::: " نکڑ ناٹک کی کہانی " :::
نکٹر ناٹک {Street theatre} ایک قدیم ڈرامائی اور فنکارانہ عوامی اظہار ہے جوصدیوں گذر جانے کے بعد آج بھی جاری اور ساری ہے۔ قدیم معاشروں میں یہ ناٹک مذھب کی تبلیغ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ ہر تہذیب اور معاشرت میں " نکٹر ناٹک" کا ا س سے ملتے جلتے ناٹکوں کا سراغ ملتا ہے۔ نکٹر ناٹک کو سڑک پر مداری کے کھیلوں، جادو اور شعبدہ دکھانے والوں کے ہجوم میں ڈرامائی رنگ میں نظر آتے ہیں۔ عموما یہ ناٹک عوامی مقامات جیسے شاپنگ سنٹرز، مال، بارکوں، ریلوے اسٹیشن، کھیل کے میدان، کھیل کے میدان، گلی کونوں، ، بچوں کی سالگرہ، تہواروں اور پریڈز اور دیگر تقریابات برپا ہوتے ہیں۔ یہ مفت کی تفریح ہوتی ہے مگر ناظریں یا تماشبیں رضاکارانہ طور پر روپئے پیسے دیتے ہیں۔ کبھی کھبار مجمع میں ٹوپی کھمادی جاتی ہے اس میں پیسےڈالتے ہیں۔ عموما مخیر لوگوں نے کوئی عطیہ ، چندہ یا خیرات نہیں لی جاتی کیوں کہ اس کو نکٹر ناٹک سے متعلق لوگ نظریاتی، سیاسی ہوتے ہیں اور وہ ان ڈارموں کو اپنی "تحریک" یا" کاز" کا حصہ سمجھتے ہیں۔ " نکٹر ناٹک " میں فی البعدیہ مکالمات ادا کئے جاتے ہیں۔ اس کا تحریری ڈرامائی مسودہ نہیں ہوتا۔ اور اسے فطری انداز میں پیرائے اظہار میں لایا جاتا ہے۔ " نکڑناٹک" میں ڈھولک، ہارمونیم، کٹار ، گنگھروں اور بانسری جیسے معروف سازوں سے ڈرامائی اظہار کو پر اثر بنایا جاتا ہے۔ ابلاغی سطح پر " نکڑ ناٹک" عوامی رابطے کا فن اور ڈرامائی اظہار ہے جس کی جڑیں ہندوستان کی ڈرامائی روایت میں بہت قدیم ہے۔ اس ڈرامائی روایت کو ڈرامے کا "دل" کہا جاتا ہے۔ دور جدید میں نکڑ ناٹک کی ڈرامائی ہیت اور اسلوب کو معاشرتی ، سیاسی اور ثقافتی پروپگنڈہ اور بعض دفعہ مخصوض آئیڈیالوجی اورعوام کے مسائل سے براہ راست مکالمہ کرتا ہے اور عوام تک اپنے پیغام کی ترسیل کرتا ہے۔ جو بہر حا ل اشرافیہ کے تھیٹر کا "رد" ہے۔ اور ڈرامے تماشبیں یا ناظریں نکٹر ناٹک میں کردار ادا کرنے والے اداکاروں کو اپنی ہی ذات کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ جنکو وہ چند فٹ کے دوری سے دیکھتے ہیں۔ اور اپنے مزاج میں فکری بیداری کو ابھرتا محسوس کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ڈرامون کو ہتش کار اور اداکار غیر پیشہ ورانہ ہوتے ہیں۔ دہیات میں کتھ پتلیوں کے کھیل بھی ایک طرح سے نکڑ ناٹک کا ہی حصہ محسوس ہوتا ہے۔
" نکٹر ناٹک" میں تمام لاجسٹکس مین سادہ پوشاک ملبوس اداکار بلند آواز میں مکالمے ادا کرتے ہیں۔ جس میں جلالی جمالیات بھری ہوتی ہے۔ جس میں رقص بھی ہوتے ہیں، اونچی آواز کی موسیقی اور جارہانہ جسمانی حرکات اور چہرے پر ایک مخصوص تناو کی کیفیت کے ساتھ گلی کے نکٹر پر جمع لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کبھی کبھار " کرتبون یا ایروبیٹک" کا بھی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ اور اسے لوگ پسند کرتے ہیں اور تالیوں اور سیٹیاں بجا کر اداکاروں اور پیخامات کی داد دیتے ہیں۔ اور یہی فضا، اسلوب و ابلاغ کا ہنر نکٹر ناٹک کا " زیور" ہے۔
"نکٹر ناٹک" بینادی طور پر معاشرتی اور سیاسی احتجاج اور مزاحمت کا تھیٹر ہے۔ جس میں عورتوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم، عدم مساوات، بچوں کی مزدوری، ایڈ کا مرض، عصمت فروشی، سیاست دانوں کی لوٹ کھسوٹ، اور نا اہلی، نوکر شاہی کی تانہ شاہی کو کسی " کہانی لائن" کے بغیر اطہار کے پیرائے میں لایا جاتا ہے۔ لہذا ان ڈراموں کو سیاسی "پیمانہ" یا{ tool} کہا جاتا ہے۔اور اداکار اپنے مکالموں کو ناطرین کے مزاج کو دیکھتے ہوئے تبدیل بھی کردیتا ہے۔ جس میں بےساختگی ہوتی ہے۔ اور متاثر بھی کرتی ہے۔ اگر کوئی اداکار مکالمے ادا کرتے ہوئی بھول جائے تو اس کے ساتھی اس کو " لقمہ" دے کر کھیل کو روران رکھتے ہیں۔ ان ڈراموں میں نقلی پستول، چاقو، چھری اور ڈنڈے وغیرہ استعمال کرکے کو " آلایتاتی اظہار" کے طور پر استمال کیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں نکڑ ناٹک معاشرتی طور پر معاشرتی طور پر اس کی جڑیں بہت گہری ہیں کیونکہ یہ اںھی مسائل سے متعلق ہیں جو عوام سوچتے ہیں۔ جو لوگوں کے خیال میں ایک طرح کی" معاشرتی اصلاح" کی تحریک ہے۔ راقم السطور نے حال ہی میں سان فرانسسکو، امریکہ میں " بارٹ ریلوے اسٹیشن"کو ٹیپ رقص" کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا۔ جو جوتوں کی مخصوص ایڑیوں کی مدد سے آواز پیدا کرکے امریکہ کے معاشرتی ڈھانچے سے اپنی بیزاری کا اظہار مکالموں کی صورت میں کرتا ہے۔
** ہندوستان میں " نکڑ ناٹک " کے حوالے سے دو منتخب خبریں :
=========================================
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈرامہ کلب کے زیرِ اہتمام آزادی کی700ویں سالگرہ کے موقع پر منائے جارہے پروگراموں کے تحت بابِ سید، پرانی چنگی اور ویمنس کالج پر نکڑ ناٹک’’آزادی70‘‘ اسٹیج کیاگیا جس میں ڈرامہ کلب کے طلبأ نے لوگوں کوآزادی کا صحیح مفہوم بتایا۔ڈرامہ کلب کے طلبأ نے تقسیم کے وقت ہوئے قتلِ عام پرسعادت حسن منٹو کی تصنیف کردہ کہانی ٹوبہ ٹیک سنگھ کو ڈرامہ کلب کے شاکر علی نے ویمنس کالج میں پیش کیا۔ اس میں تقسیم کے بعد لاہور کے ایک پاگل خانہ میں ایک پاگل کی اپنی مادرِ وطن سے محبت دکھائی گئی ہے۔ ان ناٹکوں میں رشی کمار، نتن، شیراز،عاقب،ششانک، فرقان وغیرہ شامل ہوئے۔ نکڑ ناٹک ڈرامہ کلب کے آشیش کمار نے لکھا۔
جموں//جلیانوالہ باغ میں ہوئے قتل عام اور ملک کی جنگ آزادی میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے جانثاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے لل دید وومن ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے ڈگیانہ پارک میں نکڑ ناٹک پیش کیا گیا، رام پال کے تحریر کردہ اس ناٹک کی ہدایت کاری نوین پال نے کی تھی۔ یہ کہانی ایک ایسے شخص کے گر د گھومتی ہے جو بھگت سنگھ، راج گورو اور چندر شیکھر آزاد کا متوالہ ہے میرا رنگ دے بسنتی چولا گاکر آزادی کے ان دیوانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتا ہے ۔ا س ناٹک کے ذریعہ عام لوگوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ ملک کو کن مشکلات کے ساتھ اور کتنی قربانیاں دے کر آزاد کروایا گیا تھا اور اب عام شہریوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان قربانیوں کی قدر کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کریں، سماجی تانے بانے کو مضبوط بنائیں تا کہ یہ ملک ان منازل کو حاصل کر سکے جن کا خواب دیکھ کر جنگ آزادی کے مجاہدین نے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ ناٹک میں رام پال، نوین پال، سوہنو، برکھا، سنتوش وغیرہ نے اہم کردار ادا کئے
نوجوان فلسطینیوں کا ایک ’آزادی جتھا‘ مقبوضہ علاقوں میں جاری جدوجہد کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے آج کل بھارت میں ہے اور ملک کے مخلتف شہروں میں اپنے جوہر دکھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس جتھے میں جنین کے ’فریڈم تھیئٹر گروپ‘ کے نوجوان فنکار شامل ہیں جو بھارت کے مشہور نکڑ ناٹک گروپ ’جن ناٹیہ منچ‘ کے تعاون سے دہلی، ممبئی، لکھنؤ اور کئی دوسرے بڑے شہروں میں نکڑ ناٹک پیش کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*** لاس ویگاس امریکہ میں میرا پیش کئے جانے والے" نکڑ ناٹک" کا احوال ***
====================================================
*******لاس ویگاس، ناواڈا، امریکہ میں "نکڑ ناٹک"******
=================================
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد سھیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تین(33) دھائیون بعد میرے سابق ھم جماعت روبرٹو ماریو کا فون آیا۔ موصوف پیرو، جنوبی امریکہ کے رھنے والے ہیں۔ گو یونیورسٹی میں میرا اور روبرٹو ماریو کا مشترکہ مضمون ایک نہیں تھا۔ مگر نصاب میں شامل ایک اختیاری مضمون "اسپیچ اینڈ ڈراما"، کی کلاس میں وہ میرے ھم جماعت تھے۔ موصوف نے مجھ سے پوچھا کہ "تم اب بھی ڈرامے مین دلچسپی لیتے ھو"۔ تو میں نے کہا، "دلچسپی تو ھے مگر میں اب ڈرانے اسٹیج نہیں کرتا۔ جس طرح ھم لوگ زمانہ طالب علمی مین کیا کرتے تھے۔" ماریو نے بتایا کہ وہ لیما، پیرو میں ایک چھوٹی سی تھیٹیریکل کمپنی چلاتا ھے اور اس کے دو(2) بیٹے اور ایک بیٹی میری مددبھی کرتے ہیں۔ساتھ ھی وہ تینوں اداکاری بھی کرتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ اس مہینے امریکہ آرہا ھوں۔ لاس ویگاس میں ڈرامہ کرنا چاھتا ھوں مگر یہ بہت مہنگا پڑ رہا ھے اور اب یہ ممکن نہیں ھے۔ میں نے کہا دل چھوٹا نہ کرو۔ میں لاس ویگاس میں "اسٹریٹ پلے" (نکٹر ناٹک) کا انتظام کردیتا ھوں۔ بہرحال لاس ویگاس کی مقامی انتظامیہ نے اس شرط پر "نکڑ ناٹک" کرنے کی اجازت دے دی کہ اس مین کوئی مخرب اخلاق، فحش کلامی، تشدد اور سیاسی نوعیت کی کوئی بات نہیں ھوگی۔ تو ھم نے امریکہ میں منشیات کے مسئلے کا انتخاب کرکے ناٹک برپا کیا۔
اس نکڑ ناٹک میں کوئی لکھا ھوا اسکرپٹ نہیں تھا۔ میں نے ایک صفحے پر ڈرامے کا " نفس مضمون" لکھ کر دے دیا اور رابوٹو ماریو کے تینون بچوں نے فٹ پاتھ پر کھڑے ناظریں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرکے ایک سما باندہ دیا۔ پینٹ کی خالی پلاسٹک کی بالٹی کو الٹا کرکے لکڑیوں کی چھڑیوں سے کیا زبردست موسیقی، آہنگ پیدا کیا جس طرح رزمیہ ڈراموں کی موسیقی ھوا کرتی ھے۔ یہ کمال کا "نکڑ ناٹک" فی البدیہ اداکاری، مکالموں اور موسیقی کے سبب اتنا کامیاب
رہا جس کی میں امید بھی نہیں کررہا تھا۔ اس ڈرامے کو دیکھنے کے لئے فٹ پات کے سنگم پر قریب دو سو (200) کے فریب راہگیر جمع ھوگئے تھے، جس میں زیادہ تر سیاح شامل تھے اور خوب داد سمیٹی۔ ھم نے کسی قسم کی رقم یا معاوضے کا مطالبہ نہیں کیا۔ لیکن لوگوں نے ڈالر پھیکنا شروع کردیے ۔ چار سو پچپن (455) ڈالر جمع ھوئے۔ جو ھم نے مقامی "انسداد منشیات" کے ادارے کو عطیہ کردیئے ۔
یہ ناٹک ایک گھنٹے دس منٹ جاری رہا۔ یہ کھیل لاس ویگاس کے مرکزی "اسٹرپ" ۔۔۔ "نیویارک، نیویارک ‘ اور "سیزر پیلیس"۔۔۔ کے درمیان پر ہجوم علاقے میں کھیلا گیا۔ جہاں روشنیوں کا رنگ و نور برستا ھے۔ یہ ناٹک انگریزی میں تھا جس میں ہسپانوی زبان کی پیوند کاری بھی تھی جس سے ڈرامے کا لطف دوبالا ھو گیا اور سڑک پر چلنے والوں سےخوب داد سمیٹی۔{ حوالہ:" رنگ رس"،کولکتہ ، مغربی بنگال، بھارت ، دوسرا شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۵، صفحہ ۱۰۰}
—————
**** ہندوستان کے جدید " نکڑ ناٹک" کے ایک بیناد گذار" بادل سرکار ****
بادل سرکار، 15،مئی 19255 کو مغربی بنگال کے شہر کولکتہ میں پیدا ہوئے۔ وہ بنگالی زبان کے ڈراما نگار اور پیش کار ہیں۔ وہ بنگال انجیرنگ کالج (سول) سے فارغ التحصیل ہیں۔ مگر انھوں نے انجیرنگ کو کبھی اپنا پیشہ نہیں بنایا۔ انہوں نے 1970ء کی دہائی میں بنگال میں "نکٹر ناٹک" (اسٹریٹ تھیٹر) کی بحالی اور فروغ مین بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کے ڈرامے بنیادی طور پر حکومت شکن ( اینٹی اسٹبلشمنٹ) ھوتے تھے ۔ جب بھارتی حکومت نے نکسلیوں کے خلاف تشددانہ استبدادی خونی کھیل کھیلا۔ تو بادل سرکار نے اپنے نکڑ ناٹک کی وساطت سے اس ریاستی قہر کے خلاف نعرہ بغاوت کرتے ھوئے حکومت سے ٹکر لی اور بنگالی تھیٹر کی روایت میں نئے عوامی احتجاجی، مزاحمتی اور انقلابی رویوں کو روشناس کروایا۔ اس کو " تیسرا تھیٹر" یا "بھوما" تھیٹر بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں شہری معاشرت کی بازگست ہوتی تھی۔ بادل سرکار کو 1968ء میں سنگیت ناٹک فیلو شپ اور 1972 میں ‘پدم شری‘ کے کے ایوارڈ سے نوازہ گیا۔ وہ پچاس (50) سے زائدڈراموں کے مصنف اور پیش کار ہیں۔ ان کے چند مشہور ڈراموں میں۔ ‘باسی خبر‘، ‘جلوس‘(اس کا اردوترجمہ ھوچکا ہے)، ‘ساری رات،‘ اور ‘کوئی(شاعر) کہانی ‘شامل ہیں۔ 13 مئی 2011ء میں کولکتہ میں کولن سرطان کے عارضے کے سبب 85 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔{ میرا لکھا ہوا بادل سرکار ہر یہ مضمون وایکی پیڈیا پر موجود ہے} :::
https://www.facebook.com/groups/1728026667411068?view=permalink&id=1869805133233220