"ناول، جسے زوال نہیں"
بی بی کے ایک سروے کے مطابق اس سوال کے جواب میں کہ "دنیا کا سب سے بڑا ناول کون سا ہے؟" جواب میں "وار اینڈ پیس" کا نام لیا جاتا ہے۔ البتہ جب سوال یہ ہوتا ہے، بالخصوص ان ممالک میں جہاں انگریزی رائج ہے کہ "دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ناول کون سا ہے؟" تو جواب دیا جاتا ہے: "تکبر و تعصب!" یعنی: Pride and Prejudice۔
جین آسٹین کے ناول کو مقبولیت کی دوڑ میں شامل دیگر ناولز کے مقابلے میں (جیسے برادرز کرامازوف وغیرہ) پر فوقیت یوں بھی حاصل رہی کہ اسے دیگر ذرایع ابلاغ جیسے ریڈیائی ڈراموں، تھیٹر، فلم، یہاں تک ویڈیو بلاگز تک کی مسلسل توجہ حاصل رہی۔ اور یوں یہ قارئین سے نکل کر عوام میں پہنچ گیا۔
چند برس قبل یوٹیوب پر ایک بلاگ سیریز میں اس ناول کو سادگی کے باوجود حیران کن اثرانگیزی کے ساتھ فلمایا گیا، جس نے "تکبر و تعصب" کی مقبولیت کے ایک صدی سے زاید سفر اور سحر کو سمجھنے میں کچھ مدد بھی فراہم کی۔
جین آسٹن کا یہ شاہ کار کتابوں تک محدود نہیں، اس کے کردار الزبتھ اور مسٹر ڈارسی دیگر ناولز کے کرداروں کے مقابلوں میں زیادہ چاہے گے، وہ دیگر ناولز ہی کا موضوع نہیں بنے، فقط فین فکشن نہیں جناب، بلکہ وہ ٹی سرٹ پر، کافی کے مگز پر، پرس اور زیورات پر بھی دکھائی دیے۔ وہ حقیقی معنوں میں پاپ کلچر کا حصہ بن گئے۔
اور یوں جین آسٹن کا یہ ناول سچ مچ ایک زندہ ناول ٹھہرا۔
اگر لطف کی بات کی جائے، یہاں عظمت اور قدر کے تعین کا مسئلہ زیر بحث نہیں، بلکہ تفریح طبع کا معاملہ ہے، تو اس ناول سے زیادہ لطف راقم کو شاید ہی کسی ناول میں میسر آیا ہو۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“