چُوں کہ کچھ گول ہو گئے تھے پس اُس نے یہ دھیان ہی نہیں دیا کہ وہ کتنا زیادہ کھا گیا ہے۔ جب وہ رات کو غسل خانے میں جانے لگا تو اُسے لگا جیسے وہ وہاں کھڑی اپنی ناقابلِ برداشت چِلّاتی ہُوئی آواز میں آہ و بکا کر رہی ہے لیکن عین اُسی وقت اُسے یاد آیا کہ دراصل وہ تو مر چکی ہے۔ وہ سویر ہونے تک اُلٹیاں کرتا رہا لیکن اِس سے زیادہ افاقہ نہ ہُوا۔ ہسپتال والے اُس کا جگر تبدیل کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی عطیہ دہندہ نہ ملنے پر وہ بے ہوشی ہی کی حالت میں چند روز کے بعد چل بسا۔
کچھ مسائل درپیش ہُوئے کیوں کہ مُردہ خانے سے اُس کی نعش وصولنے اورکفن دفن کا انتظام کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ آخرکار، اُس کی ماں کی سہلیاں سامنے آئیں؛وہی نرم نمدے کی چپٹی ٹوپیوں والی کریہہ عورتیں جنھوں نے اپنی بھدّے نقش و نگار والی چھتریوں کو قبر پر کھول کر اُس کی تدفین کی قابلِ ترحم رسومات ادا کیں۔
حوالہ جات:
[1] Avignon: فرانس کے جنوب مشرقی صوبائی علاقے میں ایک شہر کا نام۔
[2] Stasia: ایک عام پولستانی نسوانی نام۔
English Title : Preserve for Life
Translation in English by: Antonia Lloyd-Jones
Written by:
Olga Nawoja Tokarczuk ( born 29 January 1962) is a Polish writer, activist, and public intellectual[ who has been described in Poland as one of the most critically acclaimed and commercially successful authors of her generation. In 2018, she won the Man Booker International Prize for her novel Flights (translated by Jennifer Croft). In 2019, she was awarded the 2018 Nobel Prize in Literature. (Wikipedia)
For English text visit:
https://granta.com/preserves-for-life/
**
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
تحریر : اَولگا توکارچُک (پولینڈ)
مترجم : نجم الدّین احمد (بہاولنگر)