خلا سے زمین کیسی دِکھتی ہے؟ دیکھنے والے کہتے ہیں بہت خوبصورت نیلے ماربل جیسی۔ اس گول سے ماربل میں سفید رنگ بادلوں کا ہے جو فضا میں تہہ در تہہ اُڑتے پھرتے ہیں اور نیلا رنگ سمندروں کا۔
سمندروں اور بادلوں کا رشتہ گہرا ہے۔ جب سورج کی روشنی اس سیارے پر پڑتی ہے تو یہاں حرارت کے باعث سمندروں سے بخارات اُٹھتے ہیں جو اوپر فضا میں بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ بادل دور کے علاقوں میں برستے ہیں۔میدانوں میں,کھیت کھلیانوں میں، صحراؤں میں، پہاڑوں پر۔ پہاڑوں پر بادل برس کر برف بنتے ہیں۔ پہاڑ صدیوں سے سمندروں کے پانی کو گلیشئیرز کی صورت محفوظ کیے رکھتے ہیں۔ یہ برف جب پگھلتی ہے تو پہاڑوں میں راستہ بناتی دریاؤں کو سیراب کرتی ہے۔ دریا بہہ کر پھر سے سمندر میں جا ملتے ہیں۔ یوں پانی جہاں سے اُٹھتا ہے پھر وہیں کو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ زمین پر شاید اربون سالوں سے چلا آ رہا ہے مگر زمین پر پہلی بارش کب یوئی؟
یہ کوئی نہیں جانتا۔ شاید اربوں سالوں سے۔
آج جو پانی آسمان سے برستا ہے، آج جو پانی ہم پیتے ہیں، آج جو پانی ندی نالوں دریاؤں میں بہتا ہے؟ اور آج جو پانی سمندروں میں لہروں کی صورت اُٹھتا ہے۔ یہ زمین پر کہاں سے آیا ہے؟ یہ سوال اتنا ہی اہم ہے جتنا یہ جاننا کہ زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی۔کیونکہ پانی زندگی کے لئے ضروری ہے۔ پانی زندگی کا اہم جُز ہے۔ یہاں تک کہ ہم دوسرے سیاروں پر بھی پانی ڈھونڈتے ہیں کہ اگر وہ مل جائے تو شاید زندگی بھی وہاں ہو۔ زمین پر زندگی کی ابتدا پانی سے بھرے سمندروں میں 3.8 ارب سال پہلے ہوئی۔
“زمین پر پانی کہاں سے آیا ؟” کی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ نظامِ شمسی میں پانی کہاں سے آیا۔ ہم جانتے ہیں کہ نظامِ شمسی آج سے 4.6 ارب سال پہلے ایک نبیولا سے وجود میں آیا۔ نبیولا دراصل ماضی میں اپنے انجام کو ہہنچے ستاروں کے پھٹنے سے خلا میں بکھری گرد اور گیس کا مجموعہ ہوتا ہے جو وقت کیساتھ ساتھ گریوٹی کے زیر اثر جڑ کر ستاروں اور سیاروں کو جنم دیتا ہے۔ تو گویا پانی اس نبیولا میں ہائڈروجن اور کاربن مونو آکسئیڈ جیسے آکسیجن رکھنے والے مالیکول کے کیمیائی تامل سے وجود میں آیا ہو گا۔ نظامِ شسمی کے بننے کے عمل میں کئی بڑے بڑے برف کے ٹکڑے سیارچے کی صورت ایسے ہی بنے ہونگے۔ مگر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ایسے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نظامِ شمسی میں کئی ایسے برف کے بنے سیارچے موجود ہیں۔
ان میں سے اکثر اب بھی مریخ اور مشتری کے بیچ کے علاقے میں موجود ہیں۔ اور بہت سے دمدار ستاروں کی صورت سورج کے گرد طویل مداروں میں چکر کاٹ رہے ہیں۔
کئی سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایسے ہی کئی برف کے سیارچے ماضی میں زمین سے ٹکرائے، اُس وقت جب زمین ابھی بننے کے عمل سے گزر رہی تھی اور اسکا حصہ بن گئے۔ بعد میں آتش فشاؤں کے پھٹنے ان سے جمع ہونے والا پانی زمین کی سطح پر آیا۔ مگر ایک اور خیال یہ ہے کہ زمین بننے کے عمل میں برفیلی چٹانیں پہلے سے ہی زمین کا حصہ تھیں جو بعد میں اسکی سطح پر آ کر اور دوبار سے سطح میں جا کر زمین کو ٹھنڈا کرتی رہیں۔ تیسرا خیال یہ ہے کہ زمین پر پانی پہلے سے بھی موجود تھا اور سیارچوں کے گرنے سے بھی آیا۔ وجہ جو بھی ہو ایک بات تو طے ہے کہ آج جو پانی ہم اور آپ پیتے اور استعمال کرتے ہیں یہ زمین کی عمر یعنی 4.5 ارب سال سے بھی پرانا پانی ہے۔
مگر ٹھہریے کیا پانی صرف زمین پر ہے ؟
نہیں !! آج ہم جانتے ہیں کہ پانی نظامِ شمسی میں کئی جگہوں ہر پایا جاتا ہے۔ جیسے مریخ کے جنوبی قطب پر یا چاند کی چٹانوں میں یا مشتری کے چاند یوروپا کی برفیلی تہہ کے نیچے سمندروں میں۔
مگر کیا بارش صرف زمین پر ہوتی ہے؟
بارش دوسرے سیاروں پر بھی ہوتی ہے۔ مگر پانی کی نہیں۔ سیارہ زہرہ جو نظامِ شسمی کا دوسرا سیارہ ہے، اس پر گندھگ کے تیزاب کی بارش ہوتی ہے۔اسی طرح سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ نیپچون اور یورینس پر ہیرے برستے ہیں۔
مگر کیا اس کائنات میں کسی اور سیارے پر پانی کی بارش بھی ہوتی ہے؟ بالکل زمین کی طرح؟
شاید!!
لیکن کہاں؟
2015 میں زمین سے 110 نوری سال کے فاصلے پر ماہرینِ فلکیات کو خلا میں موجود ناسا کی کیپلر ٹیلسکوپ کے حاصل کردی ڈیٹا کی چھان بین پر ایک سیارہ ملا۔
یہ سیارہ زمین جیسا تھا، ایک چٹانی سیارہ ۔ یعنی وہ سیارہ جسکی ٹھوس سطح بھی ہو، گیس جائنٹ نہیں جیسے کہ مشتری یا نیپچون ہیں جو مکمل گیس سے بنے ہیں اور اُنکی کوئی ٹھوس سطح نہیں۔ اس سیارے کو نام دیا گیا K2-18b۔
جس طرح زمین سورج کے گرد گھومتی ہے بالکل ویسے ہی یہ سیارہ بھی اپنے ستارے کے گرد چکر کاٹتا یے۔ اس سیارے پر پڑنے والی اسکے ستارے کی روشنی ، کم و بیش اُتنی ہی ہے جتنی زمین پر سورج سے پڑتی ہے۔
اس سیارے کی فضا کا حساس سائنسی آلات جیسے کہ سپیکٹرومیٹر سے جائزہ لینے پر یہ معلوم ہوا ہے کہ یہاں پانی کے بخارات ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ بخارات دراصل پانی کے بادل ہیں جن سے ممکنہ طور پر سیارے پر بارش ہوتی ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہماری زمین پر پانی برستا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ممکن ہے یہاں بھی زندگی ہو۔ اور کیا پتہ ادھر بی اس وقت سیلاب کی سی صورتحال ہو۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...