میرا نام نور محمد ہے، میں اپنے باپ کی دوسری نرینہ اولاد تھا ۔میں 1951 کی گرمیوں میں تامل ناڈو کے ایک چھوٹے سے گاوں رام ناتھ پورم میں میں پیداہوا۔ میری ماں جب میں پانچ سال کا تھا تو چل بسی۔ ابا نے دوسری شادی کر لی پھر ہمارے بہت ہی برے دن شروع ہو گئے کہ بھلے دن تو کبھی تھے ہی نہیں۔ ابا بہت غصہ کرتا تھا۔ میری یاداشت میں کوئی مسکراتا لہجہ یا بےخوفی کا لمحہ نہیں ۔ ابا دہشت کی علامت تھا۔ اب رہی سہی کسر سوتیلی ماں پوری کر رہی تھی۔ زندگی گھسٹتے اور کھانے کی جگہ لات اور تھپڑ کھاتے آنسو پیتے گزر رہی تھی کہ اچانک لوگوں کی توجہ مجھ پر مرکوز ہو گئی اور میں مذاق بن کر رہ گیا۔ مجھے نہ جانے کیوں لڑکی بننا اچھا لگتا تھا؟ کب میری چال میں لچک، ادا میں مٹک اور لہجے میں چہک در آئی مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ محلے کے لڑکے مجھے چکنا کہنے لگے، کسی نے فاطمہ نام دیا، کسی نے گلابو۔ سچ پوچھیں تو مجھے اپنی یہ شناخت پسند تھی۔ مجھے گھر کے اندر رہنا اچھا لگتا تھا. میں اپنے ننھے ہاتھوں سے رسوئی کے کئی کام نپٹا دیا کرتا، جھاڑو بہارو کرتا۔جوں جوں سوتیلی ماں کی ساڑیوں سے میری الفت بڑھتی گئی توں توں چار چوٹ کی مار کا دورانیہ طویل اور وقفہ مختصر ہوتا گیا۔ یہاں تک کے ابا کے کانوں تک بھی یہ باتیں پہنچ گئیں پھر تو پوچھئے ہی مت کے کیا ہوا۔ ابا کے لئے محلے والوں کے طعنے ناقابل برداشت تھے۔ وہ میرے روم روم سے ان کا بدلہ لیتا۔ میرا جسم نیلو نیل تھا۔ مجھ میں کھڑے ہونے کی سکت نہ ہوتی اور ماں اس کو مکر گردانتی۔ مجھے اب اسکول بھی برا لگنے لگا تھا، کیا لڑکے ،کیا استاد، میں سب کا من پسند تماشہ تھا۔ جس کا جب دل چاہتا جہاں دل چاہتا مجھے ٹٹولتا، چٹکی بھرتا، سچ تو یہ ہے کہ اب زندگی سے نفرت ہو چلی تھی۔ کیا کرتا بہت بے بس تھا۔ زندگی چیز ایسی ہے کہ باوجود ناپسندیدہ اور ناقابل برداشت ہونے کے مرنے کی ہمت نہیں تھی ۔ جونک کی طرح اس بے فائدہ زندگی سے چمٹا ہوا تھا۔
میں ان دنوں تیسری جماعت میں تھا۔ محلے والے اور خاندان والے اب براہ راست ابا کی مردانگی پر حملے کرنے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ابا بے غیرت ہے جو مجھ جیسے ناسور کو اب تک زندہ رہنے دے رہا ہے۔ ابا نامرد ہے۔ اگر وہ ابا کی جگہ ہوتے تو اب تک میرا قصہ پاک کر کے سرخرو ہو چکے ہوتے ۔ مجھے ابا کی آنکھوں میں اپنی موت نظر آنے لگی تھی۔
میری عمر تیرہ سال تھی جب میں نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا ۔ دو لنگی اور دو کرتے یہی میرا کل اثاثہ تھے ۔ یہ لیا اور ماں کے ٹرنک سے 30 روپے چرائے اور مدراس کی ٹرین پکڑ لی۔ مدراس میں میرا کون تھا کوئی بھی نہیں سو دن بھر بھیک مانگتا۔ کبھی در در جا کر اور کبھی مندر اور مسجد کی سیڑھیوں پر۔ یقین کیجئے انسان کہیں نہیں ملا. بس لگتا تھا پورے شہر میں صرف ہانپتے، زبان لپلاپاتے لپکتے بھیڑیے بستے ہیں۔ دو دو دن بغیر کھائے پئیے گزر جاتا۔ بھوک کیا ہوتی ہے صحیح معنوں میں میں نے انہی دنوں میں جانا۔ رات میں ریلوے اسٹیشن پر سوتا کہ رونق کی وجہ سے وہ جگہ قدرے محفوظ تھی۔ رات میں سوتا بھی کب تھا بس چوکنا اونگھ ہوتی تھی ۔ کب کون جھپٹ کے مسل دے گا اس بات کی دہشت سونے بھی نہیں دیتی تھی. ایک مستقل خوف سر پر سوار تھا۔ بھوکا تو ماں بھی رکھتی تھی پر بڑا بھائی چوری چھپے دو چار لقمے اپنے حصے کا کھلا ہی دیتا تھا اور کم از کم اس بے مہر چھت کے نیچے کھسوٹے جانے کا خوف نہیں تھا۔ اب تو لگتا تھا کہ نہگ کے درمیان ایک مچھلی ہوں گویا بتیس دانتوں کے بیچ زبان.
کبھی جی کرتا واپس لوٹ جاوں مگر اب تو واپسی کی ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں تھے۔ ایک دن مجھے اسٹیشن پر ایک ہجڑا ملا یا ملی ؟حلیہ اس کی عورتوں والی تھی اس لئے ملی کہہ لیجئے ۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ پہلی گرفت تھی جس نے میرے جسم میں خوف کا کرنٹ نہیں دوڑایا۔ کہنے لگی میرا نام مدحو بالا ہے میرے ساتھ چل۔ اب یہ اس کی بے لوث گرفت تھی یا میری حالات کے آگے شکست میں نہیں جانتا پر میں بنا چوں چرا کئے اس کے ساتھ ہو لیا۔ تقریبا بس کے ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ایک مفلوک الحال بستی کی اندھی کھولی میں گرو کے آگے پھینک کر بولی، تین دن سے اس چوہیہ کو اسٹیشن پر دیکھ رہی تھی ماں آج دل نہ مانا ساتھ لے آئی ۔ ماں نے کچھ منہ سے تو نہیں پھوٹا پر گہری کھوجتی نظر سے میرا بھرپور جائزہ لیا، پھر مدحو بالا کو کہا کہ منہ ہاتھ دھلوا کے کھانا دے دے۔ مدحو بالا بتاتی ہے کہ میں کھانا کھا کے بےسدھ کامل ڈیڑھ دن سوتا رہا۔ کوئی چار مہینوں کے بعد پہلی بار میں بےخوفی سے محفوظ و مامون سویا تھا۔ تیسرے دن ماں نے پوچھا کہ پھر کیا ارادے ہیں؟ دھندے کے تو دو ہی راستے ہیں
Bar dancer or sex worker.
زمانے نے ان باتوں کا مطلب اچھے سے سمجھا دیا تھا۔ میں ماں کے پیروں سے لپٹ گیا اور کہا ماں کوئی تیسرا راستہ ڈھونڈ، مدحو بالا نے بھی سفارش کی۔ ماں نے کہا اچھا پہلے تو یہ تو فیصلہ کر کہ تو ہے کون؟ تو تو ابھی تک بیچ میں ہی لٹکیلا ہے؟
میں نے کہا ماں میں لڑکی ہو اور مردانے جسم میں قید ہوں۔ مدحو بالا جانے کہاں سے میرے ناپ کا فراک اور شلوار لے آئی ۔ میں جب تیار ہو کر ماں کے سامنے آیا، نہیں آئی تو ماں بولی، تو سچ بولی رے تو تو واقعی اچ لڑکی ہے۔ چل اب بول تیرا نام کیا رکھوں میں؟ تو جے نور محمد نام بولی نا میرے کو؟ تو پھر آج سے تیرا نام نوری ہوتا۔ مدحو بالا نے مکمل لڑکی بننے میں میری بہت مدد کی ۔پھر ماں نے مجھے ڈاکٹر سدھیر کے گھر بچوں کی کھلائی کے طورپر رکھوا دیا۔ وہ تین سال میرے بےفکری کے دن تھے۔ میں نے خوب بچت کر کے کچھ رقم بھی جوڑ لی تھی۔ ایک دن میری ماں نے مجھے میرے باپ کی شدید بیماری کی خبر دی اور کہلوایا کہ آ کہ دیکھ جا آخری وقت ہے۔ سچی بات تو یہ ہے دل تو نہیں چاہا پر سوچا کہ کہیں یہ پچتاوہ نہ بن جائے سو پھر لڑکے کا سوانگ بھرا، اب مرتے باپ کو اپنی ہیت کی کیا مار دیتی ۔ میرے پہچنے کے تیسرے دن ابا مر گیا۔ اماں میری بولی لگانے سے باز نہ آئی ساری حقیقت جانتے ہوئے بھی اس نے کہیں میرا رشتہ طے کر کے دس ہزار بیانہ پکڑ لیا تھا۔ میں تو یہ سنتے ہی گھر سے بھاگ نکلی۔ اس بار میری منزل جادو نگری ممبئی تھی۔
ممبئی پہنچ کر مختلف اوڈ جوب کرتے کراتے تین سال ہو گئے۔ یہ دن آسان نہیں تھے مگر وہی بات کہ شہر سکھائے کوتوالی ۔ اب زندگی کرنے کا ڈھنگ آ گیا تھا۔ میری دوستی اپنے جیسے لوگوں سے تھی اور جو سچ کہوں تو ایک تو دل میں ہی بس گیا تھا۔ اس کی محبت میں، میں نے جان توڑ محنت اور بہت سخت بچت کی۔ پھر تین سال بعد ممبئی سے مدراس واپس آ گئ اور اس بچت سے اپنا آپریشن کروا لیا۔ پھر ہم نے شادی کر لی۔ دنیا مخالف تھی پر ہم خوش تھے۔ اپنی زندگی کو مکمل کرنے کے لئے ہم نے دو بچے، ونود اور آنند گود لے لئے۔ زندگی مشکل تھی۔ روزگار کے مواقع ٹرانس جینڈر ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم تھے۔ اس حد تک کہ مجھے آخر کار اس پیشے سے منسلک ہونا ہی پڑا جس سے میں اب تک بھاگتی آئی تھی۔ تقریبا سولہ سال میں نے سکیس ورکر کے طور پر کام کیا اور اس کی بڑی بھاری قیمت چکائی ۔
1987 میں میری طبیعت خراب رہنے لگی تھی ان دنوں ایڈز اور HIV کا بڑا شور تھا۔ میں نے بھی اپنی جانچ کرائی اور میری دنیا تاریک ہو گئ۔ میں انڈیا کی تیسری HIV+ تھی۔ دنیا نے مجھے عضو معطل کی طرح کاٹ کے پھینک دیا ۔ لوگ میرے سائے سے بھی بھاگتے تھے۔ کھولی والے نے کھولی خالی کرنے کو بولا۔ ہوٹل والے نے اپنے ہوٹل میں میرا داخلہ بند کر دیا۔ مجھے جب یہ بات پتہ چلی تو میں نے اپنا دھندا بند کر دیا مگر پیٹ تو برابور روٹی مانگتا ہے نا۔ اب تو دوا کا خرچ بھی شامل ہو گیا تھا۔ بہت مشکل دن تھے۔ میں نے سلائی چالو کر دی، ایک بلاوز کی سلائی دس روپے لیتی اور ایک دن میں 80 سے 100 روپے کماتی ۔
میں چاہتی تھی کہ اس مرض کے بارے میں سب کو بتائوں۔ کسی نے میرے کو NGO کے بارے میں بتایا۔ میں نے ان ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا ۔بارہ تیرا سال ان لوگوں کے ساتھ کام کیا۔ 2003 میں اپنا NGO بنایا SIPکے نام سے۔ اب میں نے ایسا بچہ لوگ کو جنکو ایڈز تھا یا جو HIV+ تھے ان کو اپنے گھر میں رکھنا شروع کر دیا۔ ان کا کھانا، پینا، سرکاری اسپتال سے علاج معالجہ سب کراتی اور اسکول جانے کی عمر والے بچے سرکاری اسکول بھی جاتے۔ میرے اس کام میں ونود اور آنند بھی میرا ہاتھ بٹاتے۔ 2005 میں میرے پاس رات کے وقت فون آیا کے بڑی مارکیٹ کے پاس کچرا کنڈی میں ایک بچہ پڑا ہے۔ میں رکشے میں بیٹھ کے وہاں پہنچی تو دیکھا کہ ایک بچی تھی. اس کے پورے جسم پر چیونٹیاں تھیں۔ اس کے جسم کے ساتھ ایک لفافہ بھی بندھا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ اس بچی کے کارن مجھ کو بھی ایڈز ہو گیا سو میں اس کو نہیں پال سکتی۔ اس بچی کو لے کر میں اسپتال بھاگی ۔ اس کا علاج شروع ہوا۔ اب میرے پاس پانچ سال سے لیکر سترہ سال تک کے پیتالیس بچے ہیں ۔یہ میرے ساتھ میرے گھر میں رہتے۔ ان کا کھانا، پینا علاج اور پڑھائی سب میں دیکھتی۔ ان کے ماں باپ کون، میں نہیں جانتی۔ ان سب کی گارجین میں "اماں نوری"۔ میں ان پیتالیس بچوں کی ماں ۔ میرے علاوہ اس بھری دنیا میں ان کا کوئی اور رشتہ نہیں ۔ان کے علاوہ سو بچے اور ہیں جن کا میری NGO کے توسط سے علاج ہوتا مگر وہ لوگ اپنے گھر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے۔
میں بس اتنا چاہتی کہ ہم لوگوں کو اچھوت مت سمجھو۔ ہم لوگ کو آدمی کے مافک جانو ۔ سچ بات کہ یہ بیماری بہت بری ہے مگر بات کرنے سے ،ہاتھ ملانے سے نئی لگتی بابا۔ ہم لوگ کو بھی اسی اللہ نے پیدا کیا جس نے یہ اکھا دنیا بنائی تو ہم لوگ کو بھی اس دنیا میں رہنے کے واسطے تھوڑی جگہ مانگتا۔ آپ لوگ محبت نہیں کر سکتا مت کرو ،بس نفرت بھی مت کرو۔
میں نے ان بچہ لوگ کے لئے ایک گھر بنانا شروع کیا مگر پیسہ ختم ہونے کی وجہ سے کام رک گیا۔ میں چاہتی کہ وہ گھر مکمل ہو جائے تا کہ بچے اس گھر میں آرام سے رہ سکیں ۔ میں رہوں یا نہ رہوں وہ اس گھر میں آرام کے ساتھ بے خوف ہو کر اپنی زندگی گذار سکیں ۔ اس گھر کو مکمل کرنے کے واسطے مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے ۔ ایک روپیہ، دس روپیہ، جو بھی آپ سے ہو سکے میری مدد کیجیے ۔ اللہ آپ کو سکھی رکھے ۔ میری عمر اب 68 سال ہے، میں بتیس سال سے HIV+ پیشنٹ ہوں۔ ایسا نہیں کہ جس کو یہ بیماری ہو گیا وہ بس اب مرنے والا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ ان بچوں کو زندگی جینے کا چانس ضرور ملے اور یہ آپ کی مدد سے ممکن ہے۔
SIP ( south Indian Positive Network.)
SIP memorial trust to take care of abandoned and homeless children affected by HIV+.