اولاد اگر نالائق نکلے تو ۔ ۔ ۔ ۔
( فلم ’ 102 ناٹ آﺅٹ ‘ پر تبصرہ )
قیصر نذیر خاورؔ
گجراتی ، برصغیر کی ایک اہم ’ انڈو ۔ آرین ‘ زبان ہے ۔ اس نے بھی دیگر کئی مقامی زبانوں کی طرح سنسکرت کی کوکھ سے جنم لیا اور ’پراکرتی ‘ و’ آواہنسا ‘ دور سے گزرتی اس’ گجراتی ‘ تک پہنچی ہے جو آج انڈیا میں گجرات کاٹھیاواڑ کی سرکاری زبان ہے ؛ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پرفارسی ، عربی ، پرتگالی اور انگریزی زبان کے اثرات ہوئے ؛ یہ اثر یک طرفہ نہیں تھا بلکہ گجراتی کے کئی الفاظ بھی ان زبانوں میں داخل ہوئے۔ آج یہ دنیا میں لگ بھگ چھ کروڑ لوگوں کی مادری زبان ہے ۔
برصغیر سے اس زبان کا ایک اور سمبندھ بھی ہے؛ اتفاق کہہ لیں یا اس کے الٹ سمجھ لیں ، یہ مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح کی بھی مادری زبان تھی ۔
پراچین ساہتیہ ( قدیم ادب) اور مدھیاکلن ساہتیہ ( قرون وسطیٰ کا ادب) کے بعد آرواچِن ساہتیہ ( جدید ادب) 1850 ء سے شروع ہوتا ہے اور عصر حاضر تک آتا ہے۔ یہ سات ادوار پر مشتمل ہے ۔ ان ساتوں ادوارمیں ایک دور ' گاندھی یُگ ' ( 1915 ء تا 1945 ء ) بھی ہے لیکن بد قسمتی یا اس کے الٹ ، اس زبان کے ساتھ ایسا کوئی دور نہیں جڑا ہوا جسے ' جناح یُگ ' کا نام دیا جا سکے گو گجراتی بولنے والے جناح کے پاکستان میں بھی کم نہیں ؛ کیوں ؟ واللہ عالم ۔
غزل سمیت ہر طرح کی شاعری کے علاوہ ’ نیول کتھا ‘ ( ناول) ، ’ نیولیکا ‘ ( ناولٹ ) ، ’ تُنکی ورتا ‘ ( افسانہ) اور ناٹک ( ڈرامہ) اس زبان کی اہم ادبی اصناف ہیں ۔ بھگ وتی کمار شرما اور بِندو بھاٹ ہم عصر زمانے کے بڑے ناول نگار ہیں جبکہ گجراتی ڈرامے میں شانتا گاندھی ( وہ سکول کے زمانے میں اندرا گاندھی کی کلاس فیلو بھی تھیں ) کا نام نمایاں ہے ؛ ’ جسما اوڈن‘ ( 1968) اُس کا لکھا ایک اہم ناٹک مانا جاتا ہے ۔ 1990 کی دہائی آتے آتے تک گجراتی ناٹک خاصا پستی میں چلا گیا لیکن اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد گجراتی ناٹک میں پھر سے جان پڑی اور ہر طرح کے ناٹک لکھے اور سٹیج ہونے لگے جن میں مزاحیہ ڈرامے بھی شامل ہیں ۔
ان نئے ناٹک لکھنے اور انہیں سٹیج پر پیش کرنے والوں میں ’ سومیا جوشی ‘ کا نام بھی اہم ہے ۔ 45 سالہ ، احمدآباد میں پیدا ہوا ۔ یہ ناٹک کار ڈرامے لکھتا ہے ، ان کی ہدایت کاری کرتا ہے اور ان میں بطور اداکار بھی شامل ہوتا ہے ۔ وہ شاعر بھی ہے۔ ’ ایچ کے آرٹس کالج ' ، احمد آباد اور یونیورسٹی آف گجرات کے تعلیم یافتہ ، اس ناٹک کار نے 2011 ء میں ’ فیڈ ۔ اِن‘ ( Fade – In ) کے نام سے تھئیٹر قائم کیا ۔ وہ اس سے قبل ایچ کے آرٹس کالج ، احمد آباد میں انگریزی پڑھاتا رہا تھا ۔ اس کی شاعری کا مجموعہ ’ گرین روما ‘ ( سبز کمرہ ) کے نام سے2008ء میں شائع ہو چکا ہے۔ اس نے ’ رمی لو نے یار‘ نامی ڈرامے سے ناٹک لکھنے کا آغاز کا کیا ۔ ’ دوست چوکاس آہیں اک نگر واستو ہیتُو ‘ نامی ناٹک اس کا ایک اہم ڈرامہ ہے جو 2002 ء کے گجرات فسادات پر ایک ’ بلیک کامیڈی ‘ ہے۔ ’ ویلکم زندگی ‘ اور ’ 102 ناٹ آﺅٹ ‘ اس کے اہم ڈرامے گردانے جاتے ہیں ۔ اس کے ناٹکوں میں کرداروں کی بھر مار نہیں ہوتی ۔ وہ بس دو تین کرداروں سے ہی کام چلاتا ہے اور گجراتیوں کا من موہ لیتا ہے؛ میں نے اس کا ڈرامہ ' ویلکم زندگی ' دیکھا ہے ۔ یہ تین کردار کا ڈرامہ ہے ؛ ایک ماں ، ایک باپ اور ایک بیٹا ؛ یہ نہ صرف دیکھنے والوں کو ہنساتے ہیں بلکہ مکالموں میں چھپے کرب پر آنکھیں بھی نم کر دیتے ہیں ۔ دیکھنے والے ، سننے والے ، سمجھنے والے نہ صرف ہنستے ہیں ، تالیاں بجاتے ہیں بلکہ کئی موقعوں پر اپنی نم آنکھوں کو پونچھتے بھی ہیں ۔ ایسے میں ہال میں سکوت طاری ہوتا ہے ۔
' 102 ناٹ آﺅٹ ‘ بھی ایک ایسا ہی ناٹک ، ایک ایسا ہی ڈرامہ ہے جو 102 سالہ ، زندہ دل باپ اور 75 سالہ مردہ دل بیٹے کی کہانی ہے ۔ باپ 25 سال کے نوجوانوں کی طرح چلبلا ہے ، اور جینے کی امنگ رکھتا ہے جبکہ بیٹا 75 سال کی عمر میں ہی جی ہارے بیٹھا ہے ۔ باپ اس چینی کا عالمی ریکارڈ توڑنے کا ڈھونگ رچاتا ہے جو 118 سال کی عمر میں فوت ہوا تھا تاکہ اپنے بیٹے کو زندگی کی طرف لوٹا سکے ۔ یہی اس ڈرامے کے دو مرکزی کردار ہیں جبکہ اس میں دو ضمنی کردار نوکر اورپوتے کے بھی ہیں ۔ پوتا بدیس میں اکیس سال سے بسا ہے اور باپ سے ملنے ایک بار بھی نہیں آتا اور جب آتا ہے تو اس کا باپ زندگی کی طرف لوٹ کر اپنے باپ کی یہ بات سمجھ چکا ہوتا ہے ؛
’ اولاد اگر نالائق نکلے تو اسے بھول جانا چاہیے۔ ۔ ۔ صرف اس کا بچپن یاد رکھنا چاہیے، صرف بچپن ۔ ۔ ۔ “
’ او مائی گوڈ ‘ اور ’ آل از ویل ‘ کے ڈائریکٹر اُمیش شکلا نے سومیا جوشی کا یہ ڈرامہ اٹھایا ، امیتابھچن اور رِشی کپور کو اس کے لئے کاسٹ کیا اور اسے ہندی/ اردو فلم میں ڈھال دیا ۔ امیتاب نے اس فلم میں 102 سالہ بڈھے جبکہ رشی کپور نے اس کے 75 سالہ بیٹے کا کردار ادا کیا ہے ۔ نوکر کا کردار ’ جمت تریویدی‘ اور پوتے کا کردار’ دھرمیندر گوہل ‘ نے نبھایا ہے ۔ فلم میں وجے راز نے کہانی سنانے کے لئے اپنی آواز استعمال کی ہے ۔
اس فلم کے گانوں کی موسیقی سلیم ۔ سلیمان اور روشن وینائک نے تیار کی جبکہ امیتا بھچن نے بھی اس میں تڑکا لگانے کوشش کی ہے ۔ اس کے دو گیت سومیا جوشی کے ہی لکھے ہوئے ہیں جبکہ دو کو ہرل برہم بھاٹ اور ایک امیتاب بھٹاچاریہ نے لکھا ہے ۔ گرودت کی فلم ’ کاغذ کے پھول‘ کا ایک گیت جسے کیفی اعظمی نے لکھا تھا؛ ’ وقت نے کیا ،کیا حسین ستم ، ہم رہے نہ تم ۔ ۔ ۔ ‘ بھی اس فلم میں برتا گیا ہے ۔
اس فلم کی سینماٹوگرافی لکشمن اتیکر نے سر انجام دی ہے جبکہ بودھتیا بنرجی نے اس کی تدوین کی ہے ۔ فلم کا بیک گراﺅنڈ میوزک جارج جوزف کا بنایا ہوا ہے ۔ جارج جوزف کا دیا بیک گراﺅنڈ میوزک بہت اعلیٰ پایے کا ہے؛ یہ میوزک ایک الگ ہی مزہ دیتا ہے جیسے بندہ روایتی سازوں سے کچھ نئے انداز سے چھیڑخانی کر رہا ہو ۔ گیتوں اور ان کی دھنوں کو سن کر امیتا بھچن کا وہ البم یاد آتا ہے جو اس نے ’ ایبے بے بی‘ کے نام سے 1996 ء میں ریلیز کیا تھا ، جس کا میوزک بالی ساگو نے ترتیب دیا تھا ؛ اور اس کا ایک گانا ’ اِک رہن ایر ، اِک رہن بیر، اِک ہن پھتے ، اِک رہن ہم ۔ ۔ ۔ ‘ بہت مشہور ہوا تھا ۔
لکشمن اتیکر نے بھی فلم کوعمدگی سے فلمایا ہے ؛ اس نے اس بات پر خاصا دھیان دیا ہے کہ فلم میں ناٹک کا سا سماں بندھا رہے اور فلم کا احساس نہ ہو؛ ایسا لگے جیسے دیکھنے والا سٹیج پرناٹک دیکھ رہا ہو ۔ اس میں سیٹ ڈیزائنرز نے بھی اس کا عمدگی سے ساتھ دیا ہے؛ مجھے معلوم نہیں کہ لکشمن اتیکر نے یہ گُن کس سے سیکھا ہے لیکن مجھے ’ وی کے مورتھی ‘ یاد آئے جنہوں نے 1959ء میں ’ کاغذ کے پھول ‘ کی سینماٹوگرافی کی تھی ؛ وی کے مورتھی وہ سینماٹوگرافر تھے جنہوں نے جرمن ' تاثریت پسند ' سینماٹوگرافروں سے کچھ ایسا سیکھا تھا جو برطانوی ، فرانسیسی اور امریکی سینما سے الگ ہی تھا ۔
امیتابھچن اور رشی کپور کی اس فلم میں اداکاری کچھ ایسی رہی جیسے وہ اسے اپنے کھیت کی مولی سمجھ رہے ہوں؛ انہوں نے ڈائریکٹر کو گھاس نہیں ڈالی یا ہدایتکار ان کے دبائو میں رہا ۔ نوکر کے کردار میں ’ جمت تریویدی‘ نے جم کر اداکاری کی ہے ۔ ’ دھرمیندر گوہل‘ کا رول مہمان اداکار سا ہے اس لئے اس پر بات کرنا اہم نہیں ہے ۔
اس فلم میں، سومیا جوشی کے ناٹک ، اس کے پاور فُل مکالموں اور طرب میں چھپے ' الزامیر ' اور ' برین ٹیومر ' کے کرب نے امیتا بھچن اور رشی کپور کی کمزور اداکاری کو چھپائے رکھا اور اُمیش شکلا کی فلم ، اپنی دیگر خوبیوں کی وجہ سے ، جو دس کروڑ انڈین روپے سے تیار ہوئی تھی ، اَسی کروڑ سے زائد کا بزنس کر گئی ۔ یہ مئی 2018 ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔
میں نے اس فلم کو ذرا دیر سے دیکھا ہے اور یہ تبصرہ کرتے ہوئے منتظر ہوں کہ سومیا جوشی کے ڈرامے ’ دوست چوکاس آہیں اک نگر واستو ہیتُو ‘ کو کون سا فلم ساز اور ہدایتکار ہاتھ ڈالتا ہے اور اسے فلم کی شکل دیتا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔