::: " ناول کیا ہے؟ ۔۔۔۔ اردو ناول اور اس کے اجزائے ترکیبی "
ناول اردو ادب کی ایک بہت خوبصورت اور دیگر اصناف سے قدرے نئی صنف ادب ہے۔یہ ایک فرضی نثری قصہ یا کہانی ھوتی ھے جس میں حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا ھے۔ اگر اس میں فرد اور سماج انسان کے جزبات تسلسل اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کیے گے ہوں۔ صنف ادب ميں اس کي تعريف بنيادي زندگي کے حقائق بيا ن کرنا ہے۔ ناول کي اگر جامع تعريف کي جائے تو وہ کچھ يوں ہو گي ”ناول ايک نثر ي قصہ ہے جس ميں پوري ايک زندگي بيا ن کي جاتي ہے۔ در اصل ناول وہ صنف ہے جس میں حقیقی زندگی کی گونا گوں جزیات کوکبھی اسرار کے قالب میں کبھی تاریخ کے قالب میں کبھی رزم کے قالب میں کبھی سیاحت یا پھر نفسیات کے قالب میں ڈھالا جاتا رہا “ناول کے عناصر ترکيبي ميں کہاني، پلاٹ، کردار ، مکالمے ، اسلوب اور موضوع و غيرہ شامل ہيں۔
ناول کی تعریف مختلف نقادوں کی روشنی میں ..
١ .کلاویوز کے مطابق …
”ناول اُس زمانے کی حقیقی زندگی اور طور طریقوں کی تصویر ہوتی ہے جس میں کہ وہ لکھا گیا ہو “
٢ .جے ۔جے ۔پرسٹلے کے مطابق ۔۔۔
”ناول بیانیہ نثر ہے جس میں خیالی کرداروں اور واقعات سے سروکار ہوتا ہے “
٣ ..اندراۓ مراۓ کا خیال ہے ..
”حقیقی ناول کبھی رومانی نہیں ہو سکتا اس کے لئیے حقائق کو سہارا اور حقیقی سوسائٹی کا پس منظر ضروری ہے “
٤ .ای۔ایم ۔فارسٹر کا کہنا ھے۔۔
”ناول ایک خاص طوالت کا نثری قصّہ ہے “
پروفیسر بیکر نے ناول کے لیے چار شرطیں لازم کردیں ۔قصہ ہو ، نثر میں ہو، زندگی کی تصویر ہو اور اس میں رابط ویک رنگی ہو۔ یعنی یہ قصہ صرف نثر میں لکھا نہ گیا ہو بلکہ حقیقت پر مبنی ہواور کسی خاص مقصد یا نقط نظر کو بھی پیش کر تا ہو ۔ قصہ اورکہانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ۔ اپنی موجودہ شکل میں گو کہانی مغرب کی دین ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ قصہ یا حکایت کے روپ میں یہ قدیم شاعری میں بھی موجود تھی اور عوام الناس میں مقبول بھی ۔ یہ وہ سچا ئیاں ہیں جن کے ماننے یا نہ ماننے سے ان کی اصلیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ناول ایک ایسا نثری قصّہ ہے جس میں ہماری حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا ہے یہ ایک ایسا آئنہ ہے جس میں ہماری امنگیں اور آرزوئں جھلکتی ہیں جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمارے سامنے کیا مشکلیں آتی ہیں اور ہم ان پر کس طرح قابو پاتے ہیں گویا ناول زندگی کی تصویر کشی کا فن ہے .ناول اصل میں اطالوی زبان کے لفظ ناویلا (Noveela) سے اخذ کیا گیا ہے انگریزی زبان میں مخفف (Novel) کے ساتھ اردو زبان میں مفہوم لیے داخل ہوا ہے ناول ایک نثری قصہ ہے جو کہ ایک پوری زندگی پر لکھا جاتا ہے جس میں مختلف کردار ہوتے ہیں اس کے عناصر ترکیبی میں ایک اچھی کہانی ، پلاٹ، کردار ، مکالمے ، اسلوب اور موضوع وغیرہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ ناولا کے معنی نئی چیز کے ہیں ۔ لغت کے اشتعقاقی تناظر میں ناول کے مفہوم میں نادو، منفرد، اچھوتا، انمول، بدعت اور نئی بات کی معنیات چھپی ھوئی ہیں۔ لیکن صنف ادب اور با لخصوص ناول کا آفاق زندگی کی حرکیات کے الم و انبساط کئ خمیر سے تشکیل پاتا ھے مراد یہ کہ انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور معاملات کا انتہائی گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز میں ترتیب کے ساتھ کہانی کی شکل میں پیش کرنے کا نام ناول ہے۔ ناول کی تاریخ اتنی قدیم نہیں جتنی بقیہ اُردو اصناف کی ہے۔ ناول کی ابتد اٹلی کے شاعر اور ادیب جینووینی بو کا شیو نے ۵۵۳۱ءمیں ناویلا سٹوریا نامی کہانی سے کی۔ انگریزی ادب میں پہلا ناول ”پا میلا “ کے نام سے لکھا گیا اُردو ادب میں ناول کا آغاز انیسویں صدی میں انگریزی ادب کی وساطت سے ہوا۔ ۔میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیا ن کرنا ہے۔ خلاصہ یہ کہ”ناول ایک نثر ی لہجے کا قصہ ھوتا ھے جو بیانیہ کی شعوری اور لاشعوری تموج سے خلق ھوتا ھے جس میں زندگی کی واردات ذات، معاشرتی اور تمدنی سرد وگرم کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ ناول زندگی کی مکمل تصویر ہے جس میں زندگی کے مختلف واقعات وحادثات کو دلچسپ پیرایے میں پیش کیا جاتاہے۔دراصل ناول ایک تاریخی اور تہذیبی دستاویز بھی ہے جس میں زندگی کی مسرت وبصیرت اور غم والم کو پیش کیاجاتا ہے۔اس پیش کش میں مختلف کرداروں کی مدد لی جاتی ہے۔گویا یہ کہ یہ ایک طویل نثری قصہ ہے جس میں زندگی کے مختلف رنگ مربوط انداز میں پیش کیے جاتے ہیں۔ مغرب کے فلسفیانہ اور ادبی نظریات اور علم نفسیات کے پیدا کردہ رجحانات نے اردو ناول کو ایک نئی شناخت دی ہے؟ شعور کی رو، آزاد تلازمۂ خیال، داخلی خود کلامی ، علامت نگاری وجودیت، تجریدیت، وغیرہ نے انسانی واردات کے مطالعہ کو کس حد تک متاثر کیا ہے اور اس کے اثرات کہاں تک نظر آتے ہیں۔ ان تمام موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ یہ ناقدیں ناول کے یہاں روایتی طور پر “ناول کے عناصر ترکیبی میں کہانی ، پلاٹ ، کردار ، مکالمے ،زماں و مکاں، اسلوب ،نقطئہ نظر اور موضوع وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر اطہر سلطانہ کا کہنا ھے "اسلوب بیان سے مراد بات کو ادا کرنے کا ڈھنگ اور طرز تحریر ہے ۔ ڈرامہ نگار کے پاس اپنے مقصد کے اظہار کا محض ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے یعنی مکالمہ جبکہ ناول نگار مکا لمہ اور بیان دونوں سے کام لیتا ہے ۔
ناول کی صنف اردو زبان میں باقی اصناف سخن کے مقابلے میں کم توجہی کا شکار رہی۔ اس کی متعدد سیاسی تہذیبی سماجی و ادبی وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ قصہ گوئی کی روایت برصغیر کی زبانوں میں طویل تاریخ رکھتی ہے اور دیومالاؤں اور قصوں کہانیوں کی صورت میں یہ ہمیشہ سے یہاں کے کلاسیکی ادب کا حصہ رہی ہے۔ ناول کی صنف ا س روایت کی ایک ترقی یافتہ صورت قرار دی جا سکتی ہے۔ اردوناول کی بنیاد نذیر احمد کے ناول مراۃ العروس سے پڑی جو 1869 میں لکھا گیا ۔ اگرچہ اس سے پہلے مولوی کریم الدین’’خط تقدیر‘‘ لکھ چکے تھے اورمختلف ناقدوں نے اس کو ناول مانا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’خط تقدیر‘‘ناول پر کھرا نہیں اترتا۔ اس میں ان اجزائے ترکیبی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے اسے پہلا ناول تسلیم نہیں کیا گیا۔ مولوی نذیر احمد کا ناول’’مراۃ العروس‘‘ انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے لکھا نذیر احمد جب یہ قصہ لکھ رہے تھے تب انہیں یہ معلوم نہیں تھاکہ وہ اردو کا پہلا ناول لکھ رہے ہیں ۔ انہیں اپنی تصانیف کی طباعت کا شوق بھی نہیں تھا۔اتفاقاً
اردو میں پہلا باقاعدہ ناول امراؤجان ادا کو قرار دیا جاتا ہے جو 1899 میں شائع ہوا۔یہی وہ دور تھا جب ڈپٹی نذیر احمد اور رتن ناتھ سرشار کے ناول بھی منظر عام پر آئے۔ سو انیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں اردو میں ناول نے بطورصنف اپنے خدوخال واضح کیے۔ ان اولین ناولوں کو قدیم داستانوں اور قصوں ہٹ کر ناول نگاری کی مغربی روایت کی طرز میں لکھنے کا تجربہ کیا گیا تھا۔جب کہ مغرب میں دو صدیاں پہلے یہ صنف اپنا ظہور کر چکی تھی۔ وہاں پہلا بڑا ناول ڈان کیخوتے کو مانا جاتا ہے جو سترھویں صدی کی اولین دہائی میں منظرعام پر آیا۔
مکا لمہ بھی ناول کا اہم جزو ہے جو اُسے ڈرامہ سے ورثہ میں ملا ہے ۔ اس کے ذریعہ کردار کی خصوصیات نہایت دلچسپ طریقے سے ظاہر کی جاسکتی ہیں۔ بات چیت انسانی زندگی کا سب سے اہم پہلو پیش کرتی ہے اور اسی ذریعہ سے ہم کو اس دنیا کے جملہ معلومات حاصل ہوتے ہیں ۔ ناول نگار مکالمہ لکھتے وقت پورے طور پر ڈرامہ نگاری کے دائرے میں آجاتا ہے ۔ اچھا مکالمہ قصہ کو ایک روشنی بخشتا ہے اور ڈرامائی قوت کو ظاہر کرتا ہے ۔ قصہ کے ارتقاء میں مکالمہ کا بہت کافی حصہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے واقعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ مکالمہ ناول نگار کے ہاتھ میں اظہار خیال کا بہترین آلہ ہے ۔ ناول نگار اپنے کرداروں کی زبان سے جو کچھ اس کاجی چاہے جو کچھ وہ ضروری سمجھے یا جو امور اہم جانے ادا کرسکتا ہے ۔ ناول میں مکالموں کی خوبی یہ ہے کہ ان کا انداز بالکل فطری ہونا چاہئیے۔ "
,مگر اب ناول کی ساختیاتی اجزائے ترکیبی کی کئی نئی جہات اور تناظر بھی موضوع بحث ہیں۔ناول کا بنیادی جزو کہانی ہے، جو کسی معینہ پلاٹ کے گرد گھومتی ہے۔ناول میں مکالمہ کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ ناول کا ایک وصف بھی ہے کہ کہانی کہ تمام کردار واضح اور کہانی کے اندر ہوتے ہیں، باہر یا بھرتی کے نہیں ہوتے۔ یہ ناول کے متن کے اندر کے لوگ ھوتے ہیں ۔ ناول کو طویل کہانی قصص یا طویل حکایت بھی ھوسکتی ھے طوالت، ناول طویل ھوتی ھے۔ یہی اسکا خلیقیہ اور امتیاز ھے۔خاصہ ہے۔ یہ ادب کی واحد صنف ہے، جو ایک مکمل کتاب کی صورت و ہیت میں ھوتی ھے۔ کچھ اردو ناولین بعض ناولیں خاصی صخیم ہیں ۔ مگر ان کی کہانی اور اظہار بیاں اتنا دلکش ھوتا ھے کی قاری اسے ختم کئے بغیر رہ نہیں پاتا۔ جس کی مثال شوکت صدیقی کی ناول " خدا کی بستی" ھے جو طوالت کے باوجود اول تا آخر پڑھنے والے کو اپنے سے الگ نہیں کر پاتی۔ اس کی وجہ عمدہ انداز نگارش ، کہانی پن، احوال معاشرت اور تجسس ھوتا ھے ۔ ناول کی یہ خو بی ھے کہ وہ فرد کی زندگی کے ان حوادث، معاملات ، بحران اور کربوں سے ھوتا ھے۔ ناول میں حقیقت نگاری کا عنصر ھی ناول کو ناول بناتا ھے۔ اس کے بغیر عموما ناول چیستانی بن کر رہ جاتی ھے۔ناول میں روایتی قصے کہانیوں والی ہیت اور اجزائے ترکیبی کیں نی کہیں نظر بھی آجاتی ھے۔ جدید ناولوں میں جو مناجیاتی عمل کیما یا اجزئے ترکیبی میں ناقدین نے " پلاٹ ( خیالی ڈھانچہ) کو سب سے زیادہ اہمیت ھوتی ھےجس کا تعلق کرداروں اور واقعات جڑا ھوا ھوتا ھے۔، اور کردار اور واقعات ایسے ھوں کہ زندگی اس میں دکھائی دینی چاہیے۔ جس میں کردار اور واقعات بیانیہ انداز میں پیش کئے جائیں تاکہ ناول کا قاری اپنے طور پر اس میں دلچسپی لے۔ اور ناول کے نفسیاتی عمرانیاتی اسرارو رموز ، ماحول کا تقابل و تجزیہ کرے۔ ناول کے اجزائے ترکیبی ڈرامے سے بھی قریب ہیں۔ لہذا ناول میں مرکذی خیال (تھیم)، کردار اور سیرت، ، مکالمہ، تسلسل، تذبذب، تصادم، نقطہ عروج، زمان و مکان، جذبات نگاری، نظریہ حیات , تاثراتی ارتکاز اور انجام کی فکری اور مناجہیاتی تحدیدات میں ھی ھوتا ھے۔ اردونثر کاآغاز داستان سے ہی ہواہے داستان کی خامی یہ تھی کہ اس میں خیالی قصے پیش کئے جاتے جن کا حقیقت سے کوئی میل نہیں ہوتا۔ ناول کی وہ خصوصیات جو بادی النظر میں اسے داستان سے ممتاز کرتی ہیں حقیقت نگاری کردار کی اہمیت اورفلسفیانہ گہرائی ہے۔ حقیقت اگرچہ کسی نہ کسی داستان میں بھی موجود ہے مگر مجموعی اعتبار سے داستان میں محیر العقول واقعات وکردار پیش کئے جاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح وہاں عام حقیقتوں کو بھی تخیلی دنیا میں اس طرح پیش کیا جاتاہے کہ نہ صرف ان کی اصلیت مجروح ہوجاتی ہے بلکہ ان کا ایک رخ ہی سامنے آتا ہے ۔ اس کے برعکس ناول میں تخیل اس دنیا کی حقیقتوں کی بازیافت یا ممکنہ ترتیب وتشکیل کے فرائض انجام دیتا ہے ۔ناول میں توجہ کا مرکز کردار ہوتے ہیں جن کا تعلق اسی دنیا کے جیتے جاگتے انسانوں سے ہوتاہے اس میں واقعات اگرچہ کردار کے تابع ہوتے ہیں لیکن ان کے مابین ایک قابل شکست رشتہ موجود رہتا ہ
اوریوں راہیں اعتباطی ( من مانی) اور تناقصی نوعیت کی ھوجاتی ہیں اور یوں اس کا فنکارانہ مخاطبہ فنکارانہ نثر میں تبدیل ھوکر اپنے محدود امکانات میں شاعرانہ آگہی کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔ ناول میں لسانی حوالے سے تاثریت، تمثالیت/ پیکریت ، قرت ذہنی، ذہنی طہارت اور ستھرے پن کو کلیدی حیثت حاصل ھوتی ھے۔ اسلوب کے حوالے سے ناول کو فنکارانہ نثر کا مخاطبہ (ڈسکورس) بھی کہا جاتا ھے۔ ایک عرصے تک ناول کو آئیڈیالوجیکل تجزیے اور عوامی واقعہ نگاری سے بھی منسلک کیا جاتا رہا۔ اس سے ٹھوس قسم کے اسلوبیاتی سوالات اٹھتے ہیں ۔۔ یہ بعض دفعہ اعصاب شکن ھوتے ہیں اور کبھی کبھار بڑھ بھی جاتے ہیں۔۔ جب بھی ناول میں آئیڈیالوجی کا جبر حاوی ھوجاتا ھے تو اس سے فنکارانہ ہنر وجمال بھی متاثر ھوجاتا ھے۔فلسفۂ حیات کی بھی ناول میں کافی اہمیت ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ ناول نگار کو کوئی فلسفہ یا اخلاقی سبق اپنی ناول کے ذریعہ سے ظاہر کرنا ضروری ہے ۔ لیکن ناول نگار ناول کے متن میں زندگی کے سرد وگرم کے حقائق بیاں کرتا ہے ۔ اس سبب ناول کی تصویر میں زندگی اس کے عام اخلاقی و فلسفی و مذہبی خیالات ور تمدنی متعلقات کے ونگ بھی شامل ھو جاتے ہیں ۔ اور ھوسکتا ھے ناول کے کہانی اور بیانیہ میں کوئی آئیڈیالوجی دکھائی نہیں دے مگر پھر بھی ناول نگار زندگی کو اپنے سیاقی تناظر میں دیکھتا ہے ۔یہ اس کی پسند اور ناپسند پر بھی منحصر ھے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ناول میں کو زندگی کا فکریہ اور نظریہ نظر نہ آئے۔ اس کو قاری محسوس بھی کرتا ھے ۔ ہر ناول میں فلسفۂ ذات، معاشرت اور آئیڈیالوجی کا عکس نظر آتا ہے ۔ چاہے وہ عکس کتنا دھند زدہ کیوں نہ ھی ہو۔ اور یہ پھیل کر ناول کی اسلوبیاتی تکنیک پر بھی اثرانداز ھوتا ھے۔ قاری کا اسلوبیاتی زندگی کا جو مخاطبہ ھوتا ھے وہ عموما لسانیات کا اعتباطی مشاہدہ ثابت ھوکر دم تو ڈ دیتا ھے۔ جس کی اپنی ایک " ہیتی قدر" ھوتی ھے۔ یہ عملی طور پر نمودار ھوکر زندگی کے کئی بہلوں کو اجاگر کرتی ھے۔ جو ھماری نظروں سے اوجھل ھوتے ہیں۔ اس کو " سائینسی نثر" بھی کہتے ہیں جس میں فنکارانہ میانہ روی کو " ابلاغ" کے معنوں میں لیا جاتا ھے۔
ناول نگاری کے لیے ان نکات کی نقشہ بندی ھونی چاہیے:
ا۔ بنیادی مقولہ
2۔ ڈھانچہ
3۔ کرداروں کا انتخاب
4۔ کہانی کا خلاصہ یا تجرید
5۔ توسیعی خلاصہ
6۔ ۔مقاصد اور فیصلہ
7۔ محل و مقام
8۔ کرداروں کا سوال نامہ
9۔ اعلی خیالی ڈھانچہ
10۔ مناظر بندی کے اقدامات
11 ۔کرداروں کا نقط نظر
12۔ مسودے کا پہلا مرحلہ
13۔ موضوعات کی تبدیلیاں۔
14۔ مسودے کا دوسرا مرحلہ
15۔ مسودے کو چھپوانے کا فیصلہ
*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔