مجھے حیرت اس بات کی ہوتی ہے ایک پڑھا لکھا انسان جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال جانتا ہے وہ بھی سائنس کے حوالے سے ویسی باتیں کرتا ہے جیسے کہ آپ کسی نائی کی دکان پر جائیں اور وہاں بال کٹاتے ہوئے نائی آپکو سائنس کی اُلٹی پلٹی تھیوریاں سمجھائے گا۔ دنیا کے جدید ممالک نئی سے نئی تحقیق ، نئی سے نئی ایجادات کر رہے ہیں۔ یہ ہر سال سائنس، تعلیم اور تحقیق کی مد میں اتنا پیسہ جھونکتے ہیں جتنا ہمارا کل بجٹ بھی نہیں۔ وہ لوگ جو گھر بیٹھے سازشی تھیوریوں کو اور انکے منصوبوں کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں، انکے علم کا ماخذ کیا ہے؟ اور سارا دن یہ کیا علمی گفتگو کرتے ہیں؟ پلاٹوں سے لیکر ملکی حالات تک اور کھانے سے لیکر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے تک، اسکے علاوہ ہمارے ہاں سارا دن اور کیا مثبت گفتگو ہوتی ہے؟ پورا ملک اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ بیرونی سازشوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا؟
صاحبو!! دنیا میں کہیں بھی جائیں بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پاکستان کا دارلخلافہ کونسا ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا ہر وقت ہمارے خلاف سازش میں لگی رہتی ہے۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والا حساب چل رہا یے۔ ہمیں اپنے گریبان میں کب جھانکنا ہے؟ پچھلے پچھتر سال میں ہم نے انسانوں پر کتنا پیسہ خرچ کیا کہ اُنہیں جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں اور اُنہیں بہتر تعلیم ، صحت، ماحول اور ذہنی سکون کے مواقع فراہم کر سکیں کہ وہ اس دنیا میں جس میں وہ رہتے ہیں کے لیے کچھ کر سکیں۔ جنت میں کیا وہ جائیں گے جو دنیا کو تو جنت بنا نہ سکے؟
زیرِ نظر تصویر میں بائیں طرف پاکستان کے وہ بد نصیب بچے ہیں جنکا قصور محض یہ ہے کہ وہ اس بے حس معاشرے میں پیدا۔ہوئے جہاں انکے ہاتھ میں کتاب کی بجائے کوڑا ہے۔
جبکہ دوسری تصویر جرمنی کے سکول کے بچوں کی ہے جنہیں محض تعلیم ہی نہیں زندگی گزارنے کے لیے دیگر سِکلز سکھانے اور فطرت اور ماحول کو سمجھنے کے لیے جنگل میں آؤٹ ڈور ایکٹویٹی کرائی جا رہی ہے۔
اس پوسٹ کا مقصد ہرگز ہرگز آپکو احساسِ کمتری کا شکار کرنا نہیں بلکہ محض یہ بتانا ہے کہ قومیں انسانوں پر پیسہ خرچ کر کے بنتی ہیں، توپوں، گولہ بارود، کھوکھلے نعروں یا دل کو بہلانے والی سازشی تھیوریوں سے نہیں۔
خوش رہیں مگر سوچتے رہیں۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...