دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی دھماکے کہاں ہوئے ہیں؟ امریکہ کی مین لینڈ پر۔ جہاں پر 928 تجربات کئے گئے تھے۔ اس کے بعد سوویت یونین، برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان اور شمالی کوریا یہ ٹیسٹ کر چکے ہیں۔ ہوا میں، زمین پر، پانی کے نچے اور خلا میں بھی۔ کیا یہ بے ضرر تھے؟ بالکل بھی نہیں۔ ان سے ہوا کیا؟ کچھ نظر ان پر۔
سب سے پہلا ٹیسٹ 1945 میں کیا گیا ٹرینیٹی دھماکہ تھا جو نیو میکسیکو کے مقام پر ہوا۔ یہ پلوٹونیم بم تھا۔ اس دھماکے نے سو فٹ کا ٹاور اور اس کا سپورٹ سٹرکچر بخارات میں بدل دیا تھا اور سبز رنگ کی ریت “ٹرینیٹائیٹ” بنا دی تھی۔ اس سبز ریت کے ٹکڑی جیولری کے طور پر بیچے جاتے رہے۔ کیونکہ ریڈیو ایکٹیویٹی کے خطرات کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔ آج بھی اس ٹیسٹ سائٹ پر ریڈیو ایکٹیویٹی کی سطح عام لیول سے پچیس گنا زیادہ ہے۔ اس سے اگلے ٹیسٹ نیویڈا کے صحرا میں ہوئے۔ 1951 سے 1962 تک سو تجربات زمین کے اوپر کئے گئے۔ یہ ٹیسٹ دیکھنے کے لئے لوگ آیا کرتے تھے۔ لاس ویگاس میں زلزلہ محسوس کیا جاتا اور مشروم کلاوٗڈ دیکھا جا سکتا تھا۔ نیوکلیائی حملے کی وجہ سے عمارات، لوگوں اور انفراسٹرکچر کے ساتھ کیا ہو گا؟ اس کو جاننے کے لئے ٹیسٹوں کے مقام پر عمارات بنائی گئیں۔ سجے ہوئے گھر، فیکٹیریاں، پُل، بجلی پیدا کرنے والے سٹیشن اور یہاں تک کے بینک کی تجوریاں۔ کئی طرح کی کنکریٹ ٹیسٹ کی گئی۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ کونسی کنکریٹ زیادہ محفوظ رہ سکتی ہے۔ امریکہ میں آج کے بلڈنگ کوڈز میں ان تجربات کے نتائج کا بھی ہاتھ ہے۔ مولسٹر سیف کمپنی نے وہ تجوری ڈیزائن کی جو نیوکلئیر حملے میں بھی محفوظ رہے گی اور ایک تجربے میں اس کا مظاہرہ کیا گیا (یہ تجوری آج بھی وہیں پر موجود ہے)۔
اس ٹیسٹ کے بعد بننے والا بادل بہت زیادہ تابکاری رکھتا ہے اور سینکڑوں کلومیٹر ہوا کے دوش پر اس کو پھیلا دیتا ہے۔ 1953 میں ایک “ہیری” نام کے ہتھیار کا ٹیسٹ ہوا۔ لیکن ایک غلطی اور موسم کی وجہ سے اس سے پھیلنے والی تابکاری سب سے زیادہ رہی۔ یوٹاہ میں دو سو کلومیٹر دور شہر کے لوگوں نے منہ میں دھاتی ذائقہ محسوس کیا۔
ان ٹیسٹوں نے کینسر کی شرح میں اضافہ کر دیا۔ اندازہ ہے کہ دس لاکھ اضافی لوگ کینسر کا شکار ہوئے۔ 2014 تک امریکی حکومت تجربات سے متاثرشدہ 28880 افراد کو ہرجانہ دے چکی ہے اور یہ ہرجانہ دو ارب ڈالر کا رہا ہے۔ یہ وہ لوگ جو ٹیسٹ رینج کی زد میں آئے۔ (بہت سے لوگ وہ جنہوں نے کیس نہیں کئے یا جیت نہیں سکے) 1963 میں ہوا میں ہونے والے تجربات امریکہ، سوویت یونین اور برطانیہ نے بند کر دیے تھے۔ فرانس نے ایسا کرنے کے معاہدے پر 1974 اور چین نے 1980 میں دستخط کر دئے۔ زیرِ زمین تجربات جاری رہے۔ سوچ یہ تھی کہ یہ ہوا کے ذریعے نہیں پھیلیں گے تو مضر نہیں ہوں گے۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ اگر یہ ٹھیک جگہ پر نہ ہوں تو زیرِ زمین ٹیسٹ زیرِ زمین پانی کے اور خوراک کے ذرائع کو متاثر کرتے ہیں۔ آپریشن پلوشئیر کے تجربات میں ان کے پرامن مقاصد کو دیکھا گیا۔ جیسا کہ دوسرے دھماکہ خیز مواد سے کام لیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک تجربے “سیڈان کریٹر” کے چھوٹے نیوکلئیر بم نے ایک کروڑ ٹن سے زیادہ مٹی کو ہٹا کر گڑھا بنا دیا لیکن تابکاری شمال مشرق کی طرف آئیوا کی ریاست تک جا پہنچی۔ ان کا پرامن استعمال خارج از امکان قرار پایا۔
سوویت یونین اس معاملے میں امریکہ سے زیادہ غیرذمہ دار رہا جہاں پر دیہی آبادی کی صحت اور حفاظت ترجیح نہیں تھی۔ سٹالن کے دور میں قازقستان میں ٹیسٹ سائٹ بنائی گئی تھی۔ یہ اٹھارہ ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی تھی جو خود تو غیرآباد تھی لیکن اس کے قریب دس لاکھ افراد کی آبادی تھی۔ 1949 سے 1989 تک یہاں پر 456 تجربات کئے گئے جن میں سے 116 زمین کے اوپر تھے۔ ان کی کل ییلڈ ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم سے چار سو گنا زیادہ تھی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہ الگ ملک بن گیا اور یہ سائٹ لاوارث پڑی رہ گئی۔ نیوکلئیر میٹیریل جو سرنگوں میں اور پہاڑوں میں رہ گیا۔ کباڑ دھاتیں اکٹھا کرنے والوں نے بے خبری میں یہ تابکار میٹیریل اٹھا لیا۔ اور پلوٹونیم کے ڈھیر جو دفن رہ گئے تھے، یہ تو عالمی سیکورٹی کے لئے خطرہ تھے۔ 2012 میں امریکی، روسی اور قازق سائنسدانوں نے ایک سترہ سالہ خفیہ آپریشن مکمل کیا جس پر پندرو کروڑ ڈالر کی لاگت آئی۔ اس میں سرنگوں کو خاص کنکریٹ سے بند کیا گیا۔ یہ کنکریٹ پلوٹونیم کے ساتھ بانڈ بنا لیتی ہے۔
تابکاری سے ہونے والے بڑے پیمانے پر نقصانات حالیہ سالوں میں منظرِ عام پر آئے ہیں۔ سوویت یونین نے تو ابتدائی دس سال تک اس بارے میں مقامی آبادی پر ہونے والے اثرات پر کوئی سٹڈی بھی شروع نہیں کی تھی۔ سوویت ٹیسٹ سائیٹ کے قریب میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پانچ سے دس لاکھ افراد کو تجربات کی وجہ سے تابکاری کی ایسی سطح کا سامنا کرنا پڑا جو خطرناک تھی۔ اس کی وجہ سے کینسر، پیدائش کے ڈیفیکٹ اور دوسری بیماریاں ہوئیں اور یہ اثرات اگلی نسلوں تک رہے۔ یہ متاثرین ہرجانوں کے دعوے بھی نہیں کر سکے۔ اس پر تفصیل سے NUPI Report دیکھی جا سکتی ہے جو ناروے کے عالمی تعلقات کے ادارے نے 2014 میں مرتب کی۔
سب سے بڑے نیوکلئیر ٹیسٹ کے لئے سوویت یونین نے ایک اور جگہ کا انتخاب کیا۔ نووا زملیا ہلال کی شکل کا ایک بحرِ آرکٹک میں جزائر کا گروپ تھا۔ یہاں پر ٹیسٹ کے تین الگ زون تھے جہاں پر تجربات ہوا کرتے تھے۔ 31 اکتوبر 1961 کو دنیا کا سب سے بڑا تجربہ زار بومبا زون سی میں ہوا۔ یہ پچاس میگاٹن کا بم تھا۔ شروع میں اس کو سو میگاٹن کا ڈئزائن کیا گیا تھا لیکن پھر خوف کی وجہ سے اس کو کم کر لیا گیا۔ اس کو گرانے والا جہاز خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا کہ وہ خود حملے سے بچ سکے۔ اس کے باوجود ٹیسٹ کرنے والوں کے خیال میں اس کا پچاس فیصد امکان تھا کہ یہ جہاز خود اس حملے کی زد میں آ جائے گا۔ اس کی وجہ سے بننے والا آگ کا گولا آتھ کلومیٹر کے سائز کا تھا۔ اس کو گرانے والا جہاز اس کے پھٹنے کے وقت تک پینتالیس کلومیٹر دور جا چکا تھا لیکن دھماکے نے اس کو ایک کلومیٹر تک نیچے پھینک دیا تھا۔ (پائلٹ نے اس کو سنبھال کر جان بچا لی تھی لیکن ائرفورس سے استعفیٰ دے دیا)۔ اس سے بننے والا گولا ایک ہزار کلومیٹر تک نظر آیا تھا اور پچپن کلومیٹر کے دائرے میں ہر عمارت بھسم ہو گئی تھی۔ سینکڑوں کلومیٹر دور لکڑی کے گھروں کو آگ لگ گئی تھی۔ چھتیں گر گئی تھیں۔ دروازے اور کھڑکیاں اکھڑ گئے تھے۔ اس کا بادل 65 کلومیٹر بلندی تک پہنچا تھا۔ ماونٹ ایورسٹ سے سات گنا زیادہ بلندی پر اور اس کی حرارت اتنی تھی کہ سو کلومیٹر دور کھڑے شخص کی جلد پر جان لیوا آبلے ڈال سکتی تھی۔ ان جزائر پر 224 مزید تجربات کئے گئے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جتنا بھی اسلحہ ہر ملک کی طرف سے استعمال کیا گیا تھا (دونوں ایٹم بم سمیت) اس سے 132 گنا زیادہ تباہی پھیلانے کی صلاحیت ان تجربات میں تھی۔ یہاں آخری ٹیسٹ 1990 میں ہوا۔ اب یہ جزائر فوج کے کنٹرول میں ہیں اور مین ٹیسٹ سائٹ تک کسی کی رسائی نہیں۔
امریکہ کے کئی ٹیسٹ جنوبی بحرالکاہل میں ہوئے جن میں زیرِ سمندر اور ہوا میں 105 ٹیسٹ کئے گئے۔ ان میں سے پہلا نیوی پر نیوکلیر حملے کا اثر دیکھنے کیلئے کیا گیا۔ بکنی آٹول پر رہنے والے 167 افراد کو دوسری جگہوں پر منتقل کیا گیا اور نوے بحری جہازوں پر کیا گیا۔ جس میں ایک ہوا میں اور ایک زیرِ سمندر۔ ان سے وہ اثرات ہوئے جو پہلے نہ دیکھے گئے تھے۔ سمندری تابکاری اس قدر زیادہ تھی کہ جب ایک مچھلی پر تابکاری کی مقدار کو دیکھا تو اگلے ٹیسٹ کو کینسل کر دیا گیا۔
ہائیڈرجن بم کا پہلا تجربہ 1952 میں ہوا جو بکنی سے تین سو کلومیٹر دور تھا۔ 1954 تک یہ اس صورت میں پہنچ چکا تھا کہ اس کو جہاز سے گرایا جا سکتا ہو اور یہ تجربہ بکنی آٹول پر کیا گیا اور اس سے ہونے والی تباہی اندازے سے اڑھائی گنا زیادہ تھی اور 15 میگاٹین کا یہ تجربہ امریکا کی طرف سے کیا جانے والا سب سے بڑا تجربہ رہا ہے۔ اس نے مرجان کو بخارات میں بدل دیا۔ اور پانچ ہزار مربع نیل تک اثرات رہے جہاں پر امریکی فوجی اور مقامی باشندے اس سے متاثر ہوئے۔ ایک جاپانی مچھلیاں پکڑنے والے کشتی کا عملہ بھی جس کا ایک ممبر تابکاری کے اثرات کی وجہ چند روز میں وفات پا گیا۔ (دوسری جنگِ عظیم کے بعد نیوکلیر ہتھاروں کی وجہ سے ہونے والی یہ کسی جاپانی کی پہلی ہلاکت تھی)۔ بکنی آٹول آج بھی بری طرح سے متاثر ہے اور یہاں پر اگنے والے پودے کھانے کے لئے محفوظ نہیں۔ 1977 میں اینی ویٹوک میں ایک جزیرے میں تابکاری مٹی کو تلف کرنے کے لئے ایک گڑھا کھودا گیا جس میں تابکار فاصل مادے کو دفن کیا گیا۔ اس میں چار ہزار امریکی فوجیوں نے اس علاقے میں دفن کر کے ایک کنکریٹ کے گنبد سے اس کو ڈھک دیا۔ اس میں تین سال لگے۔ اس طریقے سے چالیس میں سے چار جزائر کی صفائی ہوئی۔ لیکن یہ مہنگا اور عارضی حل ہے۔ اور ان کو نیچے سے کنکریٹ سے نہیں بھرا گیا تھا۔
نیوکلئیر تجربات سے ہونے والے نقصانات کا ابھی تک ہمیں ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں ہے لیکن جس طریقے سے بھی دیکھا جائے۔ دنیا کی ہر نیوکلئیر طاقت نے اپنے ہتھیاروں کو مہلک سے مہلک تر بنانے میں سب سے زیادہ نقصان اپنی آبادی، اپنے لوگوں اور اپنی اگلی نسلوں کو پہنچایا۔ متاثر ہونے والے لوگ وہ تھے جو یہ فیصلے کرنے والوں سے بہت دور تھے۔ یہ دنیا میں کئے گئے ان تجربات کی میراث ہے۔
اس پر جو رپورٹ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی تنظیم، آئی پی پی این ڈبلیو نے جاری کی تھی، اس کے مطابق اب تک ہونے والے تجربات کی وجہ سے ہونے والی کُل اموات چوپیس لاکھ ہوں گی۔ ان جگہوں پر تابکاری کو محفوظ سطح پر آتے ہوئے ابھی کئی اور دہائیاں لگیں گی۔ اب تجربات کا سلسلہ بڑی حد تک دنیا سے ختم ہو گیا ہے لیکن صفر تک نہیں پہنچا کیونجہ یہ تجربات ہمیشہ سے قومی فخر کا نشان رہے ہیں۔
کیا نیوکلئیر ہتھیاروں سے زیادہ تباہ کن بھی کچھ ہے؟ جی ہاں۔ اور اس کو بنانا بھی زیادہ مشکل نہیں۔ یہ “نمکین نیوکلئیر بم” ہیں جو کوبالٹ کی مدد سے بنائے جا سکتے ہیں۔ اس قدر خوفناک کہ سرد جنگ کے عروج پر بھی اس کا طریقہ جاننے کے باوجود دنیا کی ہر طاقت ان سے ہر کوئی دور رہی۔ اگر اس کو کسی جگہ استعمال کیا جائے تو پھر وہاں صدیوں تک زندگی واپس نہیں آ سکتی۔ ایک افسوسناک افواہ یہ ہے کہ اس کو بنانے پر بھی کہیں غور کیا جا رہا ہے