آج – 28/نومبر 1949
دہلی کی پہلی اردو کی بیباک خاتون صحافی اور معروف شاعرہ” نور جہاں ثروتؔ صاحبہ “ کا یومِ ولادت…
نام *نور جہاں تخلص ثروتؔ، 28 نومبر 1949ء کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں لیکچرر کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے ذاکر حسین کالج میں بھی اسی صلاحیت میں کام کیا۔ وہ انٹرویو لینے والے کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو کے ساتھ بھی کام کر چکی ہیں۔ بحیثیت صحافی وہ اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ۔ شعر و ادب کی دنیا میں ایک شاعرہ کی حیثیت سے ، ان کا انداز الگ اور منفرد تھا۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور صحافی 1980ء میں کیا۔ انہوں نے سینئر صحافی عشرت علی صدیقی کے ماتحت بطور نمائندہ قومی آواز دہلی میں شمولیت اختیار کی اور دہلی کی پہلی اردو خاتون صحافی کی حیثیت سے انھیں اعزاز حاصل ہوا۔” قومی آواز“ کے ہفتہ وار ضمیمہ کی ایڈیٹر ہونے کے علاوہ ، وہ ممبئی سے شائع ہونے والے روزنامہ "انقلاب" کے دہلی ایڈیشن کی ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر بھی مقرر کی گئیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
بھارت کی معروف صحافی و خاتون شاعرہ نور جہاں ثروتؔ کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین…
کون تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
یہ بھرا شہر بھی تنہا نظر آتا ہے مجھے
جانے کس موڑ پہ کھو جائے اندھیرے میں کہیں
وہ تو خود سایہ ہے جو راہ دکھاتا ہے مجھے
اس کی پلکوں سے ڈھلک جاؤں نہ آنسو بن کر
خواب کی طرح جو آنکھوں میں سجاتا ہے مجھے
عکس تا عکس بدل سکتی ہوں چہرہ میں بھی
میرا ماضی مگر آئینہ دکھاتا ہے مجھے
وہ بھی پہچان نہ پایا مجھے اپنوں کی طرح
پھول بھی کہتا ہے پتھر بھی بتاتا ہے مجھے
اجنبی لگنے لگا ہے مجھے گھر کا آنگن
کیا کوئی شہر نگاراں سے بلاتا ہے مجھے
کسی رت میں بھی مری آس نہ ٹوٹی ثروتؔ
ہر نیا جھونکا خلاؤں میں اڑاتا ہے مجھے
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
وہ ایک نظر میں مجھے پہچان گیا ہے
جو بیتی ہے دل پر مرے سب جان گیا ہے
رہنے لگا دل اس کے تصور سے گریزاں
وحشی ہے مگر میرا کہا مان گیا ہے
تھا ساتھ نبھانے کا یقیں اس کی نظر میں
محفل سے مری اٹھ کے جو انجان گیا ہے
اوروں پر اثر کیا ہوا اس ہوش ربا کا
بس اتنی خبر ہے مرا ایمان گیا ہے
چہرے پہ مرے درد کی پرچھائیں جو دیکھی
بے درد مرے گھر سے پریشان گیا ہے
اس بھیڑ میں ثروتؔ نظر آنے لگی تنہا
کس کوچے میں تیرا دلِ نادان گیا ہے
✧◉➻══════════════➻◉✧
پھر کوئی اپنی وفا کا واسطہ دینے لگا
دور سے آواز مجھ کو حادثہ دینے لگا
طے کرو اپنا سفر تنہائیوں کی چھاؤں میں
بھیڑ میں کوئی تمہیں کیوں راستہ دینے لگا
راہزن ہی راہ کے پتھر اٹھا کر لے گئے
اب تو منزل کا پتا خود قافلہ دینے لگا
غربتوں کی آنچ میں جلنے سے کچھ حاصل نہ تھا
کیسے کیسے لطف دیکھو فاصلہ دینے لگا
شہر نا پرساں میں اے ثروتؔ سبھی قاضی بنے
یعنی ہر نافہم اپنا فیصلہ دینے لگا
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
نور جہاں ثروتؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ