اوکاڑہ میں مزارعین کی جدوجہد اور مہر ستار کی رہائی، کیا اوکاڑہ ملٹری فارمز کا قضیہ ختم ہوا؟
یکم جون 2018 کو انجمن مزارعین پنجاب کے رہنما مہر عبدالستار دو سال اور دو ماہ کے بعد رہا ہو کر اپنے گاؤں چک 4/4L ملٹری فارمز اوکاڑہ پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ انہیں 15 اپریل 2016 کو اسی گاؤں سے گرفتار کیا گیا تھا جب وہ دو دن بعد 17 اپریل کو اپنے گاؤں میں کسانوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک جلسہ عام کرنا چاہتے تھے۔
مہر عبدالستار کے خلاف 36 مقدمات درج کیے گئے تھے، ان میں سے اکثر میں وہ بری ہو چکے ہیں اور بقیہ میں ان کی ضمانت منظور کی گئی۔
انجمن مزارعین پنجاب کے خلاف سیاسی مقدمات
انجمن مزارعین پنجاب کے تین دیگر اہم رہنما ابھی بھی جیلوں میں بند ہیں۔ نور نبی جو مقامی یونین کونسل کے منتخب چئیرمین ہیں کو جون 2017 میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اوکاڑہ ضلع کونسل کے اجلاس میں شریک ہونے آئے تھے جس کے وہ باضابطہ ممبر ہیں، ان پر کئی جھوٹے مقدمے دائر کئے گئے ہیں۔
انجمن مزارعین کے ایک اور رہنما ملک سلیم جھکڑ 2015 سے گرفتار ہیں، ان پر 95 مقدمات دائر کئے گئے تھے۔ 2018 کے آغاز میں وہ ان تمام مقدمات میں یا تو بری ہو گئے تھے یا ان کی ضمانتیں منظور کر لی گئی تھیں تو ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔ جب وہ لاہور میں مجھ سے ملنے آئے اور کہا کہ ان کے خلاف مقدمات میں عاصمہ جہانگیر ان کی مدد کریں تو اگلے روز ہی ان کو اوکاڑہ کے پولیس سٹیشن میں مذاکرات کرنے کے بہانے بلا کر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ وہ ابھی بھی جیل میں بند ہیں۔ ان پر ڈکیتی کا ایک اور جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے، یہ کہا کہ فاروق طارق سے کیوں ملے تھے۔
رینالہ خورد میں انجمن مزارعین کے رہنما ندیم اشرف بھی 2015 سے جیل میں ہیں۔ ان پر قتل کے کئی جھوٹے مقدمات درج کیے گئے تھے جن میں وہ بری ہو چکے ہیں۔ ان پر درج دو مقدمات میں ان کی ضمانت ہونا ابھی باقی ہے۔
انجمن مزارعین پنجاب کے ایک بانی رہنما یونس اقبال کو 2018 میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ساہیوال کی عدالت میں ایک پیشی بھگتنے آئے تھے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ ان کے گاؤں چک 10/4/L ملٹری فارمز اوکاڑہ میں عاصمہ جہانگیر کا میموریل اجلاس انتظامیہ کی تمام کوششوں کے باوجود ہو گیا تھا اور اس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی تھی۔ وہ اب ساہیوال جیل میں بند ہیں۔
ان سب کا اصل جرم کیا ہے؟
ان سب کا اصل جرم اوکاڑہ ملٹری فارمز کی زمینوں کی ملکیت کا مطالبہ کرنا تھا۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے مزارعین نے 2001 میں اپنی تنظیم انجمن مزارعین پنجاب کی بنیاد رکھی تھی اور اعلان کیا تھا ہمارا نعرہ ‘مالکی یا موت’ ہے۔
اس تحریک میں اصل جان اس وقت پڑی جب تحریکی رہنماؤں نے اپنی فصلوں کا وہ حصہ دینے سے انکار کر دیا جو وہ دہائیوں سے ملٹری فارمز انتظامیہ کو دے رہے تھے۔ مزارعین کی ایک بہت بڑی اکثریت اب بھی یہ حصہ ادا نہیں کر رہی۔ ان رہنماؤں کی گرفتاری کا ایک مقصد مزارعین کو یہ حصہ دینے پر مجبور کرنا ہے، جس کو بھی گرفتار کرتے ہیں اس سے پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ مزارعین سے یہ حصہ دلوایا جائے۔
اوکاڑہ ملٹری فارمز کا قضیہ آخر ہے کیا؟
انیسویں صدی کے آغاز میں اس قسم کے ملٹری اور ڈیری زرعی فارمز انگریزوں نے بنائے تھے کہ ان کے لئے دودھ اور اجناس کی کمی نہ ہو؛ ملٹری نے یہ فارمز لیز پر حاصل کئے تھے۔ ایک ریسرچ کے مطابق یہ لیز پاکستان بننے سے پہلے ہی ختم ہو گئی تھی مگر ملٹری فارمز انتظامیہ ان پر قابض رہی۔ مزارعین کو بارہ بارہ ایکڑ زمین الاٹ کی گئی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف سمیت تقریباً ہر سیاسی رہنما نے یہ زمینیں مزارعین کے نام کرنے کا سرعام وعدہ کیا۔ اور کسی نے بھی اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا۔
مزارعین کی مشرّف آمریت کے خلاف جدوجہد
مزارعین کی تحریک اس وقت شروع ہوئی جب مشرف آمریت نے اقتدار سنبھالنےکے بعد مزارعین کو ان کا سٹیٹس تبدیل کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ وہ ٹھیکوں پر یہ زمین لے لیں۔ مزارعین ان کی چال سمجھ گئے، کہ اس چال کے پیچھے اصل کہانی زمینوں کو خالی کرانا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ زمینوں کے اصل مالک وہ ہیں اور یہ کہ وہ حصہ نہیں دیں گے۔ اگر حصہ لینا ہے تو ان زمینوں کی اصل مالک پنجاب حکومت ان سے بات کرے۔
حصہ نہ دینے کی تحریک کو کچلنے کے لئے ملٹری دور میں ان مزارعین پر زبردست ظلم وستم کئے گئے۔ دیہاتوں کا گھیراؤ کیا گیا۔ گرفتاریاں کی گئیں۔ 11 مزارعین شہید ہوئے۔ مشرف آمریت کو اقتدار کے بعد پہلی دفعہ کسی تحریک کا سامنا تھا جو اس کے قابو میں نہیں آ رہی تھی۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سمیت اے آر ڈی، سول سوسائٹی تنظیموں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے انجمن مزارعین کی بھرپور مدد کی۔
مشرف دور میں یہ تحریک ختم نہ ہوئی اور نہ ہی ان کی انتظامیہ مزارعین سے فصلوں کے آدھے کے لگ بھگ حصہ لے سکی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مزارعین کے ہر خاندان کو سالانہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ بچنا شروع ہو گیا۔ یہ معاشی سول نافرمانی کی ایک بڑی مثال تھی۔
نواز شریف دور میں تحریک کچلنے کی کوششوں میں تیزی
بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا، مگر میاں نواز شریف دور میں 2015 سے ہی اس تحریک کو کچلنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ رہنماؤں کو یکے بعد دیگرے گرفتار کر لیا گیا۔ فیصل رانا نامی ایک سابق ملٹری افسر کو اوکاڑہ کا ڈسٹرکٹ پولیس افسر مقرر کیا گیا جس نے رہنماؤں کے خلاف جھوٹے مقدمات کی بھرمار کر دی۔
دہشتگردی کے پرچے اور لال مسجد کا گٹھ جوڑ
ایک روز 2016 کے آخر میں چھ افراد کو ملک سلیم جکھڑ کے ڈیرہ پر لا کر ایک جعلی پولیس مقابلہ میں ہلاک کر دیا گیا اور کہا گیا کہ مزارعین کے پاس چھپے مذہبی دہشتگردوں کو پولیس مقابلہ میں مار دیا گیا ہے۔ ملک سلیم جکھڑ جیل میں تھے، مدعا ان کے بھائی پر ڈال دیا گیا، وہ اب تک پولیس سے چھپتا پھرتا ہے۔
بعد ازاں لال مسجد والوں کی تنظیم نے ان میں ہلاک دو کو پہچان لیا اور بیان دیا کہ ان کو تو لال مسجد آپریشن کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
مہر ستار پر بھی غدّاری کا الزام
اسی طرح اسی عرصہ میں مہر ستار کے گھر رات دو بجے چھاپہ مارا اور کہا اس کے گھر سے 86000 انڈین کرنسی برآمد ہوئی ہے، اور وہ “را” کا ایجنٹ ہے، بعد ازاں ساہیوال انسداد دہشتگردی عدالت نے اس کیس کو بھی جھوٹا قرار دے کر مہر ستار کو اس میں باعزت بری کیا۔
مہر ستار کو بیڑیوں سمیت ہائی سیکورٹی جیل ساہیوال میں رکھا گیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عاصمہ جہانگیر کی بھرپور دلیلوں کے بعد ان کی بییڑیاں اتروائی گئیں، لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی جیل تبدیلی کی درخواست مسترد کر دی گئی۔
جھوٹے مقدمات ختم کرنے کی پیشکش
ان گرفتاریوں کے بعد انجمن مزارعین پنجاب کے رہنماؤں پرزور دیا گیا کہ “حصہ دو تو یہ تمام مقدمات ختم کر دئیے جائیں گے” یعنی جھوٹے مقدمات مزارعین کوحصہ دینے پر مجبور کرنے کے لئے دائر کئے گئے تھے۔ ان میں سے بعض نے بہ امر مجبوری اپنے ساتھیوں کو رہا کرانے کے لئے حصہ دے دیا ہے۔ اسی مجبوری میں کہ ان کے تمام رہنما اس وقت ہی رہا ہوں گے وہ ایک معاہدہ پردستخط کریں، انہوں نے دستخط بھی کر دیے ہیں لیکن مزارعین کی ایک بہت بڑی تعداد یہ بلیک میلنگ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ حصہ دینے کو تیارنہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حصہ لینا ہے تو پنجاب حکومت بات کرے، ہمارا تو مطالبہ ہے کہ یہ زمینیں مزارعین کے نام کرو؛ اور زبردستی آپ حصہ نہیں لے سکتے۔
مزارعین خوشحالی کو اپنے ہاتھوں واپس نہیں دے سکتے
مزارعین میں جو تھوڑی بہت پچھلے چند سالوں میں خوشحالی آئی ہے وہ ان کی جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت ہے، کسی کا احسان نہیں؛ وہ اس خوشحالی کو آسانی سے اپنے ہاتھوں واپس نہیں دے سکتے۔
پچھلے چار سالوں میں مزارعین کی تحریک کے رہنماؤں کے خلاف جو جھوٹے مقدمات درج کیے گئے ان کی مثال ملنا مشکل ہے، ان مقدمات کے بعد گرفتاریوں اور جیلوں میں برے سلوک کا ایک ہی مقصد تھا اور ہے کہ مزارعوں کی یہ تحریک ختم ہو، مزارعین جو حصہ ادا نہیں کرتے وہ ادا کریں اور زمین کی ملکیت کا دعوی اور مطالبہ نہ کریں۔
اگرچہ انہوں نے بلیک میلنگ سے تحریک کو ابتدائی نقصان پہنچایا ہے مگر تحریک اپنی جگہ موجود ہے۔ جب دھند ہٹے گی تو انہیں معلوم ہوگا کہ مزارعین اپنی جگہ پر ہیں اور وہ بھی پاکستان کے پورے شہری ہیں ان کے پورے حقوق ہیں۔
ملٹری فارمز انتظامیہ اپنی پوری کوشش میں ہے کہ مہر ستار کی رہائی کے بعد وہ اس تحریک کو دوبارہ سر نہ اٹھانے دیں۔ مگر ابھی یونس اقبال، ملک سلیم جکھڑ، ندیم اشرف اور نور نبی ایڈووکیٹ جیلوں میں ہیں۔ ان کی رہائی ایک اہم مطالبہ ہے۔
وہ واحد سیاسی جماعت جس نے مہر ستار کی رہائی کا کبھی مطلبہ نہیں کیا
مزارعین کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے بعد جہاں عوامی ورکرز پارٹی نے ان کی رہائی کے لئے بھرپور جدوجہد کی وہیں پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو نے بھی ان کی رہائی کا بار بار مطالبہ کیا۔ ایک پارٹی جس نے مہر ستار اور دیگر رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ ان کی مرکزی قیادت نے کوئی بیان دیا وہ تحریک انصاف ہے۔ اب تحریک انصاف مزارعین سے ووٹ مانگ رہی ہے؛ دیکھتے ہیں کہ مزارعین اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟
لیکن جس شخصیت نے سب سے بڑھ کر مزارعین کا ساتھ دیا وہ عاصمہ جہانگیر تھیں۔ نہ صرف انہوں نے ان کے مقدمات بارے مکمل طور پر مفت لیگل مدد دی بلکہ وہ عابد ساقی ایڈووکیٹ اور میرے ہمراہ ساہیوال جیل میں مہر ستار سے ملنے بھی گئیں۔ وہ آج ہم میں موجود نہیں اور اس کا تحریک کو زبردست نقصان ہوا ہے۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔