وہ جس قدر بھی بری حالت میں ہے مگر زندہ ہے،دس سال بعد یہ خبر ہی تین بچوں اور اس کی بیوی کے لیے زندگی کی سب سے بڑی دین ہے..
احسن ارجمندی، 46 سالہ نارویجن، تین بچوں کا باپ، اوسلو کا رہائشی… 2009 میں بیس سال بعد پاکستان جاتا ہے، بلوچستان پہنچتا ہے جہاں سے وہ ہے…
7 اگست 2009 کو مند (بلوچستان) سے بس پہ سوار ہوا کہ کراچی پہنچنا تھا، جہاں سے واپس ناروے کی فلائٹ لینا تھی.. مگر وہ کبھی کراچی پہنچا ہی نہیں..
اوتھال کے قریب بس سے اتارا گیا اور پھر اسے زمین کھا گئی کہ آسمان اُچک لے گیا….
گھر والے اور نارویجن حکومت پچھلے دس سال سے ارجمندی کی تلاش میں ہیں کہ کہیں کوئی خبر تو ملے مگر….
پاکستانی ریاست اس سلسلے میں خود کو مکمل بے خبر دکھاتی ہے اور ناروے میں پاکستانی ایمبیسی، مختلف اوقات میں سوالات کے جواب میں قبرستان کی سی خاموش ہے..
پاکستان میں missing persons کی 1800 افراد کی لسٹ میں 27 ویں پہ ارجمندی کا نام ہے… جن کے بارے میں پاکستانی حکومت بے بس ہے اور بلوچستان کے لوگ سڑکوں پہ اپنے پیاروں کی راہیں دیکھتے رہتے ہیں..
حکومتیں آتی رہیں جاتی رہیں مگر ماورائے قانون حرکات پہ کوئی ایک لفظ تک کہنے کی جرات نہیں کر سکا…
کون ہیں جو بلوچستان کے لوگوں کو گھروں سے، بازاروں سے، بسوں سے اٹھا لے جاتے ہیں اور پھر یا تو ان کی لاشیں کہیں پھینکی ہوئی ملتی ہیں یا پھر سرے سے ملتے ہی نہیں… کون ہیں یہ بدمعاش جن کے آگے عوام اور عوامی ووٹ سے آتی سبھی حکومتیں لاچار، سر جھکائے رہتی ہیں؟ کون ہیں جو غیر ملکی، کسی اور ملک کے نیشنل /شہری کو بھی اٹھا لے جاتے ہیں اور حکومت پاکستان جواب میں فقط کندھے اچکا دیتی ہے؟؟ کون ہیں یہ اچکے اٹھائی گیرے ؟ اور کہاں لے جاتے ہیں انھیں؟؟؟؟
پھر کچھ ماہ سے یوں ہوا کہ جانے کب سے لاپتہ چند افراد کو چھوڑ دیا گیا… مگر ظلم تو کیا ظلم، حشر ہی اٹھا جاتا ہے کہ کسی بھی حکومتی نمائندے نے ان رہائی پائے لوگوں سے یہ تک نہیں پوچھا کہ کون تھے جو اٹھا لے گئے تھے؟ آدھی آدھی زندگیاں کہاں گزار کے آئے ہیں؟ کون ہے وہ بلا جو کتنی زندگیاں کھا گئی ہے؟ کسی نے بھی وزیراعظم سمیت یہ تک نہیں پوچھا کہ ہم ان بدمعاشوں کے خلاف تادیبی کاروائی کریں جو ریاست کے اندر ظلم و جبر کی ریاست کھولے بیٹھے ہیں…
اسی خفیہ 'نامعلوم' جیل سے کچھ ہفتے پہلے رہائی پائے ایک شخص نے فیس بک پہ احسن ارجمندی کے بھائی کو ڈھونڈا اور بتایا کہ ارجمندی زندہ ہے اور اس شخص کو اپنے گھر والوں تک اپنے زندہ ہونے کی اطلاع دینے اور نارویجن حکومت سے اپنی رہائی کی التجا بھی ارجمندی نے خود کی تھی…
رہا ہوئے شخص نے بتایا کہ وہ پاکستانی فوج کے کسی نامعلوم مقام پہ موجود تشدد خانے اور جیل میں ارجمندی کا ساتھی تھا.. جہاں پہ قیدیوں کے جرائم خود فوج طے کرتی ہے اور خود ہی تشدد سے مرنے تک سزا بھی دیتی ہے… ساری رات الٹے لٹکا کے مارا پیٹا جاتا ہے، ایک شخص پہ پانچ پانچ افراد صرف مُکے اور ٹھڈے مارنے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں.. ہاتھ اور ٹانگیں باندھ کے چُوتڑ /سرین میں لال مرچیں اور پٹرول ڈالا جاتا ہے…
اب نارویجن حکومت، ارجمندی فیملی کی وکیل Randi Spyevold اور نارویجن لوگ اپنے شہری کی آزادی اور گھر واپسی کے لئے ایک نئی امید کے ساتھ سرگرداں ہیں…
( احسن ارجمندی کے حوالے سے خبر دینے، بات کرنے اور لوگوں تک پھیلانے میں نارویجن ٹی وی چینل TV2 اور صحافی اور رپورٹر قذافی زمان کا کام قابلِ ستائش ہے)