{ ہالینڈ میں مقیم فکشن نگار اور دانش ور صفدر زیدی کے ناول ۔۔" چینی جو میٹھی نہ تھی" ۔۔۔ کا تجزیہ}
صفدر زیدی کا ناول ” چینی جو میٹھی نہ تھی“ نو آبادیاتی جبر کے تاریخی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ ناول پس کربیہ یا ناسٹلجیائی کیفیت اورنقل مکانی کے المیات کو فنکارانہ سیاق و انداز میں پیش کرتا ہے ۔اس ناول میں ثقافتی اور تہذیبی معاملات کا بشری اور انسانی تاریخ میں پنڈولم کی طرح ڈولتا ہوا فرد سامراج یا نوآبادیات کے کثیرُالملکی جبر سے دوچار ہے ، جس کل آج پر بھاری ہے۔ اس ناول کے منفرد اور اچھوتے ہونے کا انداز اس کے اصل بیانیے یعنی فرد، اجتماع اورنقل مکانی میں پوشیدہ ہے۔ ان کا افسانوی اسلوب و اظہار اردو میں نئے فکشن کی شعریات کو بڑی ہنر مندی سے خلق کرتا ہے۔ یہ ناول ماضی کا المیاتی اور کرب انگیز تاریخ کا ماجرہ ہے۔ جس میں آسیب زدہ روح فرد کے وجود کا حصہ ہے۔ اس ناول میں واقعات تو ہیں مگر اس میں تاریخ قریب کی روح سمائی ہوئی ہے۔ جس مین نقل مکانی در نقل مکانی کی تکلیف زدہ ، ازیّت ناکی، اور فرد کی منتشر روح دکھائی دیتی ہے۔ جس میں رومان کی جدلیات میں کئی زخم نظر آئیں گے۔ اس ناول کا یہ افسانوی خلیقہ ہے کی اس پر طویل " انشائیہ نگاری" کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ مگر ماضی کے گم شدہ ا وراق کو ایک افسانوی سراپے میں بڑی چابک دستی اور ہنر مندی اور مطالعے کے بعد ایک "مقدمے" کے طور پر قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔
یہ ناول ولندیزی نوآبادیات سرینام، ولندیز اور ہندوستان کے مثلث سے ترتیب پاتاہے۔ ناول کے مرکزی کردار، راج اور لکشمی ہیں اور دیگر کردار رمضان، رام لال، دین محمد، بدھو سنگھ، دہنی بخش، حسن لالہ، پرمود، جمیلہ او ر چمپا کے ہیں ۔ یہ کردار ناول کی داستان کو دلچسپ ہی نہیں بلکہ مختلف ذہن سے انسانی حیّت اور مزاج کے تحت اس کی کہانی کو مختلف رنگوں سے سنوارتے ہیں۔ ناول میں ہندوستان کے علاقے بہار اور مشرقی یوپی سے بھرتی ہونے والے محنت کشوں کی کہانیاں بکھری ہیں جن کو سرینام میں غلاموں کی جگہ کاشت کاری کرنے کے لئے لایا گیا تھا ۔ غلاموں کو آزادی کے اعلان کے بعد اب مزید دس سال سرینام کے کافی اور گنّے کے کھیتوں میں کام کرنے کے بعد آزادی کا پروانہ حاصل کرنا تھا ۔ صدیوں کی غلامی کے بعد ان غلاموں کا دل بیگاری سے اکتا گیا تھا۔ کھیتی باڑی میں ان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے سرینام کی کافی اور شکر کی پیداوار میں مسلسل کمی ہورہی تھی۔ چنانچہ ولندیزی نو آبادیات کے انگریز نو آبادیاتی دوستوں نے ان کو ہندوستانی محنت کش مہیا کرکے اس بحران سے نکالا۔ 1873 سے 1916 تک ہندوستانی مزدور جنوبی امریکہ کی اس ولندیزی نو آبادیات کو بھیجے گئے۔ ان مزدوروں کی اکثریت کا تعلق بہار اور مشرقی یوپی سے تھا۔ کچھ برسوں بعد ان مزدورں کو زمین خریدنے اور سرینام میں کاروبار کرنے کے حقوق حاصل ہو گئے تھے، اور کچھ نسلوں بعد ان کو ولندیزی شہریت کے حقوق بھی حاصل ہو گئے۔ دسمبر 1982 کے فوجی انقلاب میں بہت سے ہندوستانی نژاد سیاست دانوں کو قتل کردیا گیا تو ہندوستان کے لوگوں کی ہالینڈ کی جانب ہجرت میں اضافہ ہو گیا۔ اس وقت بھی ہندوستانی نژاد سرینامی ، سرینام کی حکومت میں کئی وزارتوں پر فائز ہیں۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ایک برطانوی آباد کار مارشل کریک نے سرینام دریا کے کنارے سرینام کی بنیاد رکھی تھی۔ سولھویں صدی میں فرانسیسی، ہسپانوی اور انگریز نو آبادیاتی طاقتوں نے یہاں قدم جمانے کی کوشش کی مگر دریائے سرینام کے کناروں پر ولندیزی ، انگریز اور فرانسیسی اپنی نو آبادیات قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ناول میں ناسٹلجیائی حوالے سے نو آبادیاتی اذیت کو علامتی طور پر ایک خود کلامیہ اظہار میں تبدیل کردیا ہے۔
” ادہر کوچوان نے چابک لہرایا ادھر راج کے دماغ میں بجلی سی کوندی، اسے لگا کہ چابک لہراتا ہوا کوچوان وہی شخص ہے جو اس کے خوابوں میں آکراس پر بے دردی سے چابک برساتا تھا “۔ (صفحہ 50)
ناول میں ثقافتی شجر کاری سے روشن خیالی آئی اور کئی تعصبات کا پردہ چاک کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان سے جب لوگ نقل مکانی کرکے سرینام آتے تو ذات پات کا دھندہ قدرے کم ہوگیا۔ پہلے ہندوستان میں چھوت چھات اور ذات پات اس قدر حاوی تھی کہ اونچی ذات والے نیچی ذات والے کے ساتھ معاشرت کرنے سے ڈرتے تھے کہ کہیں ان کو بیماریاں نہ منتقل ہو جائیں مگر سرینام میں آکر رفتہ رفتہ ہر قدامت پسند انہ رویّہ آہستہ آہستہ اپنی موت آپ ہی مرگیا۔ ناول میں ڈاکٹر صاحب راج سے سوال کرتے ہیں تو راج اپنے ماضی سے یوں پردہ اٹھاتا ہے۔
” میرے والد کی سرینام میں کپڑوں کی دوکان تھی۔ ان کی تعلیم معمولی تھی پر وہ پڑھ لکھ سکتے تھے ۔ 1974 میں جب سرینام کے حالات سیاسی طور پر بہت خراب ہوئے تو وہ والدہ کو لے کر ہالینڈ چلے گئے۔ میرے والد کے والدین ہندوستانی شہری تھے جنہوں نے انیسویں صدی کے آخر میں تلاش معاش کے سلسلے میں ہجرت کی تھی۔ میرے وال داور بہن بھائی سرینام میں ہی پیدا ہوے تھے ‘‘ ۔(صفحہ 70)
ناول میں مذہبی مظالم کا اظہار بھی بڑے واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ جب لالہ ظلم کرتا ہے تو ماں بھگوان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہتی ہے:
”ہئے بھگوان تیرے پاس نیائے نام کی کوئی چیز نہیں، سب انیائے ہی انیائے ہے اور تیری کرپا سب اونچی ذات والوں کے لئے ہی ہے “ ۔ (صفحہ 156 )
ناول میں نقل مکانی کے التباس اور فینٹیسی کی اذیّت ناکی کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ جب اپنے ثقافتی مرکز سے انسان کی زندگی کو چھین لیا جا تا ہے تو فرد وہاں سے فرارحاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں جو اس ناول میں بیان کی گئی ہیں جیسا کہ جوزف کا نریڈ کے ایک ناول میں برازیلی کان کنی کے مزدوروں کی زندگیوں پر لکھا گیاہے۔ اس کی مثال دور جدید میں بھی دی جا سکتی ہے۔ جیسے بھارت اور پاکستان سے کینیڈا میں لوگ اس دھوکے میں جاتے ہیں کہ انہیں ان کی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر ملازمت ملے گی مگر یہ ایک سراب ہوتا ہے۔ کینیڈا میں آج آپ کو پاک و ہند کے سینکڑوں ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسرو غیرہ ٹیکسی یا ٹرک چلاتے اور ریسٹورنٹ وغیرہ میں کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تاہم یہ سب نئی نو آبادیات کا ایک جاندار عندیہ ہے جو اس ناول کو زیادہ ڈرامائی بناتی ہے مگر بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے اس سے ناول کمزور بھی ہو جاتا ہے اور اپنے اصل مقولے سے بھٹک بھی جاتا ہے اور اس قسم کی تاریخ ناول کے نتاظر کو کمزور بھی بنادیتا ہے، جس سے واہمے یا فینٹیسی کی خوابیت ابھرتی ہے جو ابہام پیدا کرتی ہیں۔ لیکن اس ناول کا بیانیہ اور لہجہ حقیقت کے سانچے میں بڑا بھرپور ہے ۔ اس میں زندگی کے نت نئے رموز، تجسس، تناؤ اور تشکیک اچھوتے جمالیاتی انداز میں جلوہ نمائی کرتے ہیں۔ اس میں کرداروں کی روح ناول کے اصل خیال میں سمٹ آئی ہے۔
” جہاں تک روح کی تشریح کا تعلق ہے تو آج تک کسی سے اس کی تشریح ممکن نہیں ہو پائی ہے۔ ویسے روح کو علامتی طور پر اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایک بوتل کھولی جائے تو اس میں موجود محلول سے نکلنے والی خوشبو کو ہم با آسانی محسوس کرسکتے ہیں تو وہ خوشبو محلول کی روح کہی جاسکتی ہے پر یہ تعریف صرف علامتی ہے۔ دراصل روح کائنات کے خالق کا وہ حکم ہے جس سے ہر بے جان چیز جاندار ہوجاتی ہے “۔ (صفحہ 118 )
چینی جو میٹھی نہ تھی ، ثقافتی اور نسلی سطح پر ولندیزی سرینام اورہندوستان کے مظلوم اور کچلے ہوئے عوام کے ساتھ سامراجی قوتوں کی انتہائی ظالمانہ روش کو بے نقاب کرتا ہے ۔ اس ناول میں ذہنی طور پر محکوم اور آقا دونوں ہی اپنے اپنے قطبین پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس فکشن کا مطالعہ قاری کو تجسس، حیرانی اور پریشانی میں مبتلا کردیتاہے۔ اس ناول کا مطالعہ قاری کو سیاہ اور سفید کے علاوہ گندمی تمدن و ثقافت کے ایسے المیے سے روشناس کراتاہے جو تشدّد اور سفّاکی سے عبارت ہے۔ جو علامتی بھی ہے اور عملی جدوجہد کا عکاس بھی۔ مزاحمت اور احتجاج اس ناول میں کلائمکس کی صورت میں ابھرتا ہے ، جس میں فرد کی آزادی کی موضوعی، اجتماعی اور وجودی جدلیات ایک تاریخی تناظر میں بڑی المناکی کے ساتھ ابھرتی ہے، جہاں انسان کا وقار کسی طور پر طے نہیں ہو پارہا اور نہ ہی بحالی کی کوئی صورت نظرآتی ہے۔ مگر جبریہ ماحول میں فرد ٹوٹ پھوت کے بکھر گیا۔
آندھی کو اپنی شاخ میں روکے کھڑے رہے
یوں احتجاج کچھ نئے اشجار گر گئے {باقر مہدی}
” بس بس تم اپنی یہ کہانی اپنے پاس رکھو۔ اس فصل پر میرا سارا قرضہ واپس کردینا ورنہ یاد رکھو تمہاری ساری زمین اور ڈھور ڈنگر میرے ۔۔۔۔ “ (صفحہ 155 )
”ہئے بھگوان کیا بگاڑا ہے ہم غریبوں نے تیرا، تیری ساری دیّا کیا ان راکھششوں کے لئے ہی ہے۔ کیسا بھگوان ہے تو اور کیسا سنسار ہے تیرا، جس میں اونچ نیچ کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ “(صفحہ 156 )
نو آبادیات اور سامراج کے نقاد و دانشور اس قسم کے فکشن کو عام طور پرسمجھ نہیں پاتے اورا تنہا درجے کی رجائیت اور قنوطیت سے اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور نہایت حقارت کے ساتھ اس کو مسترد بھی کردیتے ہیں ۔ اس میں زیادہ قصور مغربی اسلوب تنقید کا ہے جہاں عدم وجود کو ثابت کرنے پرپوری توانائی لگادی جاتی ہے، جس میں اسلوب اور نا قد انداز نگارش، تجریدی اور آئیڈیالوجی کی سطح پر ابہام کا بھی شکار ہو جاتی ہے اور اسلوب سانحہ بن جاتا ہے ، مگر ”چینی جو میٹھی نہ تھی “ ان پیچیدگیوں سے آزاد ہو کر اپنا بیانیہ تشکیل دیتی ہے کہ اس میں فنکارانہ اسلوب اپنے جمالیات ومخاطبہ خود ہی ترتیب دے کر خود کلامی اور خود محاکمہ کے عمل سے گزر کر معروضی انداز میں قاری کے سامنے حقائق بیان کرتا ہے۔ تاریخی دستاویز کو بیان کرکے ناول کے اسلوب و بیان کی جمالیات کو مجروح نہیں کیا گیا۔ جیسے کہ قراہ العین کے بیشتر ناولوں میں ہمیں اسلوب اور فکشن کی شعریات اور جمالیات کا تناسب کم اور تاریخی واقعات کی دستاویز اور ریکارڈ کا تناسب زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اس قسم کا عدم توازن عبدالحلیم شرر اور نسیم حجازی کے ناول میں بھی محسوس ہوتا ہے۔ اس قسم کا عدم توازن ناول کے لئے زہر ہوتا ہے مگر صفدر زیدی نے اپنے اس ناول میں یہ سقم پیدا نہیں ہونے دیا۔
یہ ناول فرد کی شناخت کا بحران اور کرب بڑی شدّت سے ابھارتا ہے، جہاں انسان بے بس و لاچار ہے اور اپنی نقل مکانی کے عمل کو کوئی خوبصورت نام دے دیتا ہے جو حقیقت نہیں ہوتی کیونکہ سارا مسئلہ ظلم اور معیشت کا ہوتا ہے۔ اس ناول میں نقل مکانی اور ہجرت کے فرق کو بھی ابھا را گیاہے مگر یہ دونوں تصور ایک دوسرے میں اس قدر گڈ مڈ ہو گئے ہیں کہ یہ طے نہیں ہو پایا کہ یہ نقل مکانی تھی یا اس کو ہجرت کہا جائے۔ کیونکہ اس ناول میں افراد ان پرندوں کی طرح ہیں جو بہترین زندگی اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ہزاروں میل کا سفر کرکے دوسرے خطّوں کے درختوں پر گھونسلہ بنالیتے ہیں۔ ناول تاریخی تو ہے مگر اس کو مکمل طور پر تاریخی نہیں بلکہ فکشن کی تاریخ سازی کے نئے تصور اور اصطلاح سے زیادہ قریب سمجھاجاسکتا ہے جس کا بیانیہ محض داستانی نہیں بلکہ فکری اور تہذیبی بھی ہے:
بس ایک ہجرت دائم گھروں زمینوں سے
نشان مرکز دل اضطراب میں نہ ملا
(منیر نیازی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندھیارا بھی اپنے گھر کا کتنا اپنا لگتا ہے
اس گھر سے تو سورج بھی بیگانا سا لگتا ہے { حمید الرحمٰن}
=== پس نوشت ===
(صفدر زیدی کا یہ ناول DE SUIKER DIE NIET ZOET WAS KY N کے نام سے ہالینڈ بھی شائع ہو چکا ہے۔ پاکستان میں اسے مثال پبلشر، فیصل آباد نے شائع کیا ہے۔