“چارہ” نورین خان کی ایک پُرجوش اردو مختصر کہانی ہے جو بارش کے دن کے پس منظر میں سامنے آتی ہے۔ مرکزی کردار جس کا اندرونی ہنگامہ سرد موسم کی عکاسی کرتا ہے ایک ایسے سفر کا آغاز کرتا ہے جو مختلف کرداروں کے ساتھ مقابلوں سے گزرتا ہے، ہر ایک داستان کی جذباتی گہرائی میں حصہ ڈالتا ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، مایوسی، کھوئی ہوئی محبت، اور گزرتے وقت کے موضوعات ابھرکر سامنے آتے ہیں، جو بالآخر ایک گہرے احساس کا باعث بنتے ہیں۔ نورین خان کہانی کا آغاز یوں کرتی ہیں ”صبح سے موسم ابر آلود تھا۔آسماں پر ہر طرف بادل چھائے ہوئے تھے۔ پھر کچھ دیر میں ہلکی ہلکی پھوار ہونے لگی تو میرے دل کا موسم بہت عجیب ہوگیا،سوچا ہر کام جلدی جلدی ختم کروں،کچھ کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔پھر اچانک ہی دفتر پر جانے کا ارادہ کیا۔سوچا کہ شاید دل کی اداسی اس طرح کچھ کم ہو جائے ۔ گاڑی نکال لی اور دفتر کی طرف گاڑی کا رخ کیا۔مگر تھوڑی دیر چلنے کے بعد گاڑی نے آگے جانے سے منع کر دیا اور ایک دم رک گئی،جب چیک کیا تو بیڑی جل چکی تھی۔خیر مستری کو فون کرکے گاڑی اسکے حوالے کی اور خود ہی پیدل چلنے لگا۔ موسم تو آج بہت خوبصورت تھا، لیکن اگر دل اداس ہو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔یہ منظر بھی دیکھو کتنا دلچسپ ہے آسمان اور دھرتی کا۔جب صبح کے وقت دونوں ملتے ہیں تو کیا ہی دلفریب منظر ہوتا ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے رنگین بادلوں کے بستر پر استراحت کرنے کے لئے حجلہ مغرب میں پنہاں ہوتا ہے تو کیا ہی احساسات ہوتے ہیں انسان کے اس وقت۔میں پیدل کچے راستے پر چل رہا تھا اور خنک ہوا کی ہلکی ہلکی جھونکیں مجھے مسلسل تھپکیاں دے دے کر تنگ کر رہی تھے۔مگر آہ! وہ میرے اندر کے حالات سے کیا خبر رکھتے تھے؟”۔
“چارہ” کا مرکزی موضوع انسانی جذبات کی پیچیدگیوں اور زندگی کی عارضی نوعیت کے گرد گھومتا ہے۔ مرکزی کردار کے مقابلوں اور عکاسیوں کے ذریعے، کہانی آرزو، پرانی یادوں اور تبدیلی کی ناگزیریت کے موضوعات کو تلاش کرتی ہے۔ مزید برآں، بیانیہ رشتوں کی پیچیدگیوں اور انفرادی انتخاب پر سماجی توقعات کے اثرات کو بیان کرتا ہے۔ نورین خان لکھتی ہیں ” دور سے دیکھنے پر آسمان اور زمین ایک دکھائی دے رہے تھے، مگر یہ آنکھ کا دھوکا تھا۔آسمان اور زمین کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔کاش کے ایسا ہو پاتا۔بلکل ایسے جیسے امیر اور غریب،دوست اور دشمن،اندھیرا اور اجالا بہرحال سامنے رونق دیکھ کر اداسی میں کچھ کمی ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ کچھ دیر بعد دل کا موسم بھی باہر کے موسم کی طرح خوبصورت ہوتا چلا گیا۔زرد سورج اپنی اپنی خوبصورت شعاعوں کو کائنات پر پھیلا کر بےقرار اور ٹھنڈ بھرے دلوں کو سکون اور قرار بخش رہا تھا۔مگر آہ! میرے لئے یہ زرد سورج کی ضیا پاشی بھی سامان مسرت نہیں ہوتی۔ہوا کی لہریں، ٹھنڈی ہوائیں ، اور ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی پھوار نے میرے دل کی اداسی کو کم کرنے کا کام کیا۔اور خنک ہواؤں نے میرے جسم کے رگوں میں خون کو ٹھنڈ سے منجمد کر دیا تھا۔ایک تو سردی کا موسم تھا اور اوپر سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی۔تھوڑی دیر موسم کا مزہ لیا، اور سورج بادلوں میں کیا چھپا ہی تھا کہ ٹھنڈ بڑھنے لگی تو واپسی کے لئے دوسرے راستے کا رخ کیا ۔آتے وقت جو اداسی میرے ساتھ تھی وہ یہیں چھوڑ دی” ۔
“چارہ” کا ڈھانچہ اس کی ایپیسوڈک نوعیت کی خصوصیت رکھتا ہے، جس میں مرکزی کردار کا سفر مختلف موضوعات اور نقشوں کو تلاش کرنے کے لیے ایک فریم ورک کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کہانی میں بارش کے دن کے ماحول کو ابھارنے کے لیے واضح تصویری اور حسی تفصیلات کا استعمال کیا گیا ہے، جو مؤثر طریقے سے خود شناسی اور غور و فکر کے لیے لہجے کو ترتیب دیتا ہے۔ نورین خان کے مکالمے اور داخلی یک زبانی کا استعمال کرداروں میں گہرائی کا اضافہ کرتا ہے، جس سے قارئین کو ان کی جدوجہد اور خواہشات کے ساتھ ہمدردی حاصل ہوتی ہے۔ نورین خان رقمطراز ہیں”اس راستے پر چلتے چلتے مجھے دس منٹ ہو چکے کہ سامنے تالاب نظر آ گیا۔تالاب کے کنارے پر گلاب کے پودے بہت ہی حسین اور دلکش لگ رہے تھے ایک دم گلاب کی خوشبوؤں نے مجھے گھیر لیا ایسے لگا جیسے کسی نے گلاب کا عطر آس پاس انڈیل دیا ہو،بہت ہی مدھوش کن خوشبو رچی بسی ہوئی تھی،تالاب میں بطخیں مزے سے پر ہلا ہلا کے تیر رہی تھی۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد راستے پر مجھے حجام دریا جاوید کی دوکان نظر آئی جس میں میرا دوست یاور علی حجامت بنوا رہا تھا اور مجھے ہاتھ ہلا ہلا کے سلام کر رہا تھا،میں جواب میں مسکرا کے گزر گیا۔ یہاں سے بےشمار لوگ گزرتے ہیں۔ اس سڑک پر گزرتے ہوئے میں نے وقت کی مدھم سرگوشیاں سنی ہیں،اور آنے والے وقت کی گھن گرج بھی۔اچانک زور سے بادلوں کی گرجنے کی آواز آئی۔ارے یہ کیا میں نے گھن گرج کا نام لیا اور بادلوں کو غصہ آ گیا۔ خیر چلتے چلتے سامنے ایک چائے کا پرانا ہوٹل نظر آگیا اور وہاں رک گیا۔ چائے والے چچا نے ہوٹل میں ایک پرانا ریڈیو لگا رکھا تھا۔ آج 1948 کی ایک خوش گوار اور ٹھنڈی صبح ہے یہ ریڈیو پاکستان ہے آئیے وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریر سنتے ہیں۔ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کیا پینا پسند کرینگے بابو جی؟ چائے والے چچا نے پوچھا؟ جی بس ایک کپ چائے ۔بہت اچھا یہ کہہ کر چائے والے چچا اندر چلے گئے اور چولہے پر پتیلی چڑھا دی اور میرے لئے چائے بنانے لگے”۔
نورین خان داستان کے اثر کو بڑھانے کے لیے کئی ادبی آلات استعمال کرتی ہیں۔ تصویر کشی کا استعمال بارش کے دن کے حسی تجربے کو ابھارنے کے لیے کیا جاتا ہے، جب کہ علامت نگاری، جیسے چھتری اور املتاس کا درخت، اشیاء کو گہرے معنی کے ساتھ جذب کرتا ہے۔ مکالمہ کردار کی نشوونما اور موضوعاتی کھوج کے لیے ایک گاڑی کا کام کرتا ہے، جو باہمی تعلقات کی باریکیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ مزید برآں، کہانی کا ڈھانچہ اس کی موضوعاتی بھرپوریت میں حصہ ڈالتا ہے، جس سے متنوع تناظر اور تجربات کی تلاش ہوتی ہے۔ نورین خان لکھتی ہیں” بابو جی آج تو موسم بھی خراب ہے۔کیا کوئی ضروری کام ہے جو گھر سے نکلے ہو؟ میں نے جیب سے سیگرٹ نکالنا چاہا تو جیب میں کچھ نا ملا البتہ مجھے ریل کی بک کی گئی رسید مل گئی۔ مجھے یاد آیا کہ آج مجھے دفتر نہیں جانا بلکہ میں نے تو بڑے افسر سے آج دفتر کی چھٹی لی تھی۔ کیا ہوا بابو جی کچھ یاد آیا کیا؟ جی نہیں نہیں بس ایسے ہی۔۔۔میں نے بات ٹال دی۔ میں نے کل کی گاڑی سے سفر پے جانا تھا۔ مگر سوچا آج ہی چلا جاوں۔یہ لیں بابو جی گرم گرم چائے نوش فرمائیں۔ میں مزے سے چائے پینے لگا اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریر بھی سننے لگا۔بہت ہی خوبصورت منظر تھا بارش کی پھوار موتیوں کی طرح گِر رہی تھی صبح مکمل جوبن پر تھی ٹھنڈ میں اضافہ ہو رہا تھا چاۓ کا مزا دوبالا تھا اردگرد لوگوں اور خیالات کا یجوم تواتر سے بڑھ رہا تھا۔ جیب خالی ہے مگر دل میں بڑی وسعت ہے۔چائے والے چچا کا ظرف بہت ہی بلند تھا۔انکا اخلاق مجھے متاثر کر گیا۔میں رومانوی داستانوں میں سانس لینے کا خواہشمند لڑکا ہوں، جیسے چاند، ستارے، تنہاٸی، چاۓ، بارش، پہاڑوں، شاعری اور مدھم دُھن پر جھومنے سے بے حد محبت ہے۔ میں ٹھنڈک بھرے موسم سے چس اٹھا رہا تھا۔او بابو صاحب! بارش شروع ہونے والی ہے اور آپکے پاس چھتری بھی نہیں ہے۔ اگر آپ اجازت دے تو میں آپکو اپنی چھتری دے سکتا ہوں؟ نہیں چچا اسکی ضرورت نہیں میں چلا جاونگا۔ ضد نا کریں بابو صاحب! موسم واقعی خراب ہے احتیاط کرنے میں دانش مندی ہے۔اچھا ٹھیک ہے چھتری دے دو مگر ۔۔۔میں نے جیب سے دس روپے نکال کے چائے والے کے ہاتھ میں روپے رکھ دئے۔وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دینے لگے۔کیونکہ آج کل کے زمانے میں تو پورے بیس روپے میں پوری شادی ہو جاتی ہیں۔بہت شکریہ بابو صاحب! لگتا ہے آپ سرکاری اپسر(افسر) ہے۔ جی چچا میں نوروز پور کے ڈاکخانے میں ڈیوٹی پر ہوں۔آج مجھے ضروری دفتری کام سے دوسرے گاوں جانا ہے۔اچھا اب میں چلتا ہوں چائے کا بہت شکریہ چچا۔سلامت رہیں۔۔۔خداحافظ۔۔”
نورین خان کا افسانہ “چارہ” انسانی حالت پر ایک بہترین معاشرتی کہانی ہے، جس میں محبت، نقصان، اور چھٹکارے جیسے آفاقی موضوعات کو تلاش کیا جاتا ہے۔ مرکزی کردار کا سفر وقت کے گزرنے اور تبدیلی کی ناگزیریت کے استعارے کے طور پر کام کرتا ہے، ہر ایک ملاقات انسانی تجربے کے ایک پہلو کی علامت ہے۔ چائے والا کی عاجزانہ سخاوت سے لے کر چودھری کرامت علی خان کی پُرجوش یادوں تک، ہر کردار داستان کے جذباتی ٹیپسٹری میں اپنا حصہ ڈالتا ہے، جو قارئین کو ان کی اپنی زندگیوں اور رشتوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ نورین خان کہانی کا اختتام یوں کرتی ہیں” غریب لوگ تھے وہ خوش تھے اور گاوں والے بھی خوش تھے۔مگر افسوس ایک مہینہ پہلے اپنے عاشق بلال کمہار کے ساتھ بھاگ گئی۔سنا ہے کراچی گئے ہیں۔شبینہ کے والدین گاوں میں کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔آہ! افسوس یہ سن کر میرے دماغ میں دھماکے سے ہونے لگے مجھے ایسا لگا جیسے میرا دل پھٹ جائے گا۔ میری شبینہ کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی؟ نہیں یہ جھوٹ ہے،یہ جھوٹ ہے۔ وہ وعدے،وہ پیار کی قسمیں وہ سب کہاں گیا شبینہ تم نے ہی مجھے پانچ سال پہلے شہر بھیجا تھا۔میں یہ سب نہیں مان سکتا۔ کیا ہوا بیٹے تم مجھے بہت پریشان لگ رہے ہو؟ نہیں نہیں۔۔خود کو سنبھالتے ہوئے میں نے کہا۔ بڑے محترم مگر شبینہ تو چودھری کرامت علی خان سے پیار کرتی تھی نا؟ ارے برخوردار کیا پیار کرتی تھی؟ اس نے تو کرامت علی کو چارہ کے طور پر استعمال کیا۔ اور بھاگنے کے منصوبے بلال کمہار کیساتھ بناتی تھی۔اصل میں اسکا بلال کیساتھ رشتہ تھا۔ بچارہ چودھری کرامت علی پتہ نہیں آج کل کہاں ہوگا۔سنا ہے کسی شہر میں نوکری کرتا ہے۔ استعمال ہو گیا۔آہ آج کل کے نوجوان کتنے جلد باز ہیں۔بس خیالی دنیاوی زندگی میں مست رہتے ہیں۔ اور میں یہ سب سن کر صدمے میں تھا۔ میرا دل کرچی کرچی تھا۔ اور درد بھرا سفر جاری تھا۔ ریل گاڑی نے ایک بار پھر سے سیٹی بجائی۔۔”
خلاصہ کلام یہ ہے کہ “چارہ” انسانی جذبات اور وجود کی پیچیدگیوں کی ایک پُرجوش تحقیق پر مبنی بہترین کہانی ہے۔ اپنی فکر انگیز تصویر کشی، باریک بینی کی خصوصیات اور موضوعاتی گہرائی کے ذریعے نورین خان نے ایک ایسی کہانی تیار کی ہے جو آخری صفحہ پڑھنے کے کافی عرصے بعد بھی قارئین کے دلوں پر نقش ہوجاتی ہے۔ محبت، نقصان، اور گزرتے وقت کی تصویر کشی میں افسانہ “چارہ” ہمیں انسانی تجربے کو روشن کرنے کے لیے کہانی سنانے کی پائیدار طاقت کی یاد دلاتا ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...