بٹرروٹ امریکی ریاست مونٹانا کی ایک وادی ہے۔ چھوٹی آبادی والا پرفضا مقام۔ یہاں کے دو لوگوں کی کہانیاں
پہلی کہانی۔
“میں نے بچپین ایک ڈیری فارم میں گائے اور بکریوں کے ساتھ گزارا تھا۔ اکاوؐنٹنگ پڑھنے شہر میں کالج چلا گیا۔ پڑھنے کے بعد ملازمت مل گئی۔ شہر مجھے بالکل پسند نہیں آیا۔ سرد مزاج لوگ، بے ہنگم ٹریفک۔ چند سال بعد میں نے شہر چھوڑنے کی ٹھانی۔ ملازمت کو خیرباد کیا اور کسی چھوٹے پرفضا مقام پر رہنے کا فیصلہ گیا۔ شروع میں ایک دکان میں نوکری ملی۔ شہر میں آمدنی سے نصف بھی نہ تھی، لیکن مجھے پرواہ نہ تھی۔ آہستہ آہستہ میں نے کنسٹرکشن کا کاروبار شروع کیا۔ میں بڑی زمین تو افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ پرانے گھر جو خستہ حال ہوں، ان کو مرمت کر کے بیچ دیتا۔ دو سال میں کاروبار چل نکلا اور میری تعمیراتی کمپنی اچھے پراجیکٹ کرنا شروع ہو گئی۔ بے کار پڑی زمین کو کارآمد صورت میں تبدیل کر کے بیچنے والے پراجیکٹ۔ اس وقت میں ایک جگہ پر پھنس گیا ہوں۔ ایک چالیس ایکڑ کا فارم خریدا جس کے حصے کر کے بیچنے کا ارادہ تھا۔ یہ کرنے کی منظوری کے لئے اپلائی کیا۔ اس کے پہلے دو سٹیپ تو ہو گئے۔ تیسرا سٹیپ عوامی شنوائی تھا۔ وہاں پر نہ جانے کیوں 80 افراد آ گئے اور اعتراض کرنے لگے کہ ایسا کرنے سے زراعت کو نقصان پہنچے گا۔ یہاں پر زراعت سالوں سے نیہں ہو رہی اور ایسا کرنا منافع بخش بھی نہیں۔ لیکن عوامی رائے اکانومکس کو کہاں دیکھتی ہے۔ مجھے منظوری نہیں ملی۔ میری غلطی ہے کہ میں نے آس پاس رہنے والوں سے پہلے رابطہ نہیں کیا کیونکہ میں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ ہو گا۔ بے کار پڑی زمین کو کارآمد بنانے کی اس لڑائی کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑ رہا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پر آبادی اور گھر تیزی سے بزرھ رہے ہیں اور مجھے الزام دیتے ہیں۔ میں تو ایک پراڈکٹ بیچتا ہوں۔ اس کی ڈیمانڈ میں نے تو نہیں پیدا کی۔ میری کمپنی میں تیس ملازمین کام کرتے ہیں۔ میں ان کو دوسروں سے بہتر تنخواہ اور مراعات دیتا ہوں، اس لئے کم ہی کوئی مجھے چھوڑ کر جاتا ہے۔ اگر میرا بزنس بند ہو گیا تو یہ سب بھی بیروزگار ہو جائیں گے اور میں نہیں تو کوئی اور یہاں پر کبھی بلڈنگ بنا دے گا۔ میں اس وادی میں تمام عمر رہنا چاہتا ہوں، اسی کمیونیٹی کا حصہ ہوں۔ اس کو سپورٹ کرتا ہوں۔ اگر ان لوگوں کو اس زمین اور زراعت سے اتنا پیار تھا تو انہوں نے اس کو خود کیوں نہ خرید لیا؟”
دوسری کہانی۔
“میں اسی علاقے میں پیدا ہوا، سیب کے باغ میں پلا بڑھا۔ سولہ سال محکمہ جنگلات میں کام کیا۔ پھر موقع ہاتھ آیا تو ہم نے ایک فارم ہاوٗس خرید لیا۔ میں اب ٹورسٹ گائیڈ ہوں۔ میرا یہ گھر وہ جگہ ہے جہاں پر ہم باقی تمام عمر گزاریں گے۔ یہاں پر بطخیں، الو، کبوتر آتے رہتے ہیں۔ یہ جگہ ہم میاں بیوی اور ہمارے دو گھوڑوں کے لئے کافی ہے۔ کھلی فضا کا نظارہ میرے لئے اہم ہے۔ میں کئی بار سوچتا ہوں کہ میرے لئے اچھی موت کیا ہو گی؟ میں چاہتا ہوں کہ میری بیوی پہلے مرے کیونکہ میرے پاس اتنے اثاثے نہیں کہ وہ خود سے اکیلی رہ سکے۔ اس کی موت کے بعد پھر میں یہ زمین اپنے بیٹے کو دے دوں گا۔ اب میں مچھلیاں پکڑنے جاتا ہوں۔ جب میں اس قابل نہ رہا تو کسی روز اپنی ہمت کے مطابق پہاڑ پر چڑھ کر بہت سی مورفین کھا لوں گا اور اس وادی کے خوبصورت نظارے کو آخری لمحات میں اپنے سامنے دیکھتا ہوا موت کی آغوش میں چلا جاوٗں گا۔
میرے گھر کے قریب خالی زمین ایک ڈویلپر نے خرید لی تھی۔ وہ یہاں پر تعمیرات کرنا چاہتا تھا۔ یہ نت نئی کنسٹرکشن اس وادی کا حسن بگاڑ رہی ہے۔ منافع کی تلاش میں آئے ان نوواردوں کو نہ روکا گیا تو پھر یہ سب خراب ہو جائے گا۔ جب مجھے خبر ملی تو میں نے آس پاس رہنے والے لوگوں سے بات کرنا شروع کی۔ ہم سب مل کر پبلک ہیرنگ پر گئے اور اس پراجیکٹ کو روکنے کی استدعا کی۔ سٹی کونسل والے ہم پرانے رہنے والوں کا احترام کرتے ہیں اور ہمارے مل کر اعتراض پکرنے ر یہ پراجیکٹ بند کر دیا گیا۔ یہ باہر سے آنے والے ہماری روایات اور جذبات سے واقف نہیں۔ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یہ اس وادی کا حسن کیوں چھیننا چاہتے ہیں؟”
سائنس آسان ہے مگر معاشرت، سیاست یا معیشت نہیں۔ اس کی وجہ نقطہ نظر ہے۔ اگر انسان کو درمیان سے نکال لیا جائے تو بھی قدرتی مظاہر نہیں بدلتے۔ ہوا ویسے ہی چلتی ہے، دن رات اسی طرح ہوتی ہیں اور سیب اسی طریقے سے گرتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک ہی چیز پر ہر ایک کے متفق ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ جن معاملات میں نقطہ نظر کی بات آ جائے تو پھر بات مختلف ہو جاتی ہے کیونکہ نقطہ نظر اہم ہے۔