شاید آپ نے مضحکہ خیز سازشی تھیوریز سنی ہوں جن میں بتایا جاتا ہے کہ دنیا کا مالیاتی نظام کسی کے کنٹرول میں ہے۔ روش چائلڈ، سوروس، چھکلی کی شکل والے لوگ، کوئی ادارہ یا کوئی اور گروہ؟ یہ مذاق تو چلتے رہتے ہیں لیکن اگر دنیا میں دولت کے ہتھیار کے ذریعے کسی کا سب سے زیادہ اثر و رسوخ ہے تو وہ ناروے کی حکومت ہے۔
ناروے نہ صرف انتہائی امیر ملک ہے بلکہ اپنی امارت کے ذریعے دنیا پر اثرانداز بھی ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف یہ آئرلینڈ اور سوئٹزلینڈ کی طرح امیر ہے بلکہ دولت کی مساوی تقسیم کے لحاظ سے بھی باقی دنیا سے بہتر ہے۔ امیر اور غریب میں فرق زیادہ نہیں۔ ٹیکس کی شرح زیادہ ہے اور معیارِ زندگی بہتر ہے۔ اس کی آبادی صرف پچاس لاکھ ہے (لاہور کی آبادی کا نصف)۔ لیکن دنیا کی بڑی کارپوریشنز میں ان کا حصہ ہے۔ ان کے پاس بڑی فوج تو نہیں لیکن دولت کے ہتھیار کے ذریعے یہ دنیا میں اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ ہوا کیسے؟ اس کے لئے ناروے کی تاریخ۔
اس کہانی کا ایک کردار تیل ہے۔ دنیا کے بڑے ذخائر میں سے ایک یہاں پر ہے۔ لیکن یہ کہانی صرف تیل کی نہیں۔ تیل رکھنے والے دنیا کے دوسرے بڑے ممالک وینیزویلا، انگولا، سعودی عرب، ایران، بحرین بھی ہیں لیکن اپنے ذخائر کا سب سے زیادہ فائدہ ناروے نے اٹھایا ہے۔ ناروے غریب ملک تو نہیں تھا لیکن پچاس کی دہائی میں یہ اپنے ہمسائے سویڈن یا پھر امریکہ جیسے ممالک سے پیچھے تھا۔ 1959 میں یہاں پر پہلی بار گیس ملی۔ نارڈ کے سمندر میں اس کے بعد تیل کی تلاش شروع ہوئی۔ اس سمندر میں دنیا کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت ہوا جو برطانیہ اور ناروے دونوں کے درمیان تھا۔ 1972 میں ناروے کی حکومت نے اپنی تیل کی کمپنی بنائی۔ اگلے تین سال میں ان کا جی ڈی پی فی کس دگنا ہو گیا۔ لیکن یہ کسی بھی معیشت کے لئے اچھا نہیں۔ اس کو ڈچ بیماری کہتے ہیں۔ قدرتی وسائل سے ترقی دیرپا نہیں ہوتی۔ تمام دوسرے کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ حکومت ٹیکس کم کر دیتی ہے۔ دولت کا ضیاع شروع ہو جاتا ہے۔ ملک کا انحصار صرف ایک چیز پر رہ جاتا ہے جس کی بڑھتی گھٹتی قیمت یا مانگ سب کچھ تباہ کر سکتی ہے۔ مقامی لوگ سست ہو جاتے ہیں کیونکہ کام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ناروے نے اس کا طریقہ تیل نکالنے پر پابندی لگا کر ڈھونڈا۔ برطانیہ کے مقابلے میں انہوں نے تیل کو نکانلے کی رفتار بہت سست رکھی۔ تیل کی صنعت پر کڑی ریگولیشن لگائی۔ تیل کے کنووں میں حکومتی ادارے کا پچاس فیصد حصہ رکھا۔ ٹیکس کی شرح اونچی رکھی اور زیادہ سے زیادہ تیل نکالنے کی حد مقرر کی۔ ناروے کا سسٹم سٹیٹ کیپٹلزم کہلاتا ہے۔ جس میں حکومت ایک بڑی پرائیویٹ کمپنی کی طرح کام کرتی ہے۔
اس کے ساتھ ناروے نے ایک فنڈ بنایا۔ ناروے میں کنزرویٹو اور لبرل ھکومتیں آتی رہی ہیں لیکن اس فنڈ کے کام کرنے کے طریقہ کار میں فرق نہیں پڑا۔ تیل کی دولت اس فنڈ میں جاتی ہے۔ 1990 میں ناروے کی پارلیمنٹ نے اس فنڈ کے قوانین بنائے جس کا مقصد تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاوٗ سے معیشت کو محفوظ رکھنا تھا۔ اس فنڈ نے عالمی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری شروع کی۔ اس فنڈ کا نام گورنمنٹ پنشن فنڈ آف ناروے ہے۔ اس کو ناروے کا مرکزی بینک کنٹرول کرتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کے بھی اس طرز کے فنڈ ہیں جیسا کہ چین، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات وغیرہ لیکن سب سے بڑا فنڈ ناروے کا ہے۔ دس کھرب ڈالر سے بھی زیادہ کا۔ یعنی اگر اس کو ناروے کے آبادی پر تقسیم کیا جائے تو ہر شہری کے حصے میں دو لاکھ ڈالر آئیں گے۔ لیکن یہ کہانی کا خاتمہ نہیں۔ قانون کے مطابق اس فنڈ کو کسی بھی طرح کے حکومتی خرچ کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت صرف اس سے آنے والے منافع کو خرچ کر سکتی ہے، اگر ضرورت پڑے۔ اور یہ منافع پچھلے سال ایک کھرب ڈالر سے زائد کا تھا۔ اسی طرح قانون کے مطابق حکومت اپنے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتی۔ صرف بیرونِ ملک کے اداروں میں شئیر خرید سکتی ہے۔ اس وقت پوری دنیا کے تمام شئیرز کا ڈیڑھ فیصد اب ناروے کی حکومت کے پاس ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا شئیر ہولڈر ہے۔ اس کے منافع میں اتار چڑھاوٗ آتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ اب اس کو دنیا میں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
پچھلے سال 6700 اداروں میں اس فنڈ نے کمپنی قراردادوں کی مخالفت کی۔ ہر سال ناروے کا مرکزی بینک ایک فہرست جاری کرتا ہے، ان اداروں کی بلیک لسٹ جس میں یہ اخلاقی وجوہات کی بنا پر سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ اس میں کرپشن کی وجہ ہو سکتی ہے۔ ہتھیار بنانے اور جنگی سامان تیار کرنے میں مدد دینا، تمباکو کی تجارت۔ کوئی کمپنی اس بلیک لسٹ میں نہیں آنا چاہتی۔ شئیرہولڈر ہونے کے ناطے اس کو کمپنی کی شئیرہولڈر میٹنگ میں حصہ لینے کا حق ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کے فنڈ ایسا نہیں کرتے لیکن ناروے اس میں ایکٹو ہے۔ نہ صرف ووٹ کرتا ہے بلکہ جو موضوع زیرِ بحث آنا چاہئے، اس کی تجویز بھی دیتا ہے۔ جس کے جتنے شئیر زیادہ ہوں، وہ اتنا اہم ہے۔ اس سال فیس بک نے جھوٹی خبریں روکنے کے لئے ایک نیا الگورتھم متعارف کروایا ہے۔ فیس بک نے اپنی تنخواہوں کے فرق کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا ہے۔ یہ دونوں فیصلے اس سال شئیرہولڈر میٹنگ کا نتیجہ تھے اور ان دونوں نکات کا اضافہ ناروے کے فنڈ نے کروایا تھا۔ اسی طرح یہ دنیا کی دوسری کمپنیوں کیی کارپوریٹ پالیسی کی تبدیلی میں بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر ان میں سے ایک صنفی امتیاز کا خاتمہ ہے۔ ایک اور بڑا ایجنڈا کاربوریٹ کے بڑے عہدیداروں کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کروانا ہے۔
کئی ملک دنیا کو ملٹری کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ ڈپلومیسی کے ذریعے۔ ناروے اپنی آئیڈیولوجی عالمی کمپنیوں میں اپنا اثر ڈال کر پھیلانے میں مصروف ہے۔ یہ ناروے کی دولت کے ذریعے عالمی طاقت ہے۔ دنیا میں دولت کے کنٹرول کے پیچھے کی بڑی اور اصل سازش “نارویجین سازش” ہے۔ اس کے ساتھ ناروے کے شہری چین کی نیند سو سکتے ہیں، اس خوف کے بغیر کہ اگر کل تیل کی قیمت گر گئی تو بھی ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ ناروے کی دولت کے ذریعے دنیا کو کنٹرول کی سازش، اس کا ایجنڈا، اس کی کامیابیاں اور راہنما اصول ان کے مرکزی بینک کی ویب سائٹ پر دیکھے جا سکتے ہیں۔