1953 میں ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے خلاف تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کر دیا۔ لاہور کے ایک سول جج چوہدری غلام حسین کی عدالت میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو نوجوان وکیل مولوی مشتاق حسین نے شوکت حسین رضوی اور اے آر شیخ نے نور جہاں کی وکالت کی۔
دوران سماعت مولوی مشتاق حسین نے نورجہاں پر جرح کرتے ہوئے اُن کے نذر محمد کے ساتھ تعلقات ثابت کرنے کی کوشش کی تو نورجہاں نے عدالت میں کہا ’’میرے نذر کے ساتھ ایسے ہی تعلقات رہے ہیں جیسے مولوی مشتاق حسین کے ساتھ۔ میری ان کےساتھ ملاقاتیں بھی اتنی ہی دفعہ ہوئی ہیں جتنی بار مولوی مشتاق حسین کے ساتھ اور یہ اسی سلسلے میں ہوتی رہی ہیں، جس سلسلے میں مولوی مشتاق حسین کے ساتھ. مولوی مشتاق کوئی جواب نہ دے سکے اور مقدمہ ہار گئے.
یہ بات انہی جج چوہدری غلام حسین نے اپنی کتاب ’’جج، جرنیل اور جنتا‘‘ میں لکھی ہے جن کی عدالت میں نورجہاں کا یہ کیس چلا تھا.
24 جون 1953 کو روزنامہ امروز لاہور میں خبر شائع ہوئی تھی کہ نور جہاں، کرکٹر نذر محمد سے ملنے کیلئے کسی مقام پر گئی ہوئی تھیں کہ اچانک ان کے شوہر شوکت حسین رضوی وہاں پہنچ گئے. نذر محمد نے شوکت حسین رضوی کو دیکھ کر بالائی منزل سے چھلانگ لگادی. جس کی وجہ سے ان کا بازو ٹوٹ گیا. (اسی باعث وہ کرکٹ کھیلنے سے ہمیشہ کیلئے معذور ہوگئے) تیس برس بعد 1984 میں شوکت حسین رضوی نے صحافی منیر احمد منیر کو انٹرویو میں اس واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ یہ اسلامیہ پارک لاہور میں پیش آیا تھا اور نذر محمد نے انہی کو دیکھ کر چھلانگ لگائی تھی. (پاکستان کرونیکل)
ملکہ ترنم کو نیک پروین بننے کا قطعی شوق نہیں تھا. کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اب تک کتنے گانے گائے ہیں تو انہوں نے جواب دیا:
" میں نے نہ گانوں کا حساب رکھا ہے، نہ گناہوں کا "
“