اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی ۔۔۔۔۔ تاریخ میں کسی دشمن کے خلاف اتنا اتحاد اگر پہلے کبھی ہوا ہے تو چیلنج ہے کہ امت مسلمہ کو بتایا جائے! مانا کہ اتحاد کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ برطانوی حکومت ٹیکس نافذ کرنے میں ظلم پر اتر آئی تو امریکی ریاستیں متحد ہو گئیں۔ پیٹرز برگ خطرے میں پڑا تو روسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ مسلما ن خطرہ بنے تو بوڑھا پادری گدھے پر بیٹھا اور پورے یورپ میں گھوما۔ ایک ایک حکمران کو جا کر غیرت دلائی! چین اور برطانیہ میں ’’افیون جنگیں‘‘ برپا ہوئیں تو برطانیہ زور‘ زر‘ زاری‘ سازش‘ فراڈ سب کچھ بروئے کار لایا۔ لیکن جو اتحاد‘ جو سرگرمی امت مسلمہ نے اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے مقابلے میں دکھائی‘ اس کی مثال تاریخ میں مل ہی نہیں سکتی۔
اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی، قیام اللیل کے مبارک موقع پر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں فلسطینیوں کے لیے خاص طور پر دعائیں کی گئیں۔ امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس نے فلسطین کے مسلمانوں کے لیے خصوصی دعا کرائی۔ انہوں نے کہا، یااللہ! فلسطینی مسلمانوں کو یہودی دشمنوں سے محفوظ رکھ۔ انہوں نے اسلام دشمن قوتوں کے پارہ پارہ ہونے کی دعا کی۔ اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی‘ اگر کسی کو پارہ پارہ ہونے کا مطلب نہیں معلوم تو جان لے کہ پارہ پارہ ہونے کا مطلب ہے ٹکڑے ٹکڑے ہونا‘ ریزہ ریزہ ہو جانا! اللہ اکبر !! یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے! اسلام دشمن قوتوں کے پارہ پارہ ہونے کی دعا جبکہ پارہ پارہ ہونے کا مطلب ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہو! اقوام متحدہ میں فلسطین کے مندوب ریاض منصور سکیورٹی اجلاس میں غزہ کی صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے باقاعدہ آنسوئوں سے رو دیے! کیا دنیا کو نہیں معلوم کہ آنسو کتنی بڑی طاقت ہیں! عورت تو اپنے آنسوئوں کے ذریعے بادشاہوں کے دلوں اور سلطنتوں کے خزانوں پر قبضہ کر لیتی ہے۔ غزہ پر چلنے والی گولیاں آنسوئوں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہیں! ہسپانیہ کا آخری بادشاہ عبداللہ غرناطہ سے رخصت ہوتے وقت رو پڑا تو اس کی ماں نے کہا کہ جس سلطنت کی حفاظت مردوں کی طرح نہ کر سکے‘ اس کے جانے پر عورتوں کی طرح رو کیوں رہے ہو! وہ تو خدا کا شکر ہے کہ آج کل ایسی غیر دانش مند مائیں نہیں ہیں کہ رونے کا مزہ ہی کرکرا کر دیں۔ رو! اے ریاض منصور! کھل کر رو! ہچکیاں لے لے کر رو! کوئی ماں روکنے والی یا شرم دلانے والی سامنے نہیں آئے گی!
اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی‘ سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے فتویٰ تک دے دیا ہے کہ غزہ کے متاثرین کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ مفتی صاحب نے ڈنکے کی چوٹ کہا اور ایسا کہتے وقت اپنی عبا کے زاویے بھی درست کیے کہ غزہ کے باسیوں کو قتل‘ بے دخلی اور مال و متاع کی تباہی کا سامنا ہے‘ اس لیے یہ لوگ زکوٰۃ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں! دنیا کو معلوم ہی نہیں کہ فتویٰ کتنی بڑی طاقت ہے اور وہ بھی زکوٰۃ کا! اسرائیلی اس طاقت کی حسرت تو کر سکتے ہیں‘ حاصل نہیں کر سکتے۔ اور پھر ترک وزیر اعظم نے تو باقاعدہ ریلی سے خطاب کیا اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے برملا کہا کہ صہیونی ریاست کی ذہنیت ہٹلر سے ملتی ہے۔ انہوں نے ایسے ایسے کوسنے دیے کہ یقیناً کئی اسرائیلی یہ کوسنے سن کر بے ہوش ہو گئے ہوں گے۔۔۔۔۔ ’’اسرائیلیوں کا کوئی ضمیر، غیرت یا خود داری نہیں‘‘ کیا غزہ پر گرائے جانے والے بم ان کوسنوں کے سامنے ٹھہر سکتے ہیں؟ انہوں نے پوچھا کہ امریکہ اسرائیلی حملوں پر آنکھیں کیسے بند کر سکتا ہے؟ کیا اتنا تکنیکی اور مشکل سائنسی سوال امریکہ سے اس کی پوری تاریخ میں کسی نے پوچھنے کی جرأت کی ہے؟ اب اگر کوئی بے وقوف کہتا ہے کہ چلو عرب حکمران تو سوئے ہوئے ہیں‘ ترک ہی غزہ کے فلسطینیوں کو چند جنگی ہوائی جہاز دے دیتے تو اسے اس طرح کے غیر حقیقت پسندانہ اور جذباتی مشورے دینے کے بجائے ترک وزیر اعظم کا خطاب غور سے پڑھنا چاہیے!
اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی‘ مولانا فضل الرحمن نے اسرائیل پر موثر ترین حملہ کیا ہے۔ یہ حملہ آپ نے 23 جولائی بمطابق 24 رمضان المبارک کو دن کے وقت کیا۔ ایک تو انہوں نے یہ خفیہ اطلاع بہم پہنچائی کہ اسرائیل کے حملوں سے ’’بے گناہ بچے‘ خواتین اور بوڑھے شہید ہو رہے ہیں!‘‘ دوسرے انہوں نے یہ راز بھی فاش کر دیا کہ ’’یہ سب کچھ ملی بھگت کے ساتھ ہو رہا‘‘۔ ؎
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
یہ شعر مولانا کا نہیں ہے۔ انہوں نے ایک تجویز پیش کی۔ عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں ایسی کوئی تجویز کسی اور مدبر سیاست دان نے نہیں دی۔۔۔۔’’مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اب آنکھیں کھولنی چاہئیں‘‘۔ یہ آنکھیں تیز کافی کے کپ سے کھلیں گی یا سفید اور کالے موتیے کا آپریشن کرنے سے ۔ حضرت نے اس کی وضاحت نہیں کی!!
لیکن غزہ کے مظلوموں کی جو امداد خاکسار تحریک نے کی‘ اس کا مولانا فضل الرحمن یا جناب امام کعبہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ خاکسار تحریک کے نائب امیر اور ڈویژنل ’’سالار‘‘ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین میں جو جنگی جرائم کیے ہیں ان کی تحقیقات سے متعلق اقوا م متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی قرارداد کی منظوری قابل ستائش ہے! اور یہ بات انہوں نے چلتے پھرتے نہیں بلکہ ایک باقاعدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ حالی نے اسی سیاق و سباق میں کہا تھا ؎
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی، جناب عمران خان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو خط لکھا ہے اور انہیں احساس دلایا ہے کہ آپ اپنے فرائض کا احساس کریں اور فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ سیکرٹری جنرل صاحب بھی بالکل گھگھو ہیں۔ ابھی تک عمران خان صاحب سے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ مسلمان ملکوں کے کیا فرائض ہیں اورکیا انہیں ان فرائض کا احساس ہے؟ اور یہ کہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے عرب ریاستیں کیا اقدامات کر رہی ہیں! لیکن جو کچھ 27 جولائی 2014ء بمطابق 28 رمضان المبارک 1435ھ کو ہوا‘ اسے اسرائیلی یہودی قیامت تک یاد رکھیں گے اور دیوار گریہ کے ساتھ لگ لگ کر آہ وزاری کریں گے۔ پاکستان کے صدر مملکت نے معصوم فلسطینیوں کے خلاف مظالم پر غم و غصہ کا اظہار کیا ہے (غصہ کے لفظ پر غور کرنا لازم ہے) جمعہ کے مبارک دن جاری کئے گئے بیان میں انہوں نے اسرائیلی افواج کے حملوں کی مذمت کی اور یہ اطلاع دی کہ پاکستان کے عوام فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تادم تحریر صدر صاحب نے یہ اطلاع بہم نہیں پہنچائی کہ پاکستان کے عوام خود ایک دوسرے کے ساتھ کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔ آپ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں۔
اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی، اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے جواب میں ہم نے کچھ اور اقدامات بھی کیے ہیں جو فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ پاکستان کے وزیر اعظم‘ وزیر خزانہ اور ان کے کنبوں نے جمعتہ الوداع کی نماز پانچ لاکھ سے زائد فرزندان توحید کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کی۔ پانچ لاکھ افراد اسرائیلی یہودی کبھی بھی اکٹھے نہیں کر سکتے۔ سنا ہے اس تعداد سے وہ خائف ہیں۔ عیدالفطر کی نماز بھی ان حضرات اور ان کے معزز خاندانوں نے حرم ہی میں ادا کی۔ اس پر غزہ کے متاثرین خاندانوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ چند نے تو خوشیاں بھی منائیں۔ ایک مولانا نے ستائیسویں شب کو ایک روح پرور اجتماع میں رقت آمیز دعا کروائی! حاضرین اشک بار ہو گئے۔ ابھی تک یہ اطلاع نہیں آئی کہ دعا بارگاہ ایزدی میں قبول ہوئی ہے یا نہیں‘ لیکن عوام میں پسند کی جانے کی خبر موصول ہو چکی ہے۔ عوام کے بے حد اصرار پر یہ دعا دوبارہ نشر کی گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دعا کی ریٹنگ بھی انٹرٹینمنٹ کے دوسرے پروگراموں کی طرح کی جا رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر غزہ کے مظلوموں کی مدد کیا ہو گی! پھر وزیر اعظم سعودی عرب سے واپس عام پرواز کے ذریعے تشریف لائے۔ اس سے بھی بہت فرق پڑے گا۔ لیکن جس سے اسرائیل کی کمر ٹوٹنے کا خدشہ ہے وہ تصویر ہے جو میڈیا میں شائع ہوئی ہے اور سنا ہے غزہ کے مظلوم فلسطینی اس تصویر کی ہزاروں نقول آپس میں یوں بانٹ رہے ہیں جیسے غم بانٹا جاتا ہے۔ اوگرا پتوگرا، اس تصویر میں ہمارے وزیر اعظم فرنگی سوٹ میں ملبوس ہیں اور اپنے ہاتھ ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہیں۔ درمیان میں میز ہے جو مستطیل نہیں‘ گول ہے۔ اس کی ٹانگوں پر نقش و نگار واضح نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کی پشت پر سعودی بادشاہت کے بانی فرمانروا کی تصویر خوبصورت فریم میں جڑی نظر آ رہی ہے۔ اس تصویر میں وہ خاص بات جس سے اسرائیلی یہودیوں کی کمر ٹوٹ جانے کا امکان ہے‘ یہ ہے کہ میزبان بادشاہ کا بایاں ہاتھ ان کی عبا پر ہے اور دایاں ہاتھ گفتگو کے حوالے سے کوئی اشارہ کر رہا ہے۔ تصویر میں ترجمان قسم کی کوئی مخلوق دکھائی نہیں دے رہی! یا تو آپ نے عربی میں روانی سے گفتگو فرمائی یا آپ نے (یعنی دوسرے آپ نے) اردو میں یدطولیٰ حاصل کر لیا ہے۔ دس سالہ بچے کے دونوں بازوکاٹے جانے کے بعد اسرائیلیوں پر لرزہ الگ طاری ہے کہ جو مسلمان اس قدر سفاک ہیں کہ اپنے بچے کے بازو کاٹ کر پرے پھینک سکتے ہیں‘ وہ ان کے ساتھ یعنی یہودیوں کے ساتھ کیا نہیں کریں گے!
دس محرم کو جہاں شربت اور دودھ تقسیم ہوتا ہے وہاں ایک اور رسم بھی چلی آ رہی ہے۔ روٹی کے ٹکڑے بھگو کر ان میں دودھ، چینی، شہد وغیرہ جو بھی میسر ہو‘ ڈال کر ایک معجون یا مواد سا تیار کیا جاتا ہے۔ اسے اوگرا کہتے ہیں۔ کربلا کے معصوم مظلوموں کی پیاس کے صدقے دودھ اور شربت کی سبیلوں کے ساتھ یہ اوگرا بھی بانٹا جاتا ہے اور بچے گلیوں میں گاتے پھرتے ہیں ؎
اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی
پکا کھا گوگی دل ہووی جائی
(روٹی پکا کر کھا لے تاکہ دل جگہ پر آ جائے)
معروف شاعر توقیر چغتائی نے کہ سرحد پار بھی چھپتا اور پڑھا جاتا ہے‘ اس لوک گیت کو نظم کا روپ دیا ہے :
سُکے سُکے ٹانڈیاں تے لگیاں نہ چھلیاں
پنج کلے زمیں‘ہن رہ گئی ڈھائی
اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی
یعنی خشک پودوں پر مکی کے بھٹے تو لگ ہی نہ سکے‘ زمین پانچ کلے تھی‘ اب اڑھائی رہ گئی!
پوری امت مسلمہ اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی گاتی پھر رہی ہے۔ ایک ایک دروازے پر صدا لگا رہی ہے۔کیا اب بھی اسرائیل نہیں ڈرے گا؟ اوگرا پتوگرا دانہ بادشاہی !
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔