شمالی تنزانیہ میں جنگلی سیسل کے پودوں والے وسیع میدانی علاقے میں زمین پھٹ گئی۔ جیولوجیکل ایکٹیویٹی نے چند ہزار سال قبل اس میں ایک بڑا شگاف ڈال دیا۔ اس شگاف نے اپنے سینے میں دفن راز نمایاں کر دئے۔ یہ مشرقی افریقہ کی عظیم دراڑوں کی وادی کا حصہ ہے۔ یہاں پر اولڈوائی گورج تیس میل لمبی اور تین سو فٹ گہری گھاٹی ہے۔
یہ دنیا کب بنی؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ ریاضی سے شغف رکھنے والے آرچ بشپ اوشر نے اس کی تاریخ بروز اتوار 23 اکتوبر 4004 قبلِ مسیح نکالی تھی جو ایک عرصے تک عام طور پر قبول کیا جاتا رہا۔ پچھلے دو سو برسوں میں ہم اس تاریخ کو پیچھے دھکیلتے رہے ہیں۔ (اس کی تفصیل نیچے لنک سے)۔ اب کوئی بھی 23 اکتوبر کو دنیا کی پیدائش کا دن کہیں پر نہیں مناتا۔ اس کی وجہ آرکیولوجسٹ، جیولوجسٹ اور کیمسٹ ہیں۔ انہی میں سے ایک نوجوان آرکیولوجسٹ لوئیس لیکی تھے جو 1931 میں تنزانیہ کی اس گھاٹی میں اترے۔
سورج، ہوا اور بارش نے ان چٹانوں کو شکل دی ہے۔ لیکن جب میدان سے لے کر نیچے تک سطح کا مطالعہ کرتے گئے تو تو اس سطح تک پہنچے جہاں پر پتھروں کو شکل سورج، ہوا اور بارش نے ہی نہیں بلکہ ہاتھوں نے بھی دی تھی۔ قدیم ہاتھوں نے اپنے فائدے کے لئے۔ ان کے ساتھ ہڈیاں بھی ملیں۔ یہ پتھر ان جانوروں کو چیرنے کے اوزار تھے، گوشت اتارنے کے اور ہڈی توڑنے کے۔ پتھروں کی یہ سطح بیس لاکھ سال پرانی تھی۔ یہ دریافت آرکیولوجی کا ڈائنامائیٹ تھا۔
لیکی نے جن اوزاروں کا کھوج لگایا تھا یہ اس وقت دنیا میں ملنے والے سب سے پرانے اوزار تھے۔ ساتھ لگی پہلی تصویر ان میں سے ایک کی، جو کہ اولڈوائی چوپنگ ٹول کہلاتا ہے۔ اس کو اٹھائیں تو یہ وزنی ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ ہتھیلی میں پورا آ جاتا ہیں اور اس پوزیشن میں کہ اس کی تیز دھار انگلیوں سے باہر نکلتی ہے۔ یعنی آپ نے ہاتھ میں تیز دھار والا چاقو پکڑا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس کی کلائی کی طرف نکلا ابھار ان پر مضبوط گرفت کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس سے بآسانی گوشت کاٹا جا سکتا ہے۔ یہ قدرتی طور پر ایسا نہیں، اس کو تراشا گیا تھا۔ کسی اور پتھر کی مدد سے ضربیں لگا کر دونوں اطراف سے اس کو چھیل کر سیدھی لکیر اور تیز دھار بنائی گئی تھی۔
جب برطانوی میوزیم نے ان جیسے اوزار خود دوبارہ بنا کر ٹیسٹ کیا تو یہ ایک بھاری ضرب سے ہڈی کو توڑ کر اس میں سے گودا نکالنے کے لئے بہت موثر ہے۔ کسی بھی باورچی خانے میں استعمال کیا جا سکتا ہیں۔ اس کو استعمال کرنے والے انسان نما غالبا خود شکاری نہیں تھے، لیکن ان اوزاروں کی مدد سے دوسرے شیر اور چیتوں کے چھوڑے شکار سے گوشت اور گودا آسانی سے حاصل کر سکتے تھے اور ان کے لئے پروٹین کی لاٹری لگ گئی تھی۔
دماغ جسم کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ دو فیصد سے بھی کم لیکن جسم کی توانائی کا بیس فیصد سے بھی زیادہ خرچ کرتا ہے۔ اس قدر مہنگے عضو کو توانائی پہنچانے کے لئے توانائی حاصل کرنے کے بھی اچھوتے طریقے درکار تھے۔ بھاری جانوروں سے ان کی محنت چھیننے کے لئے بنائے گئے اوزاروں نے ایک چکر شروع کر دیا۔ دماغ کا یہ نقصان کہ اس کو زیادہ توانائی درکار تھی، اسی دماغ نے نئے طریقے ڈھوںڈ کر دور کر دیا۔ بڑے دماغ کا مطلب مزید بہتر اوزاروں کی صورت میں نکلا اور یہ عمل چلتا رہا۔
اوزاروں کا استعمال انسانوں تک محدود نہیں، دوسرے جاندار بھی استعمال کرتے ہیں لیکن ایک چیز مختلف ہے۔ انسان اوزار کو ان کی ضرورت پیش آنے سے پہلے ہی بنا لیتے ہیں اور ایک دفعہ بنا لیں تو آگے سے آگے پھیلا دیتے ہیں۔ اوزاروں کا ذخیرہ بڑھتا جاتا ہے۔
جس کاریگر نے بھی اسے بنایا ہو گا، اس نے اس پر تجربے کئے ہوں گے کہ یہ کس طریقے سے بہتر سے بہتر ہو سکتا ہے۔ اس کے کناروں پر پڑے گئے چھوٹے گڑھے یہ بتاتے ہیں کہ یہ انسان نما، دوسرے جانوروں کے برعکسِ چیزوں کو اُس سے زیادہ پیچیدہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے جس کی ضرورت تھی۔ یہ اپنے کاریگر کے بارے میں ایک بڑا طاقتور پیغام دیتے ہیں۔ اپنی تخلیق سے پیار اور پھر اس پر انحصار کا۔
اوزار بنانے کے بعد انحصار ہو جانا کہ ان کے بغیر رہا نہ جا سکے۔ یہ تاریخ کی کہانی رہی ہے۔ دراڑوں کی وادی سے ملنے والا یہ اوزار اٹھارہ لاکھ سال قبل بنایا گیا تھا۔ اس جگہ سے ہزاروں فاسلز اور دوسری باقیات مل چکی ہیں۔ اسی سائٹ سے 1964 میں ہومو ہیبیلس کی باقیات دریافت ہوئی تھیں۔ (ہیبیلس کا مطلب ہی کاریگر ہے)۔ ایک اور اہم چیز یہ کہ یہاں پر دریافت کردہ اوزار دائیں ہاتھ سے کام کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ یہ اہم کیوں؟ کوئی بھی اور پرائمیٹ کسی ایک ہاتھ کے استعمال کو ترجیح نہیں دیتا۔
اس وادی میں جو تنزانیہ، کنیا، ایتھیوپیا، یوگینڈا تک پھیلی ہوئی ہے، پیلیواینتھروپولوجی کی دریافتوں کے اہم ترین مقامات ہیں۔ ہمیں اس سے پرانے اوزار بھی مل چکے ہیں۔ سب سے پرانے اوزار 2015 میں اسی وادی کی کینیا میں لومکوی کی سائٹ سے ملے جو تینیتیس لاکھ سال پرانے تھے۔ ان میں 130 اشیاء جو اسی جگہ پر ملنے والی انسان نما نوع کینین تھروپس (یہ ہومو کے جینس سے نہیں) کے بنائے گئے تھے۔
پتھر کے اوزاروں اور انسانی باقیات ملنے کی ایسی جگہیں دنیا بھر میں ہیں لیکن س
ب سے پرانی جگہیں افریقہ میں ہیں، جو ہمارے سفر کا افریقہ سے آغاز کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان سائیٹس کو اولڈوان سائٹس کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسی ایک جگہ راولپنڈی میں سوآن وادی میں ہے، جہاں پر 1980 میں پینتالیس ہزار سال پرانی پیلیولیتھک سائیٹ دریافت ہوئی تھی۔ اس کو روات سائٹ 55 کہا جاتا ہے۔ اس سائٹ کو کراچی سے تعلق رکھنے والے آرکیولوجسٹ محمد حلیم نے برطانوی آرکیولوجسٹس کے ساتھ مل کر سٹڈی کیا تھا۔
ساتھ لگی دوسری تصویر چند اہم سائیٹس کی جو مشرقی افریقہ کی اس وادی کا حصہ ہیں۔