آپ نے آج تک نہیں سنا ہوگا کہ کسی بندے نے عید کے لیے شارٹس خریدے ہوں۔لیکن’ ٹوکا صاحب‘ یہ فریضہ سرانجام دے چکے ہیں۔ موصوف نے عید کی شاپنگ کرتے ہوئے ایک بنیان‘ شارٹ اور ہوائی چپل خریدی ہے۔ ٹوکا صاحب اچھے خاصے کھاتے پیتے انسان ہیں لہذا مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ عید پر انہوں نے یہ کیا واہیات شاپنگ کی ہے۔ وجہ پوچھی تو اطمینان سے بولے’’جس قدر گرمی پڑ رہی ہے ‘ عیدکپڑے پہن کرنہیں‘ اتار کر گذرے گی لہذا میں نے عید خوشگوار بنانے کے لیے خوشگوار کپڑے خریدے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ۔۔۔کیا سچا اور کھرا جواب دیا۔ ویسے گرمیوں کی عید میں ہوتا بھی یہی ہے۔ بندہ صبح صبح بن ٹھن کر نماز پڑھنے نکلتا ہے اور پھر نئے کپڑے ہینگر میں لٹکا کر ’اوقات‘ میں آجاتا ہے۔ٹوکا صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ چونکہ ہر بات میں ٹوکتے ہیں لہذا’ٹوکا صاحب‘ کے نام سے مشہور ہیں اور اس نام پر اجماعِ دوستاں ہے۔ ٹوکا صاحب کی عید شاپنگ دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ میں ان سے آج کے دن کے لیے کچھ اہم مشورے کیوں نہ لے لوں۔ میں نے کہا’ٹوکا صاحب! آج عید ہے اور عید کے حوالے سے اگر آپ مجھے۔۔۔‘‘ فوراً ٹوک کر بولے’مشورے مانگنے ہیں تو پہلے ٹھنڈی سوڈے کی بوتل پلاؤ‘۔ میں نے سرتسلیم خم کیا‘ انہیں بوتل پلائی اور مشورے پوچھے۔ ٹوکا صاحب نے اپنی شاندار اور مجرب تجربات کی روشنی میں جو مشورے دیے وہ میں صدقہ جاریہ کے طور پر بیان کر رہا ہوں۔۔۔!!!
*کسی انجان شخص سے عیدی ملتے ہوئے احتیاط کریں‘ آپ کا یا اُس کا پرس نہ غائب ہوجائے۔
*عید کی نمازپڑھنے جائیں تو پرانی چپل پہن کر جائیں ورنہ سارا دن پرانی چپل پہننا پڑے گی۔
*آج فوراً بال بچوں سمیت کسی رشتہ دار کے گھر چلے جائیں‘ اس سے پہلے کہ وہ آپ کے گھر آجائے۔
*بچوں اور بچوں کی ماں کو سختی سے سمجھا دیں کہ رشتہ داروں سے جو بھی عیدی ملے گی وہ آپ کے پاس جمع کرائی جائے گی۔
*آج کے دن اگر آپ زیادہ سو سو کر تھک جائیں تو تھوڑی دیر کے لیے سو جائیں۔
*اپنا موبائل بند رکھیں‘ اور اگر مجبوراً کسی رشتہ دار کا فون اٹینڈ کرنا پڑ جائے تو صاف صاف بتا دیں کہ آپ سب گھر پہ نہیں ہیں‘ لیکن یاد رہے کہ یہ بات صرف موبائل پر کہنی ہے‘ لینڈ لائن نمبر پر یہ جملہ کہنے کی حماقت نہ کریں۔
*خود سے کسی رشتہ دار کے بچے کو عیدی نہ دیں‘ پہلے اُنہیں دیکھیں کہ وہ آپ کے بچوں کو کتنی عیدی دیتے ہیں‘ جتنی عیدی آپ کے بچوں کو ملے اُس میں سے آدھی رشتہ داروں کے بچوں کو دے دیں۔
*محلے میں سے جو بھی کیک یا مٹھائی کا ڈبہ آئے‘ اس کی پیکنگ کھولے بغیر آگے اُس بندے کو دے آئیں جس سے آپ کو مستقبل قریب میں کوئی کام پڑسکتا ہے۔
*اگر آپ کے تین بچے ہیں اور آپ کے رشتہ دار کے چھ ۔۔۔تو عیدی بچوں کو دینے کی بجائے والدین کے ہاتھ میں پکڑا دیں۔
*جتنی بھی عیدی آپ کے بچوں کو ملے اُس میں سے 80 فیصد خود رکھ کرباقی بچوں کو دے دیں۔
*سسرال کی طرف سے عید آئے تو سمجھ جائیں کہ ڈیڑھ سو روپے والا سوٹ آپ کے لیے ہے اور دو ہزار روپیہ کیش آپ کی بیگم کے لیے
*آپ خود جب بھی اپنی کسی بہن کو عیدی دینے جائیں تو سختی سے تاکید کردیں کہ آپ کی بیگم کو پتا نہ چلے۔۔۔!!!
*اگر آپ اپنے کسی رشتہ دار کے بچوں کو زیادہ عیدی دیں اور وہ آپ کے بچوں کو کم دیں تو یہ بات دل پر لکھ لیں اور اُن کے گھر سے مختلف
چیزیں کھا کر حساب برابر کرلیں۔۔۔!!!
*آج چونکہ عید ہے لہذا شام سات بجے کے بعد سموسے پکوڑے نہ خریدنے نکل جائیں۔
*نئے کپڑے پہن کر اپنی سیلفی لینا نہ بھولیں تاکہ سب کو گروپ میسج کرسکیں۔
*کپڑوں میں پرفیوم ضرور لگائیں لیکن اتنا نہیں کہ ساتھ والے نمازی بے ہوش ہوجائیں۔۔۔!!
*صبح چھ بجے اٹھ کر ساڑھے چھ بجے عید والی مساجد ڈھونڈنے کی بجائے پانچ بجے اٹھیں یا کسی کے ذمے لگائیں کہ وہ آپ کے کان کے قریب زور سے ہاؤ کردے۔۔۔!!!
*گرل فرینڈ کی طرف سے میسج آئے کہ ’میں تمہیں بہت مس کر رہی ہوں‘ تو سمجھ جائیں کہ بہت خوشی محسوس کر رہی ہے۔
*نئے کپڑے پہن کر کسی چیتھڑوں میں ملبوس فقیر کے پاس کھڑے ہوکر اس کے ساتھ ایک تصویر بنوائیں اور موٹرسائیکل آگے بڑھا دیں۔ یہ تصویر بعد میں فیس بک پر اپ لوڈ کریں اور نیچے لکھ دیں’آج عید کے دن اس مجبور نے میری راہ روک لی‘ میں نے اسے گلے سے لگایا اور عید کی مبارک باد دی تو یہ رونے لگا‘ لیکن میں نے اس کے آنسو پونچھے اور اپنی ساری عیدی اسے دے دی‘۔پانچ سوLikes اور پچاس کمنٹس کی گارنٹی ہے۔
*آج کے دن گھرمیں ہنستی مسکراتی فضا قائم رکھیں اور بار بار بیگم سے یہ مت پوچھیں کہ ’باقی کتنے پیسے بچے؟‘
*سحری کے وقت ڈھول بجا کر اٹھانے والا عیدی مانگنے آئے تو پہلے تصدیق کرلیں کہ کیا یہ وہی ڈھول والا ہے جو سحری کے وقت آتا تھا؟ کیونکہ اکثر ایک محلے کے ڈھول والے دوسرے محلے میں بھی عیدی وصول کرلیتے ہیں۔ جینوئن ڈھول والے کو پہچاننے کا طریقہ ہے کہ اس سے ڈھول سنیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا یہ وہی تال ہے جوفلم دیکھنے کے دوران آپ کو ڈسٹرب کیا کرتی تھی؟
*کچھ لوگوں کو فقیروں سے بچنے کی خاص ضرورت ہے‘ ایسا نہ ہو کوئی جیب میں کچھ ڈال دے۔۔۔!!!
*عید کے دن تنگ پتلون‘ جرابیں اور بوٹ پہننے والوں کو خاص ہدایت ہے کہ پریکلی ہیٹ کریم اپنے ہمراہ رکھیں‘ طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں!
*بیگم سے صبح صبح ہی طے کرلیں کہ رشتہ داروں کے سامنے میں تمہیں پانچ ہزار عیدی دوں گا لیکن تم نے گھر آکر وہ مجھے واپس کردینی ہے۔
*بھانجے بھتیجوں کی یلغار سے پہلے ہی پریشان سا چہرہ بنا کر سب سے پوچھتے پھریں۔۔۔تم نے میرا بٹوہ تو نہیں دیکھا۔۔۔!!!
*اور سب سے آخری بات۔۔۔اگرآپ کے ماں باپ زندہ ہیں اور بوڑھے ہوچکے ہیں تو ان سے ضرور عیدی مانگیں‘ بے شک وہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ دیں‘ یہ ایک کروڑ کے برابر ہوگا اور والدین کو بھی یہ یقین اور احساس ہوگا کہ وہ بڑے ہیں اور آپ چھوٹے!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“