نظم کی صنف میں نور محمّد نور کپور تھلوی موجودہ دور کے اہم شعراء کی صف میں شمار کیے جاتے ہیں ،انہوں نے فیض کی طرز کو اپنانے کی سعئ کی ہے ۔ اردو نظم کے ارتقائی پس منظر میں جب ہم نور محمّد نور کپور تھلوی کی نظم کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ نور محمّد نور کپور تھلوی نے زندگی کی ہر حقیقت،ہر کیفیت، ہر پہلو کا نظر غائر مطالعہ کرکے نظم کے موضوع کو وسعت دی ہے۔یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نور محمّد نور کپور تھلوی کی شعری کائنات کا تصور Social Content کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا ۔۔نور محمّد نور کپور تھلوی کا شعری وژن ان کے دور کی معاشرتی ،سیاسی اور اخلاقی و اقتصادی اقدار کے ساتھ اس قدر ہم آہنگ ہے کہ بغیر ان حوالوں کے وہ لفظی پیکر یا شعری ہیت میں ڈھلتا ہی نہیں ۔۔اس میں شک نہیں کہ یہ وژن زندگی کا سب سے بڑا حوالہ ہے لیکن زندگی میں پہلی ہی انارکی ،انتشار اور ناہمواریاں ایسے حوالے ہیں کہ نور محمّد نور کپور تھلوی کا شعری بیان ان سے صرف نظر کر سکے ۔نور محمّد نور کپور تھلوی اپنے مزاج ، نقطہ نظر اور رنگ طبیعت کے اعتبار سے ایک ترقی پسند ، حساس اور ہمدرد فنکار ہے ۔ظلم ،جبر و استحصال ،تخریب کاری، آمریت اور ناانصافی کے خلاف ان کی آواز تو کسی طرح دبایا نہیں جا سکتا ۔۔نور محمّد نور کپور تھلوی کے ہاں ہیئت کے متنوعات ، تجربات علامات کے خوبصورت استعمال اور تلازمات کے پھیلاؤ سے نظم کا جو آہنگ جدید طرز احساس ترتیب پاتا ہے ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نور محمّد نور کپور تھلوی کی نظم میں اردو کی روایت کار جاؤ ،جذبہ فکر ،داخلیت پسندی اور خارجی اہل کی شباہت کے ساتھ سامنے آیا ہے ۔۔سارا شگفتہ کی موت پر جوش بھرے جذبے سے لکھتے ہیں۔
شرمندہ جس کے لمس سے تھے دیبا و حریر
افسوس ہر مرگ ؤ جا کر کہاں پڑی
سارہ تیرا وجود تھا پھولوں کا امتزاج
وہ شاخ خشک ہو گی جو تھی ہری بھری
نور محمّد نور کپور تھلوی ایک حساس انسان کی حیثیت سے ان منفی اقدار اور رجحانات کی کی ٹیسوں کو محسوس کرتے ہیں اور ان سے کبھی سمجھؤتہ نہیں کر سکتے۔۔انہوں نے ہر دور میں انسان دوستی، محبت ،خلوص، رواداری، احترام حسن، خیر، نیکی،روا داری کی مثبت اقدار کا ساتھ دیا ہے ۔اور انہیں بڑھانے اور عام کرنے کی کوشش کی ہے ۔لیڈری چمکا کر یا مصلح بن کر نہیں بلکہ شاعر کی حیثیت سے نرم نازک زبان کے ذریعہ سے حسن اور خوبصورتی کے حوالے سے۔۔ یہی ان کی زندگی اور یہی ان کے فن کا آدرش ہے ۔۔
¢ فیض رکھتا تھا نگاہ دور بین
وہ حقیقت میں تھا فرزند زمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم بیاد فیض کا ایک شعر اور دیکھیں ۔
کون اب مزدور کو بہلائے گا
زخم اس کے کون اب سہلائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بھی نور محمّد نور کپور تھلوی کا کلام پڑھتے ہیں ، میرے سامنے ایک ایسے بزرگ و برتر کے ہیں جو ذہین ہے مگر اپنی ذہانت کے ہاتھوں اس میں مبتلا ہے کہ وہ آخری صداقت تک پہنچنے کے لئے اتنے بہت سے راستوں میں سے کون سا راستہ اختیار کرے ۔اطمینان کی بات یہ ہے کہ ان کا یہ کرب انھیں مضمحل نہیں کر ڈالتا ،بلکہ یہ تخلیق کرب ہے ۔۔انھوں نے اپنے اس گروہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ اس کی مدد سے وہ اپنے اندر کرید اور جستجو کی قوتوں کو بیدار کر رہا ہے ۔اس راہ میں جتنی بھی اشیاء ، اقدار اور روایات سے اس کا سابقہ پڑتا ہے ،انہیں وہ اپنی ذہانت سے جانچتا پرکھتا اور کھنگالتا ہے۔بعض صورتوں میں عملِ جراحی بھی کر ڈالتا ہے ۔یوں ذہن کی ہست و دو میں اس پر جو کچھ منکشف ہوتا ہے اس کا اظہار اپنی نظموں کی صورت میں کر دیتا ہے ۔نظم مرشد کا یہ شعر دیکھیں کیسے بلند آہنگ اور حیات افروز ہیں ۔۔
€ ہوتی ہے اکثر گناہوں پر ندامت کی یہ آگ
ہو سکے تو سب گناہوں سے ہمیشہ دور بھاگ
زندگی کے بارے میں نور محمّد نور کپور تھلوی کا نقطہ نظر بڑا رجائی اور حوصلہ افزا ہے ۔صورتحال کی زوال آمادگی معاشرے میں چھای ہوئی خود غرضی مایوسی اور استحصالی قوتوں کی یلغار بھی انہیں نا امید نہیں کرتی ۔وہ امیدو پیہم کی کشمکش میں ہمیشہ امید کا ساتھ دیتے ہیں ۔۔یہی وجہ ہے کہ نور محمّد نور کپور تھلوی کی شاعری میں مایوسی و اداسی ، جھنجھلاہٹ اورنا امید کی فضا نہیں بلکہ امید، امنگ اور حوصلہ کا رنگ ہے ۔ان کے یہاں انکساری ضرور ہے اور یہ ان کی شخصیت کا اعجاز ہے۔۔ ۔جنت دوزخ کا تمثیلی رنگ کتنا خوبصورت ہے ۔
جنت و دوزخ وقت ہے ایک تمثیلی بیاں
عارفوں پہ یہ حقیقت ہے ازل سے ہی عیاں
نور محمّد نور کپور تھلوی ان شاعروں میں سے ہیں جن میں مابعدالطبیعاتی نظام فکر نہ سہی رویہ ضرور دیکھا جا سکتا ہے ۔۔ان کی نظمیں انسان کے بنیادی مسائل پر بڑے عمیق سوال اٹھاتی ہیں۔ایسے سوال بھی جو صدیوں سے اٹھائی جا رہے ہیں ۔اور ایسے سوال بھی جنہیں ہم آج ہی کے سوال کہہ سکتے ہیں ۔۔نور محمّد نور کپور تھلوی ایک ایسے ماحول، ایک ایسے نظام کا قیام چاہتے ہیں جس میں محبت کی حکمرانی ہو ،مساوات کا بھرتا ہوں ،انسانیت کی سربلندی ہو ،یہاں نئے مرحلے اور نیو ستی ہوں ،درج ذیل اشعار اس خواہش کا اظہار ہیں ۔۔
تم فقہ کے غلام ہو کر ان کو چھوڑ کر
منزل پہ کیسے پہنچوں گے منہ سے موڑ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی نظم کا ایک شعر اور دیکھیں ۔
واعظ نے تم کو جادہ حق سے ہٹادیا
حنفی وہابی شیعہ و سنی بنا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی کی شاعری وقت کے دریا میں ہمیشگی کا رواں دواں ایک لمحہ ہے جو بار بار اپنے وجود پر شک بھی کرتا ہے ۔اور اپنا اثبات بھی کرتا چلا جارہا ہے۔چنانچہ ان کے ہاں دبدبے کی کیفیت باربار ابھرتی ہے ۔۔" دنیا ایک سرائے "کا یہ خوبصورت بند ملاحظہ کریں ۔۔
اس کی جنت کونا کونا
جس کے پاس ہے چاندی سونا
بڑا کسی کو عمر کا رونا
کوئی خوشی سے گائے بابا
نور محمّد نور کپور تھلوی کا پیکر تراشی کے حوالے سے غالب رجحان دیکھنا ہو تو ان کی نظمیں دیکھیں ۔ان کی نظموں میں" دنیا ایک سرائے" ایک نظم ہے ،اس کا لہجہ بے حد حزنیہ اور انداز نور محمّد نور کپور تھلوی کی شگفتہ طبیعت سے مختلف ہے ۔ان کے ہاں تمثال شعری قریب کے حوالے سے ماخوذ ہوتی ہے۔ایک سچا اور خراب تجربہ دو احساساتی سطح پر ابھرتا اور ہماری ذات میں تحلیل ہو جاتا ہے ،پوری نظم میں ایک قسم کا تمثیلی رنگ قائم رکھا گیا ہے۔
نہ جاگ میرا نہ جگ تیا
جوگی والا سب کا پھیرا
دنیا ایک رین بسیرا
اک آئے اک جائے بابا
دنیا ایک سرائے بابا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی کے یہاں صوتی آہنگ خاص طور پر قابل لحاظ ہے اور قطع۔ نظر معنوی خوبیوں کے محض صوتی آہنگ کے اعتبار سے بھی فنکارانہ ہیں ۔اس بند میں " غم کھانا " محاورہ کس خوبصورتی سے نبھایا ہے ۔۔" دنیا اک سراے " یہ اگلا بند دیکھیں جس میں دکھ سکھ اور آنا جانا تو زندگی اور موت کی طرف اشارہ ہے
€ دکھ اور سکھ کا ساتھ پرانا
مورکھ اس پہ کیا غم کھانا
لگا رہے گا آنا جانا
تو کیوں نیر بھاۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی کے یہاں استعارہ اس کشف ذات کا حوالہ ہی نہیں بنتا ، ہماری ذوقی اور واجدانی حس کو متحرک کر دینے کے ساتھ فکریاتی اور محسوساتی سطح پر بھی ہلچل پیدا کر دیتا ہے ۔اس طرح ایک داخلی تجربہ بھی معروضیت کا روپ دھار لیتا ہے ۔۔اور شاعری کے content میں قطعیت کا رنگ بھر دیتا ہے ۔۔گویا ایک انفرادی شعری تجربہ اجتماعی لا شعور کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے ۔۔نظم کی داخلیت میں یہ معروضیت نور محمّد نور کپور تھلوی کا خاص رنگ ہے ۔۔
ان نظموں میں ان کا رجائی لہجہ ان کے شاعر امید اور روشن خیال ہونے کا پتہ دیتا ہے ۔۔وہ کسی بھی مقام پر مایوس یا نا امید ہوتا بلکہ ابتر صورت حال سے بھی نہیں گھبراتے ۔۔۔۔وہ نظم " نظام خانقاہی " میں بڑے دبنگ لہجے میں کہتے ہیں ۔۔
نظام خانقاہی نے بنایا قوم کو کاہل
سفینہ قوم کا ہے آج بھی متلاشی ساحل
مریدوں کی کمائی پر بلا شک شیخ ہے پلتا
مرید با صفا مایوس ہو کر ہاتھ ہے ملتا
نظم ایک داخلی تجربہ ہے جس کا تسلسل شاعر کے کسی نفسی گرداب کے مرکز کا محیط ہے ۔۔نفسی گرداب جو شاعر کے شخصی کلچر کی شماریاتی اکائی ہے ، جس کی پرکھ ایما و اخفا و ابہام کی سایکی کو گمان کی منزلوں سے نکال کر تعارف اور اثبات کے منظر نامے تک کھینچ لاتی ہے ۔۔نظم " رقص" کا یہ شعر دیکھیں ۔۔
€ کوئی لچر پن تو اس میں سرے سے نابود ہے
ایک مترنم روانی ندی کی موجود ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی نظم کا دوسرا شعر دیکھیں :
رقص ہو گا محفلوں میں اور بجیں گے گھنگھرو
کار آزادی میں انساں تب ہی ہو گا سر خرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی خارجی اور اجتماعی صداقتوں کے ایک حقیقت پسند شاعر ہیں ، وہ اپنی نظموں میں وسیلے سے دور حاضر میں ہر جانب پھیلے ہوۓ غربت و لاچار ، ظلم و استحصال ،خاک و خون میں لتھرے ہوۓ لاشوں ، ٹوٹے ہوۓ عصاے پیری ، تڑپتے ہوۓ جسموں ، زنجیروں کی جھنکار اور لسانی تعصبات کے دسے ہوۓ مناظر ، یا یوں کہے کہ عہد حاضر کے جہنم کی چھلکیاں ہماری بصارت و بصیرت کے سامنے بکھیرتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔نظم " عرض حال "میں افراتفری کا عالم ملتا ہے ۔۔
€ یہ دھماکے گولیاں اور گاڑیوں کے حادثے
لٹ لٹا کے ہر طرف بے آسروں کے قافلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم " عرض حال " کا یہ شعر دیکھیں :
وعدہ جنت تو ہمیشہ لاتا ہے رنج و محن
داڑھی اور دستار کے پردے میں تخریبی ذہن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی نظم کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں :
€ پر یہاں آئی نہیں اب تلک اتنی تمیز ڈاکوؤں کو رہنمائے قوم رکھتے ہیں عزیز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمد نور کپور تھلوی ان شعراء کی صف میں ہیں جو اپنے سینے میں درد دل رکھتے ہیں اور غمِ جاناں سے آگے بڑھ کر غم انسان کی بات کرتے ہیں ۔۔ایسی لوگ اپنی ذات کے خول میں بند نہیں رہتے بلکہ اپنی ذات کا ایک آئینہ بنا کر اس میں حیات و کائنات کے مظاہر دیکھتے ہیں ۔ان کے باطل کا ایک محکم ربط خارجی احوال مسائل سے رہتا ہے اور وہ کائنات کے اندر بکھرے ہوئے سارے آشوب، سارے دکھ اور سارے کرب سمیٹ کر اپنی ذات میں اس لیے جذب کر لیتے ہیں کہ انہیں باطن کی تجربہ گاہ میں باز آفریدن کے فنی عمل سے گزاریں اور ایسے اشعار ایسی نظموں کو تخلیق کریں جو روح عصر کی آئینہ دار ہوں ۔۔نظم " فحاشی " میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے نور محمّد نور کپور تھلوی کہتے ہیں کہ برہنہ چہروں سے اگر ایمان کو خطرہ ہوتا تو اللہ انسان کو کبھی دنیا میں ننگا نہ بھیجتا ۔۔
گر برہنہ چہروں سے ہوتا خطرہ ایمان کو
تو خدا کیوں بھیجتا ننگا یہاں انسان کو
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نظم میں ہوس کی وحشت کا رنگ دیکھیں :
€ ننگا ہونا کچھ بدن تو قابل نفرت نہیں
دیکھنے والوں میں گر ہوس کی وحشت نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان نظموں کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے ہاں جذبات محض جذباتی تک محدود نہیں جسے کھوکھلے نعرے سے زیادہ برکت نہیں ہوتی اور ایک کھوکھلا نعرہ بہت کی آواز تو کہلاتا ہے جو صرف سیاسی شعور کی ترجمانی کرتا ہے مگر وہ وقت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور فضا میں تحلیل ہو کر اپنا وجود اور سماعتی قوت کو بیٹھتا ہے ۔۔اس کی حیثیت ایک طوفانی نالہ سے بھی شاید کم ہوتی ہے مگر نور محمّد نور کپور تھلوی کے ہاں ایسی صورت نہیں ۔۔ان کے جذبات میں احساسات کی شدت شامل ہے جسے دل کی آواز اور شعور کی پیداوار کہا جا سکتا ہے ، جس کی تعمیر میں مشاہدات اور تجربات کے باوصف حقائق اور روزمرہ کے واقعات پوری طرح سمو دیے گئے ہیں ۔۔نظم " احساس " کے یہ شعر دیکھیں :
جب کبھی بجلی کئی گھنٹوں تلک آتی نہیں
اس وطن کی پھر سکونت ہی ہمیں بھاتی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اس نظم کا دکھ اور کرب کے اظہار میں ڈوبا ہوا یہ شعر ملاحظہ کریں :
€ نہر کا پانی نہیں ملتا زمینوں کے لیے
پینے کا پانی عنقا ہوا مسکینوں کے لیے
۔۔۔۔۔۔
دراصل نور محمّد نور کپور تھلوی کچھ اس انداز سے نظمی کہہ رہے ہیں کہ انسانی جذبات و احساسات کی کتنی ہی سچی اور گہری تصویریں تیار ہو گئی ہیں ۔۔معاشرتی اور نفسیاتی معموں کے کتنے ہی پیچ و خم کھل گئے ہیں ۔۔ایک یاد سے دوسری یاد کا دریچہ وا ہو گیا ہے ایک نقطے سے دوسرے نقطے نے جنم لیا ہے ۔۔آفاقی صداقتیں افشاں ہوتی ہیں اور یوں عبرت اور بصیرت کے کتنے ہی دروازے کھلے ہیں جس سے اس کی شاعری کو نئی جہت اور نئے زاویے ملے ہیں ۔۔نظم " احساس " کا یہ شعر ملاحظہ کریں :
€حادثے ہوتے ہیں سڑکوں پر روزانہ بے شمار
طبقہ عمرہ کے بچے بھی لیے پھرتے ہیں کار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو کرپشن ہمارے معاشرے میں بے حسی کی طرح پھیل گئی ہے مگر پولیس کی کرپشن ، اللہ اللہ !
€ گر نہ دو پولیس کو دس بیس تم سو سو کے نوٹ
دھر لیا جاتا ہے جو کرتا ہے تھانے رپوٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید تخلیق کار کے ساتھ اپنے معاشرے کا نماز بھی ہوتا ہے اور سچی لکھ تو وہی ہے جس میں وہ اپنے جذبات و احساسات اور مشاہدات کو اپنی کاوشوں کے پیکر میں اس طرح ڈالتا ہے کہ پڑھنے والا، سننے والا اس میں اپنا درد محسوس کرنے لگتا ہے ۔۔نور محمّد نور کپور تھلوی کا قلم زندہ و جاوید ہے جو کہ اپنی دھرتی کی خزاں اور بہار کے نقوش اولین صحیفوں کی شکل میں ہم تک پہنچا رہا ہے وہ حساس اور ذہین شخصیت ہیں ۔نظم " بہادر قوم "کے یہ شعر دیکھیں :
€ مٹ جانا زمانے سے نہیں اس کا مقدر
یہ قوم پھولے گی پائندہ رہے گی
ہے نور کو امید کہ تار روز قیامت اتحاد کو گر چھوڑا تو شرمندہ رہے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی اپنی ہر کیفیت کا اظہار کچھ اس لہجے میں کرتا ہے کہ عیسائیوں کے آئینے میں منافقتیں مصلوب ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں اور اسے اپنی شناخت اور پہچان کے سیاق و سباق میں اپنے اصلی خدوخال کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا ہے کہ زمین پر کھڑا ہے اور کس معاشرے میں زندہ ہے اور یقینا یہی ادراک حقیقت ،یہی احساس کسی بڑی شاعری کی تخلیق کا باعث بنتا ہے اور اسی حوالے سے اس کی شاعری بڑی شاعری ہے کہ وہ وقت کے ہر دھارے پر ہر زمانے میں زندہ رہنے والی شاعری ہے اور یہ بات سوچنے کی نہیں ،محسوس کرنے کی ہے اور یقینا محسوسات کے بطن سے ہی بڑی شاعری جنم لیتی ہے۔
نظم " آرزوۓ ناتمام "میں سماجی مسائل منہ اٹھائے ہوئے ہیں :
سڑک پر ٹائر جلائے اور نکالو ایک جلوس
واضع ہو گا کہ حکومت پر تمہارا پھر خلوص
۔۔۔۔۔۔۔
اس نظم میں جلوس میں لوگوں کی توڑ پھوڑ اور من مانی کا ذکر کیا گیا ہے۔۔
آگ بھرکاؤ دکانوں کے بھی شیشے توڑ دو
پھر حکومت کو جدھر چاہو تم موڑ دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی کے ہاں شوخی اور جان دار سچے حسن کی لگاوٹ نے مضامین کی تپش کو ایسا پوشیدہ کیا کہ بازاری اور بھونڈا پن بالکل نظر نہیں آتا ۔۔کہنے لفظوں کی نئی ترکیبوں اور نئے مرکبات و معانی کو استعمال کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ بہت قابل قدر ہے ۔۔نظم افلاطونی محبت میں بندے سے بندے کی چاہت کا ذکر ہے کہ معاشرے میں ڈاکہ زنی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو سکتا ہے مگر پیار کرنا آفت ہو گئی ہے ۔۔
کیا بگڑتا ہے زمانے کا اگر
بندے سے بندے کو چاہت ہوگئی
قتل و خوں ڈاکہ زنی چوری معاف پیار کرنا ایک آفت ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی کا پیکر تراشی کے حوالے سے غالب رجحان دیکھنا ہو تو ان کی اخلاقی نظمیں دیکھیں ان کی نظموں میں ان کا لہجہ بے حد حزنیہ اور انداز شگفتہ طبیعت سے مختلف ہے ۔پوری شاعری میں ایک قسم کا تمثیلی رنگ قائم رکھا گیا ہے ۔۔
فربہی مائل جسم ہوتے ہیں کیوں حضرات کے
کو یہ رہنے والے لائلپور کے یا گجرات کے
۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی کہتے ہیں کہ یہ مسجديں نہیں یہ تو مولوی کی جاگیریں ہیں۔
مسجدوں کو سمجھتے ہیں مولوی جاگیر سب
ہوتی جاتی ہیں مساجد ہر جگہ تعمیر سب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی نظم کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں :
چھ سپیکر باندھ کر مسجد کے ہر مینار پر
شور سے ہمسائی کو دیتے چڑھائیں دار پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی کی شاعری ان قیود و رسوم سے آزاد ہے جو جدید شاعری کے لئے وضع کی گئی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام عصر اصلاح کے کسی شاعر سے نہیں ملتا ۔۔نور محمّد نور کپور تھلوی جتنی بھی شاعری کی ہے بے حد تیز سادہ اور عام فہم زبان میں ہیں نور محمّد نور کپور تھلوی نہیں جتنی بھی شاعری کی ہے بے حد سلیس سادہ اور عام فہم ہے لیکن شعریت سے بھرپور ہے ،۔ان کی نظموں کے موضوعات اسلامی، مذہبی اور جدوجہد آزادی مجاہدین ہیں ۔۔انا شاعری ہمارے دماغ کے بجائے دل کو متاثر کرکے ہمارے جذبات و احساسات میں ہلچل پیدا کرتی ہے اور ان کی شاعری اپنے اندر حقیقی رنگ لیے ہوئے ہوتی ہے آج کے لیڈر غریبوں کی بات کرتے ہیں مگر مسائل سے آگاہ نہیں ہیں کہ بھوک افلاس کیا ہے؟
جو لیڈر ہے کرتا غریبوں کی باتیں کبھی اس نے بھوکے گزاری ہے راتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی ان لیڈروں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لیڈر کسان کے مسائل کیا جانیں :
€ کبھی اس نے کھیتوں میں پانی لگایا نہ ہتھی پکڑ کر کبھی ہل چلایا
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب لیڈروں کی بات آتی ہے تو وہ فخر سے یہ بات کہتے ہیں کہ ہمارے لیڈر تو مولانا حسرت موہانی تھے _ ہمارے لیڈر حضرت ابوذر غفاری تھے
۔۔
اصل میں تو لیڈر تھا حسرت موہانی ہیں کیا ان میں بھی کوئی حضرت کا ثانی
ہے کیا ان میں کوئی ابوذر غفاری
خزانوں پر جنہوں نے تھی لات ماری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
کہا تھا کہ دولت برائی کی ماں ہے محمد کے دین کی فقر محض جاں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی کا مشاہدہ بڑا تیز اور وہ جزئیات نگاری میں کمال رکھتے ہیں اپنے تخیّل کے ذریعے معمولی موضوعات میں بھی آسان اور کمال پیدا کر دیتے ہیں ان کا سلوک لہجہ اور طرزِ احساس منفرد ہے انہوں نے نظم میں اختصار اور کفایت لفظی کو بروئے کار لا کر شدت پیدا کی ہے اور خیال کی وحدت کو غیرضروری لفظیات میں بکھرنے سے بچایا ہے ۔۔ان کی نظم " لیڈر " کے یہ اشعار ملاحظہ کریں:
کروڑوں کے رشوت میں کرتے ہیں سودا
مگر لیتے ہیں اپنا من چاہا عہدہ
لگا کر سیاست میں ان گنت پیسہ
بنا ہے انہوں نے یہاں جال ایسا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی جمہور اور جمہوریت کا حال دیکھ کر کہتے ہیں کہ اللہ سے دعا مانگیں کہ وطن پاکستان قائم دائم رہے ۔
نکلتا ہے جمہور کا اس سے مشکل نظر آئے مقصد نہ اب کوئی منزل
چلو نور مل کر دعا مانگیں سارے رہے ملک چلتا خدا کے سہارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی نے غزلیں بھی لکھی ہیں اور ان میں بھی ان کا خاص انداز ہے لیکن ان کا کمال ایسی نظموں میں کھلتا ہے یہاں انہوں نے زندگی کے عام مسائل کا جائزہ لیا ہے۔۔نور محمّد نور کپور تھلوی خود زندگی کی اس جدوجہد میں ایک عام انسان کی طرح شریک ہوئے اس لیے یہ مضامین میں تخیل کی پیداوار یا ساحل سے تماشہ دیکھنے والے کے جذبات نہیں ہیں پھر ان میں استعارے یا کنایہ کے بیچ نہیں ہیں ہر بات صاف صاف بیان کی ہے۔۔"دین ملا فی سبیل اللہ " کا یہ بند دیکھیں "
فرقہ بندی میں بڑا ہوشیار ہے جھگڑے میں تیز ہیں طرار ہے
دین کی روح کو نہ سمجھا کم سواد دین ملا فی سبیل اللہ فساد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان نظموں کے بعد نور محمّد نور کپور تھلوی کی ان نظموں کو دیکھئے جن کا موضوع تو یہی ہے لیکن انداز مختلف ہے نور محمّد نور کپور تھلوی کے کلام میں خوش طبعی ،خوش باشی ایک بنیادی عنصر ہے ایسی معاشی تنگ حالی میں بھی وہ فقرے بازی اور پھبتی سے نہیں چوکتے۔۔۔انداز بیاں ایسا مضمحک اختیار کرتے ہیں کہ انسان چند لمحوں کے لیے اس موضوع کی تلخی کو بھول کر لور محمّد نور کپور تھلوی کے ساتھ قہقہے لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔۔۔
۔ نور محمّد نور کپور تھلوی انسان پرست بھی ہیں اور جمال پرست بھی ۔۔آشوب زیست کا زخم خوردہ بھی ہے اور کتاب زیست کا قاری بھی ۔۔شعور ذات اور نیز مل کر انہیں ایک ایسا شاعر بنا دیتے ہیں جو لمحے کی پاتال سے ابھر کر لمحے کے اوج پر اپنا قدم جماتا ہے ۔۔اور انسان کو ایک بلند آدرش سے آگاہ کرتا ہے ۔۔کشف دات اور عرفان ذات کی ایک کٹھن منزل کو نور محمّد نور کپور تھلوی نے آسان بنایا ہے اور اجتماعی شعور سے جوڑ کر اپنے فن کا رشتہ زندگی سے قریب کر دیا ہے اور اس طرح انہوں نے ایک عظیم تر مقصد کو اپنا خون دیا اور یہ خون جگر رائیگاں نہیں جائے گا شعروادب کی دنیا میں ان کے مرنے کے بعد بھی رنگ لا رہا ہے ۔۔۔۔
" ادب اور زندگی " تاجو حسین امتزاج ہمیں نور محمّد نور کپور تھلوی کے ہاں ملتا ہے وہ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے ہم اگر نور محمّد نور کپور تھلوی کی ان نظموں کو دیکھیں جن میں انہوں نے خاص طور پر پیکرتراشی کو سمویا ہے تو یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ نور محمّد نور کپور تھلوی ایک بہت بڑے مصور بھی تھے ۔۔ایک طرف تو یہ ہم ان کو مصور کہہ سکتے ہیں تو دوسری طرف وہ ادب اور زندگی کے نظریہ کے قائل بھی اور اس کے ترجمان اور اس کا پرچار کرنے والے بھی ۔۔۔۔
اک صراحی شیشے کی چھونے ننہ کیوں آگے بڑھیں
مے کے رسیا اب اسے پینے نہ کیوں آگے بڑھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو معاشی کے خلاف ایسے ہی چلاتے رہو
ہم کو ٹی وی پر سرکس دکھلاتے رہو
۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی خود ایک بڑا دل رکھتے ہیں اور اس دل میں کتنے طوفانوں نے سکون پایا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں دعوائے محبت کرنے والے تو بہت ہیں لیکن ضرورت کے وقت کوئی بھی پاس نہیں تھا بلاشبہ نور محمّد نور کپور تھلوی انسانی زندگی کے بدترین واقعے سے محفل سجا تے ہیں وہ ہم جذبوں کے ترجمان ہیں ان کے سیاسی حوالے اور انقلابی موضوعات بالکل نہیں ہیں کیونکہ نہ تو وہ سیاسی آدمی ہی نہ انقلابی ۔۔۔وہ ایک تہذیب یافتہ ،وضعدار معاشرتی انسان ہیں لیکن کبھی کبھی ان کے ہاں بڑے معصوم طریقے سے تلخ نوائی کا جگہ انداز بھی ملتا ہے لیکن اس تلخی میں بھی دھیما پن ہوتا ہے ۔۔۔
کبھی ہاتھ میں اس نے پکڑ یہ یاری کبھی گھر پہ لے کر زمیں ہے سواری کبھی وہ کسی کی مصیبت میں رویا کبھی تپتی چھت کے نیچے وہ سویا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی کی شاعری عصری آشوب اور اپنے عہد کے آلام و مسائل کی ترجمانی کرتی ہے وہ اپنے ریزہ ریزہ خواب چن کر ان سے تعبیر کے نقوش ابھارنا چاہتے ہیں ۔۔وہ انسان کے قرب کے درد سے چھٹکارا لفظ سے راحت وی آسودگی کے ستاروں کو تشکیل دینے کے آرزومند ہیں ۔۔ان کے دست عزم میں حسرت تعمیر کا ملبہ ہے ۔۔۔وہ اس ملبے سے کام کے سنگ و خشت الگ کرکے معاشرے کا ایک ایسا گھروندہ تعمیر کرنے کی سعی میں مصروف ہیں جن کی بنیاد میں دیوار دیوار میں حسن خیل اور صداقت کی نقش گری ہو ۔۔۔
وہی رات ہو گی وہی چاند تارے
رہیں گے بدستور دکھ سکھ ہمارے
۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی کی نظموں کی نغمگی اور روانی حسن الفاظ اور حسن معنی گل مل کر پڑھنے والے پر ایک گہرا تاثر چھوڑتے ہیں نور محمّد نور کپور تھلوی کی شاعری میں ایک نیا ذائقہ ایک نیت اور ایک نیا انداز دکھائی دیتا ہے۔۔ نور محمّد نور کپور تھلوی کی نظموں کو پڑھ کر ہر بار ایک نیا لطف حاصل ہوتا ہے ۔۔ایک ایسے دور میں جب انسان کے بارے میں مایوسی کے رویہ پیدا ہوئے ہیں نور محمّد نور کپور تھلوی کی نظمیں انسان کے زندہ رہنے کا جواز بنتی ہیں اور شعری ماحول کو تخلیق کرتی ہیں جس سے گزرتے ہوئے انسان کو زندہ ہونے کا احساس ملتا ہے۔۔ان نظموں کا فکری اور شعری لہجہ ہمارے عہد کو اس کی اصل پہچان فراہم کرتا ہے ۔۔مرد اور عورت ایک ہی جنس کے دو افراد ہیں لیکن تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت سے ایسا سلوک کیا گیا کہ وہ انسان کی جنس کے علاوہ کوئی دوسری جنس معلوم ہونے لگی تو سے بھی بدتر سلوک روا رکھا گیا مرد اور عورت کے درمیان باہمی فریقین اتنی گہری اور وسیع ہے کہ وہ ایک کے دو افراد نہیں ۔۔خدا تعالی نے انسانیت کی رہنمائی کے لئے جو مذاہب نازل کئے ان میں اور مرد کا مرتبہ برابر قرار دیا مگر معاشرے میں رہنے والے اس حیوان نے عورت کا درجہ مرد کے مقابلے میں نہایت پست کردیا اور تمام مصیبتوں کا سرچشمہ اور گناہوں کا منبع عورت کو قرار دیا ۔۔۔اسے ناقص العقل آر دے کر مرد کے تابع کر کے مرد کے ہاتھوں میں کھلونا قرار دیا گیا۔۔۔نور محمّد نور کپور تھلوی نے اپنی ایک طویل نظم ف**** میں عورت کی انفرادیت مقام اور حقوق کو ایک ایک شعر سے جس طرح اجاگر کیا ہے وہ اس طرح کا ایک جری تخلیق کار ہی کر سکتا ہے ۔۔بلاشبہ صفات ظالموں میں نور محمّد نور کپور تھلوی کا وجود ستارہ سحر کی مانند ہے ۔۔۔۔۔۔ان کی دوسری نظموں کی طرح یہ نظم بھی دلوں کو نیا ولولہ عطا کرتی ہے ۔۔حوصلے اور امید کا دامن تھام کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کی راہ دکھاتی ہے ۔۔۔معاشرے میں عورت بحیثیت ماں بہن بیٹی اور بیوی کے مختلف حثیتوں سےاپنی پہچان رکھتی ہے ۔۔ہمارے معاشرے میں عورتوں پر بے جا تنقید کرنے کا سلسلہ روز اول سے ہی جاری ہے ۔۔۔ایسی عورتیں جو معاشی مجبوریوں کی وجہ سے خود سینہ سفر ہو کر میدان عمل میں آتی ہیں ۔۔ہمیں ان کے روز سب کو دیکھنا ہوگا کہ کہ وہ کون سے محرکات ہیں جو عورت کو سڑکوں پر کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔۔
کھیتوں اور کھلیانوں میں مردوں کے شانہ بشانہ مشقت کرتے ہوئے نہ تو جسم اپنی زندگی کے دن پورے کرنے پر کیوں مجبور ہیں ۔۔ایسے میں نام نہاد ملاؤں نے ان کی بے پردگی پر جب بے جا الزام لگایا تو باضمیر اور درد دل رکھنے والے قلم کار چیخ اٹھے ۔۔اور اپنے قلم سے ایسی سفاک سماج کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔نور محمّد نور کپور تھلوی نہیں سفاک ظلمتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے خامہ فرسائی کی ۔۔نظم " فحاشی " کا ہر شعر قابل داد اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا دکھائی دے رہا ہے نظم فحشی سے چند ملاحظہ کریں ۔۔
ایک بولنا کل جمعہ میں کہہ رہا تھا زور سے
کان کا پردہ پڑھا جاتا تھا اس کے شور سے
فرط جذبہ سے رہی قابو میں نہ اس کی زبان
کر رہا تھا جب فحاشی کے نتائج کا اعلاں
کہہ رہا تھا بند کردو سب فحاشی حاکموں
ورنہ چھوڑ دو یہ حکومت تم اے راشی حاکموں
عورتیں پھرتی ہیں اب سر کھول کر بازار میں
ان کو اور عہدے دے رہے ہو تم اپنی سرکار میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی نے اپنی ترقی پسندانہ سوچ کے ذریعے افراد کی زندگی کے مسائل کو حقیقی شعور سے متمتع کرنے کی سعی کی ہے کیونکہ پوری انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کے لاشعور میں رچ بس گئی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“