میٹرو بس راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوتی ہے تو پہلی شاہراہ جو اس کا استقبال کرتی ہے نائنتھ
(9th)
ایونیو کہلاتی ہے۔ تقریباً دو تین منٹ کے بعد بائیں طرف قطار اندر قطار نرسریاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ پودوں، پھولوں سے بھری ہوئی! کہیں گملوں کے ڈھیر لگے ہیں، کہیں گاڑیاں کھڑی ہیں، بیگمات پسند کے پودے خرید رہی ہیں۔ ایک وسیع کاروبار ہے۔۔۔۔ پتوکی، ساہیوال اور اوکاڑہ سے اسلام آباد تک پھیلا ہوا۔ پرانے اسلام آباد پر چوریوں، ڈاکوں، پانی کی قلت اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں نے پنجے گاڑے تو جو استطاعت رکھتے تھے، ایکسپریس وے کی آبادیوں کی طرف ہجرت کر گئے، جہاں بحریہ اور عسکری رہائشی کالونیوں میں معیارِ زندگی پرانے اسلام آباد کی نسبت بہتر ہے۔ ساتھ ہی وہاں بھی نرسریاں نظر آنا شروع ہو گئیں؛ چنانچہ جیسے ہی اب ایئرپورٹ چوک سے بحریہ اور ڈیفنس کی طرف بڑھتے ہیں تو دائیں بائیں نرسریوں کی قطاریں شروع ہو جاتی ہیں۔
پھول، پودے، درخت انسانی زندگی کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ مجید امجد نے کہا تھا ؎
افق افق پہ زمانوں کی دھند سے ابھرے
طیور نغمے ندی تتلیاں گلاب کے پھول
اِس حقیر کا شعر ہے ؎
پرندے، پھول، پانی گر خوشی سے اذان دے دیں
تو ہم اس باغ میں کچھ دن ٹھہرنا چاہتے ہیں
بابر نے تزکِ بابری میں شکوہ کیا ہے کہ اہلِ ہند کو پھولوں اور پودوں کا شوق نہیں۔ آگرہ میں پہلی’’ہائوسنگ کالونی‘‘جو اس نے بسائی اس کا نام کابل رکھا، پھر باغات لگانے کا سلسلہ شروع کیا جو شاہجہان کے عہد تک جاری رہا! ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستانیوں کو یہ شوق مسلمان بادشاہوں سے ورثہ میں ملا ہے۔ خواتین اس معاملے میں مردوں سے آگے ہیں۔ گائوں ہو یا قصبہ یا شہر، کوشش کرتی ہیں صحنوں اور لان میں سبزہ و گل ضرور نظر آئیں۔
یہ تو عوام کا ذکر تھا مگر خواص بھی پیچھے نہیں۔ بلند مرتبہ خواص کا ایک گروہ سینیٹ میں تشریف فرما ہے۔ ان حضرات کو بھی نرسریوں کا بہت شوق ہے۔ یہ خواص عوام سے مختلف ہیں۔ ان کے شوق اور مشغلے بھی عوام سے الگ ہیں۔ اسی حساب سے ان کی نرسریاں بھی مختلف واقع ہوئی ہیں۔ ان کی دلچسپی ان نرسریوں میں نہیں جہاں عوام پودے اور پھول خریدنے جاتے ہیں۔ یہ بلند مرتبہ خواص، سیاست کی نرسریوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس طبقے کے کچھ حضرات نے سکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو مویشی خانوں اور غلے کے گوداموں میں بدل ڈالا۔ یہ حضرات جو سینیٹ میں ہیں، اپنے طبقے کی روایات کی پاسبانی کرتے ہوئے یونیورسٹیوں، کالجوں کو سیاست کی نرسریاں سمجھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ یہاں سے سکالر، سائنس دان، پروفیسر، ڈاکٹر، ٹیکنالوجی کے ماہرین نکلیں یا نہ نکلیں، سیاست دان ضرور نکلیں۔
گزشتہ ہفتے سینیٹ کے معزز ارکان نے فرمایا کہ ’’طلبہ تنظیموں کی بحالی، مستقبل کی سیاست کی نرسریوں کی ضرورت ہے‘‘۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ ’’طلبہ تنظیموں کا سیاست میں بہت اہم کردار ہے‘‘۔
الحمد للّٰہ! تعلیم کے عالمی میدان میں پاکستان دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہے۔ ٹاپ کی پانچ سو یونیورسٹیوں میں شاید ہی کوئی پاکستانی یونیورسٹی شامل ہو۔ ایک زمانہ تھا کہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ بلکہ مشرقِ بعید کے طلبہ بھی پاکستانی یونیورسٹیوں میں آ کر پڑھتے تھے۔ اب ان ملکوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ تعلیمی نہیں سیاسی نرسریاں ہیں۔ سینیٹ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجیے، تعلیم کے میدان میں جو تنزل کارفرما ہے، اُسے سینیٹ کے خواص نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ غم ہے تو صرف یہ کہ طلبہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں تاکہ وہاں سے افرادی قوت آتی رہے اور سیاسی جماعتوں میں داخل ہوکر بلاولوں اور حمزہ شہبازوں کے سامنے دست بستہ کھڑی ہوتی رہے! طلبہ یونینوں کی بحالی کے غم میں دُبلے ہونے والے اِن حضرات میں یہ دم خم تو ہے نہیں کہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کا مطالبہ کریں۔ ہاں تعلیمی اداروں کو بد سے بدتر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ فلاں فلاں سیاست دان طلبہ یونینوں کی دین ہیں۔ کون فلاں فلاں؟ معاف کیجیے، ان میں کچھ تو پراپرٹی ڈیلر ہیں، کچھ ہر ہفتے پارٹیاں بدلتے ہیں۔ کچھ پاکستان کے کم اور امریکہ کے زیادہ وفادار ہیں۔ دوسرے ملکوں میں فخر سے یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں یونیورسٹی نے فلاں سائنس دان، فلاں نوبل انعام یافتہ مصنف اور فلاں پروفیسر پیدا کیا۔ فلاں لائف سیونگ دوائی دریافت کرنے والا فلاں یونیورسٹی کا سپوت تھا۔ فلاں سائنسی عجوبہ ایجاد کرنے والا فلاں یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا۔ یہاں شہنائیاں اس بات پر بجائی جا رہی ہیں کہ فلاں فلاں اوسط درجے کے سیاست دان طلبہ تنظیموں کی پیداوار ہیں۔ اِنّا للّٰہ واِنّا اِلیہ راجعون!
ڈکٹیٹر اگر این آر او کا تحفہ پلیٹ میں رکھ کر دے تو وہ تو قبول کر لینا چاہیے مگر ڈکٹیٹر اگر طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائے تو وہ آمریت کی وراثت ہو جاتی ہے۔
اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کی سیاست ختم کب ہوئی؟ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ کراچی یونیورسٹی پرکس سیاسی جماعت کا قبضہ ہے، پنجاب یونیورسٹی کو کس سیاسی جماعت نے یرغمال بنایا ہوا ہے اور دارالحکومت کی یونیورسٹیوں میں کیا ہو رہا ہے؟ نئے آنے والے طلبہ پر کون کس طرح جھپٹتا ہے؟ ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے ٹیلی ویژن پر آ کر قوم پر باقاعدہ احسان جتایا کہ ’’ہوسٹل اسی فیصد تو خالی کر دیا گیا تھا‘‘۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ ایک یونیورسٹی میں تقابلِ ادیان کا استاد چاہیے تھا مگر اس شعبے کے لیے اینتھروپالوجی کی ڈگری رکھنے والے شخص کو رکھا گیا اس لیے کہ وہ ’’اپنا‘‘ تھا! گویا میرٹ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا ہو۔ اسی بنیاد پر بھرتیاں کر کر کے پی آئی اے جیسے قومی اداروں کو نوچا گیا۔ تعلیمی اداروں میں بھی یہی ہوتا رہا اور اب تک ہو رہا ہے۔
کیا کوئی شخص ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے انکار کر سکتا ہے کہ تعلیمی اداروں کی طلبہ تنظیمیں، سیاسی جماعتوں کے دم چھلے ہیں؟ پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ تک، جماعتِ اسلامی سے جے یو آئی تک، اے این پی سے ایم کیو ایم تک سب کی پراکسی جنگیں یونیورسٹیوں کے میدانوں میں لڑی جا رہی ہیں۔ قائدِ اعظم نے تو کہا تھا:
"Let me give you this word of warning: you will be making the greatest mistake if you allow yourself to be exploited by one political party or another.''
’’میں تمہیں تنبیہ کرتا ہوں کہ اگر تم کسی ایک یا دوسری سیاسی جماعت کے استحصال کا شکار ہوئے تو سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھوگے‘‘۔
پشاور یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا:
Do not be exploited and do not be misled.
’’خبردار استحصال کا شکار نہ ہونا، نہ ہی تمہیں کوئی غلط راستے پر لگائے‘‘۔
پھر کہا:
Your main occupation should be, in fairness to yourself, in fairness to your parents, in fairness to the state, to devote your attention to your studies. If you waste away your energies now, you will always regret.
’’اگر تم اپنے آپ سے، اپنے والدین سے اور ملک سے انصاف کرنا چاہتے ہو تو تمہارا اصل کام یہ ہونا چاہیے کہ پوری توجہ تعلیم پر دو۔ اس وقت اگر تم نے اپنی توانائیوں کو ضائع کر دیا تو ہمیشہ پچھتاتے رہو گے‘‘۔
کیا ایوانِ بالا میں تشریف فرما معزز نمائندوں کو معلوم ہے کہ ان کے صوبوں میں خواندگی کی شرح کیا ہے؟ آبادی میں اضافے کا کیا ریٹ ہے؟ کتنے فیصد بیروزگار ہیں؟ ہر سال کتنے افراد سائنس، ٹیکنالوجی اور میڈیسن میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں؟ کن تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی ہے؟ پچھلے تین سال یا پانچ سال کے دوران کتنے کارخانے لگائے گئے؟ کتنی زراعت کو مشینی
(Mechanised)
کیا گیا؟ چلیے، یہ تو دور کی باتیں ہیں، کبھی اسی پر بحث کر لیجیے کہ پشاور اسلام آباد، لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں ہر روز کتنی گاڑیاں چوری ہوتی ہیں؟ کتنے ڈاکے پڑتے ہیں؟ دن دہاڑے سڑکوں پر کتنے لوگ لوٹے جا رہے ہیں؟ یہ سب مسائل حل ہو جائیں تو پھر طلبہ کو سیاست دان بنانے کا عظیم الشان فرض بھی سرانجام دے دیجیے گا! ایک صاحب ہو گزرے ہیں، سینیٹ میں بیٹھے ہوئے دانش وروں سے ذرا سے سینیٔر، تھوڑے سے زیادہ عقل مند! نام ان کا سعدی تھا، شیراز سے تعلق رکھتے تھے۔ فرماتے ہیں:
تو کارِ زمین را نکو ساختی؟
کہ با آسمان نیز پرداختی؟
کیا تم نے زمین کے کام مکمل کر لیے ہیں کہ آسمان کو سنوارنے چل نکلے ہو؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“