پہلی دفعہ پاکستان آرمی کے ایک سئنیرافسر اور اوکاڑہ ملٹری فارمز کے انچارج برگیڈئیر رانا محمد فہیم نے واضع طور پر کہا کہ اوکاڑہ ملٹری فارمز زمین کی مالک فوج نہیں ہے اور یہ کہ اس کی مالک پنجاب حکومت ہے۔ اس لئے فوج پر یہ الزام کہ وہ مزارعین کو یہاں سے بے دخل کرنا چاھتی ہے غلط ہے۔
ہم آغاز سے ہی یہ کہ رھے تھے کہ فوجی ادارہ اس زمین کا مالک نہیں ہے۔ اب اسے سرکاری طور پر مان لیا گیا ہے۔
اکتیس (31) دسمبر 2018 کو اسلام آباد میں نیشنل کمیشن ہیومن رائٹس (NCHR) نے اوکاڑہ میں اٹھارہ سال چلنے والے مزارعین کے ایک کیس کی سماعت کی۔
مزارعین کی جانب سے تین راھنماؤں نے نمائندگی کی۔ جبکہ سول سوسائٹی کی جانب سے طاہرہ عبداللہ، سینٹر فرحت اللہ بابر، خاور ممتاز، نثار شاہ ایڈووکیٹ کے علاوہ عوامی ورکرز پارٹی کے چند کارکنان بھی اس سماعت میں شریک تھے۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے چئرمین ریٹارڈ جسٹس علی نواز چوھان اور ممبر چوھدری محمد شفیق نے اس کیس کی سماعت کی۔
اس میں تین تجاویز پر اتفاق راۓ تھا
1- تمام مزارعین راھنماؤں کے خلاف درج مقدمات واپس لے لئے جائیں گے
2- بٹائی ملٹری فارمز انتظامیہ کو نہیں دی جائے گی، جو اس کا مالک ہے ان سے بات ہو سکتی ہے۔
2- کسی مزارع کو بے دخل نہیں کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں یہ طے پایا کہ مندرجہ بالا تجاویز پر مزارعین اپنے اجلاس کر کے اتفاق رائے بنائیں اور ائندہ سماعت 17 جنوری کو اسلام آباد میں ہو گی۔
روزنامہ ڈان میں جو رپورٹ شائع ہوئی ہے وہ پورا سچ نہیں ہے۔
اس ایشو بارے اب سول سوسائٹی کی تنظیمیں مزارعین نمائندوں کے ساتھ مل کر اپنا اجلاس منعقد کریں گی اور 17 جنوری کو مشترکہ موقف ہیومن رائٹس عدالت کے سامنے رکھا جائے گا۔
مزارعین کے حقیقی نمائندے مہر عبدالستار، عبدل غفور اور یونس اقبال ابھی جیل میں ہیں۔ امید ہے ان دونوں اور دیگر کے خلاف بھی تمام مقدمات واپس لے لئے جائیں گے۔
مزارعین کے راھنما ملک محمد سلیم جکھڑ ھفتے کے روز ضمانت پر رھا ہو گئے ہیں۔ ان کے خلاف 84 مقدمات درج کئے گئے تھے۔
اس سے قبل اوکاڑہ ملٹری فارمز یونین کونسل کے چئرمین نور نبی ایڈووکیٹ بھی ضمنت پر رھا ہو گئے تھے۔ ان کے علاوہ نمائندہ نوائے وقت حسنین رضا بھی ضمانت پر رھا ہیں۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی انجمن مزارعین پنجاب تمام راھنماؤں کی باعزت رھائی اور مقدمات کی واپسی کے لئے جدوجہد جاری رکھے گی۔ اور یہ مطالبہ کرتی رھے گی کہ سرکاری ملکیت میں تمام زرعی فارمز کو ان پر ایک صدی سے زیادہ کام کرنے والےمزارعین میں مفت تقسیم کیا جائے اور ان کے حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے۔