کیا تماشا ہے؛ قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئی
نور نبی ایک اور "مسنگ پرسن"
جون 2017 میں نور نبی اس وقت گرفتار گرفتار ہوا جب وہ اکاڑہ ضلع کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے گیا تھا
وہ اوکاڑہ ملٹری فارمز کی یونین کونسل چک 4/4L کا چیرمین منتخب ہوا تھا۔
اس کے خلاف سات مقدمات درج کئے گئے تھے۔ پچھلے ھفتے ساتوں مقدمات میں ضمانتوں کے منظور ہونے کے بعد اس کے مچلکے داخل کرائے گئے تو جیل کے باھر اسکی فیملی اس کے انتظار میں تھی۔ وہ باھر نہ آیا
معلوم ہوا کہ اسے کوئی انٹیلیجنس ایجنسی والے اندر سے ہی پکڑ کر لے گئے ہیں۔
ایسا ہی ایک اور مزارع راھنما ندیم اشرف کے ساتھ ہوا تھا۔ اندر سے ہی گرفتاری کے بعد ایک اور نیا مقدمہ ندیم اشرف کے خلاف ڈال دیا گیا تھا۔
مگر نور نبی کو کسی عدالت میں جب پیش نہ کیا گیا تو ہمارے وکیل ملک ظفر اقبال کھوکھر عدالت میں چلے گئے اور جج صاحب نے حکم دیا کہ ڈی پی او اوکاڑہ پیش ہو کر بتائیں کہ نور نبی کہاں ہے۔ کل 27 دسمبر کو ڈسٹرکٹ پولیس افیسر نے عدالت میں آ کر کہا کہ نور نبی ھمارے پاس نہیں۔
کیا عجیب تماشا ہے؛ انجمن مزارعین پنجاب کے راھنماؤں بارے سر عام جھوٹ پر جھوٹ، جھوٹے مقدمات کی بھرمار اور اب جیل سے بندہ باھر نہیں آیا اور کسی حکومتی اھلکار کو علم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔
اس سے زیادہ قانون سے اور کیامذاق ہو سکتا ہے؟
نور نبی ایک وکیل ہیں، مہر عبدالستار کی گرفتاری کے بعد وہ انجمنن مزارعین پنجاب کے قائم مقام جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے تھے اور اوکاڑہ ملٹری فارمز کی زمینوں کے حق ملکیت کا مطالبہ کرتے تھے
نور نبی انہیں حکومتی اداروں کے پاس ہے جو سیکورٹی ادارے کہلاتے ہیں مگر اب کوئی مان نہیں رھا۔
ایک اور گمشدہ فرد؛ جو کسی بازار سے نہیں گھر سے نہیں، جیل کے اندر سے اٹھایا گیا اور انُکی دیدہ دلیری دیکھیں کہ کہتے ہیں ھمارے پاس نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔