ہرمن اپنی بیوی تامارا اور دو بچوں کے ساتھ پولینڈ میں رہتا ہے۔ تامارا بچوں کو لے کر اپنے والدین کے گھر گئی ہے۔ جنگِ عظیم چھڑ جاتی ہے۔ تامارا اور بچوں کو حملہ آور فوج گولی مار دیتی ہے۔ دوسری طرف ہرمن کی جان اس طرح بچتی ہے کہ ان کی گھریلو ملازمہ اپنے گاوں میں لے جا کر پناہ دے دیتی ہے۔ برسوں بیت جاتے ہیں، جنگ ختم ہو چکی ہے۔ ہرمن کو پتا لگتا ہے کہ اس کی بیوی زندہ ہے اور اپنے بوڑھے خالہ اور خالو کے ساتھ رہ رہی ہے۔ بچھڑے میاں بیوی کی برسوں بعد ملاقات کا منظر تکلیف سے بھرا ہے۔ ہرمن اپارٹمنٹ میں داخل ہوتا ہے۔
خالو: یہ ایک معجزہ ہے، ہرمن۔ تمہاری بیوی زندہ ہے۔
(خالو چلے جاتے ہیں، تامارا داخل ہوتی ہے)۔
تامارا: ہیلو، ہرمن
ہرمن: مجھے نہیں پتا تھا کہ تم زندہ ہو۔
تامارا: ہاں، تمہیں یہ پتا لگ ہی نہیں سکتا تھا۔
ہرمن: مجھے ابھی بھی یہ ناقابلِ یقین لگ رہا ہے۔ یوں جیسے کہ تم موت سے واپس آئی ہو۔
تامارا: ہمیں ایک گڑھے میں پھینک دیا گیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ہم سب مر چکے ہیں۔ میں مردہ بن کر لیٹی رہی۔ رات ہوئی تو چھپ کر فرار ہو گئی۔ روس میں اپنے خالو تک پہنچ گئی۔ لیکن تم کہاں تھے؟ تہمیں ڈھونڈنے کے لئے تو اشتہار بھی چھپوائے تھے۔
ہرمن: میرا اپنا گھر نہیں۔ میں کسی کے ساتھ رہتا ہوں۔
تامارا: چھوڑو، یہ بتاوُ کہ کیا کر رہے ہو؟ کہاں رہ رہے ہو؟
ہرمن: مجھے نہیں پتا تھا کہ تم زندہ ہو ۔۔۔۔
تامارا: (مسکراتے ہوئے) تو وہ خوش قسمت خاتون کون ہے جس نے میری جگہ لے لی ہے؟
ہرمن: (حیرت سے زبان گنگ ہو گئی، پھر کچھ دیر بعد) یادگیوا
تامارا: اچھا! تم نے یادگیوا سے شادی کر لی؟؟ ہماری ملازمہ سے؟ معاف کرنا لیکن تم تو کہتے تھے کہ وہ کم عقل ہے۔ تمہاری ماں کہا کرتی تھی کہ وہ تو جوتے بھی پتا نہیں کیسے ٹھیک پیروں میں پہن لیتی ہے۔ اس کو تو پیسے سنبھالنے تک کا ڈھنگ نہیں آتا تھا!
ہرمن: اس نے میری جان بچائی تھی۔
تامارا: تو احسان چکانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ملا تھا؟ اور مجھے پوچھنا تو نہیں چاہیے لیکن کیا تمہارے کوئی بچے ہیں؟
ہرمن: نہیں۔
تامارا: مجھے اب یاد آ رہا ہے کہ تم اس پر نظر رکھا کرتے تھے۔ تمہارا یہ ارادہ تب سے ہی ہو گا۔
ہرمن: نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔
تامارا: واقعی؟ ہماری شادی بھی تو اتنی خوشگوار نہیں تھی۔ تم ہر وقت جھگڑتے رہتے تھے۔ تم نے میری کبھی عزت نہیں کی۔ میرے خیالات کو اہمیت نہیں دی۔
ہرمن: یہ سچ نہیں ہے۔ تہمیں پتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
خالو کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں: ہرمن، تم ہمارے ساتھ رہ سکتے ہو۔ ہم رشتہ دار ہیں اور مہمان دار بھی۔ اس کو ۔۔۔۔
تامارا: (بات کاٹتے ہوئے) خالو، اس نے دوسری شادی کر لی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنگر کی کتاب “دشمن: محبت کی کہانی” اس اداس ملاپ کے منظر کے تجزیے سے پہلے کچھ بات جذبات کی۔ اور یہ کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ہم حسد و رقابت، تمنا اور توقع، اور ان سب تکالیف کے بکھیڑے سے کبھی بھی نجات پا سکیں، جو انسانی رشتوں اور تعلقات کا بوجھ ہیں؟ یوں لگتا ہے کہ قدرت نے ہمارے ساتھ ایک ظالم مذاق کیا ہے کہ ہمارے قریب ترین پیاروں کے جذبات کے درمیان ٹیوننگ ٹھیک نہیں رکھی۔ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی جھڑپیں نہ صرف ادب و شاعری کے لئے مواد فراہم کرتی ہیں بلکہ یہی ہماری روزمرہ زندگی ہے۔
اگر یہ صرف رومانس کے تعلقات نہیں، بھائی بہنوں، رشتہ داروں، والدین، بچوں، دوستوں، سبھی کے ساتھ تعلقات ہماری زندگی کا خوبصورت ترین حصہ ہیں لیکن یہ تعلقات بس ایسے ہی نہیں، یہ نبھانا پڑتے ہیں۔ نہ کیا جائے تو یہ مرجھا جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں رشتوں اور روابط کی اس کشمکش کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ یہی ہمارے دل میں دوسرے لوگوں کے لئے کسی بھی طرح کے قیمتی جذبات پیدا کرتی ہے۔ شعور کا سب سے بڑا کام ان چیزوں کی تلاش اور پانے کی کوشش ہے جو آسانی سے ہاتھ نہیں آتیں۔ ہمیں بھوک لگتی ہے۔ ہم کھانا کھانے کا لطف اٹھاتے ہیں۔ خوراک کے ان گنت ذائقوں کی لذت محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ خوراک حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں ایک اور اہم چیز جس کو حاصل کر کے ہمیں کوئی خوشی نہیں ملتی، جس کی کوئی چاہت نہیں ہوتی وہ آکسیجن ہے۔ یہ بس مل جاتی ہے۔ ہم سانس لیتے رہتے ہیں۔ یہ شعور سے ہی مخفی ہے۔
اپنے رشتہ داروں، زندگی کے ہم سفروں اور دوستوں کے ساتھ بھی یہی ہے۔ اگر بالفرض ایسا ہو کہ ایک مرد اور عورت جن کو گارنٹی ہو کہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر وفادار رہیں گے۔ اپنے دوسرے رشتہ داروں سے زیادہ ایک دوسرے کو ترجیح دیں گے۔ اکٹھے مریں گے۔ ان کے اگلی نسل کے انٹرسٹ بچوں کی صورت میں تو پہلے ہی مشترک ہیں۔ تو ایسی نوع میں میاں بیوی کا رشتہ کس قدر پرفیکٹ، ہم آہنگ اور محبت والا ہو گا؟ بالکل بھی نہیں۔
اگر کسی ایک نوع میں ایک جوڑے کے درمیان ایسا یوٹوپیا حاصل ہو جائے تو کیا ہو گا؟ ایک جسم میں خلیے مل کر انتہائی ہم آہنگی سے زندگی کا نظام چلاتے ہیں۔ اکٹھے جیتے ہیں، ایک دوسرے پر انحصار رکھتے ہیں لیکن دل اور پھیپھڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کے لئے محبت میں گرفتار ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہی ایسی نوع کے جوڑے کے ساتھ ہو گا۔ حسد، رشک، محبت اور رومانس کے ساتھ تعلق رکھنے والی تکالیف اور صعوبتیں سب نکل جائیں گی۔
ڈونلڈ سائمنز کے الفاظ میں، “چونکہ کوئی مقابلہ نہیں ہو گا تو محبت کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ یہ سب بے کار وقت کا ضیاع ہو گا۔ اگر آپ کا ساتھی گویا آپ کے جسم کے حصے کی طرح ہو جائے تو آپ اس سے اتنی ہی محبت کریں گے جتنی اپنی آپ سے یعنی بس محاورے والی۔ بے شعوری فزیولوجی سے۔ اگر آپ کا ساتھی جدا ہو جائے تو تکلیف ضرور محسوس کریں گے، ویسے جیسے آپ کا عضو کٹ جائے لیکن زندگی کو وہ مزا جو اس تعلق کو چلانے اور نبھانے میں ہے، ختم ہو جائے گا۔ اگر کوشش بھی کر لی جائے، تب نبھی نہیں۔ جن چیزوں کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے لیکن حاصل کچھ نہیں ہوتا، وہ نہیں بچتیں، جیسا کہ غاروں میں رہنے والی مچھلیوں کی بینائی”۔
یہی ہمارے اپنی خاندان اور دوستوں سے تعلقات اور جذبات کا سچ ہے۔ ہمارے ذہن میں دوسرے سے جذبات کی کثرت اور شدت، اس بات کا ثبوت ہے کہ زندگی کے اہم ترین جوڑ ساتھ ساتھ نازک بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے قیمتی ترین رشتوں کی بھی روز آبیاری کرنا ہوتی ہے۔ ان کا خیال کرنا پڑتا ہے۔ بے دھیانی سے یہ بیمار پڑ جاتے ہیں، باقی نہیں رہتے۔ اور مختصرا یہ کہ تکالیف، صعوبتوں اور جذبات کے امکان سے خالی زندگی ایک خوبصورت اور ہم آہنگی والی زندگی نہیں ہو سکتی۔ ان کو ختم کر دیا جائے تو پھر جذبات بھی نہ ہوتے، جو ہماری زندگی کا اثاثہ ہیں اور شاید شعور بھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب واپس پہلے منظر پر جس میں ہرمن اور تامارا ایک معجزانہ ملاپ کے کچھ ہی سیکنڈ کے اندر اندر لڑ رہے ہیں۔ اس ایک منظر میں نفسیات کی بہترین طریقے سے عکاسی کی گئی ہے۔ مرد کے پولی گیمی کے رجحان پر اور یہ اپنے ساتھ کس طرح کے دُکھ لے آتا ہے۔ خواتین کی سوشل ذہانت کی۔ وہ کس طرح معاملے کو بھانپ لیتی ہیں۔ اپنے رومانٹک رقیبوں کے خلاف ان کی جارحیت۔ جس میں ترجیح فزیکل کے بجائے زبانی ہوتی ہے اور وہ زندگی کو ایک تسلسل کی لڑی میں دیکھتی ہیں۔ اور پھر یہ کہ کس طرح سوشل رویوں کا اںحصار صورتحال پر ہوتا ہے۔ دوسروں کی مخصوص باتیں پر ہوتا ہے۔ دو لوگوں کے آپس کے تعلقات کا یہ کھیل متحرک ہے، بدلتا ہے۔
اگرچہ یہ منظر اور مکالمہ اداس ہے، اس میں حالات کی ستم ظریفی کا مکار مذاق ہے۔ ہم ان دو بے چارے لوگوں کو دیکھتے ہیں۔ جو زندگی کے اس غیرمتوقع اور نایاب لمحوں کو یادگار بنانے کا موقع گنوا بیٹھے ہیں اور لڑائی شروع کر دی ہے۔ لیکن یہ حالات کے قیدی ہیں۔ یہ اس منظر کے وقت اور کیا کر سکتے تھے؟ اور کیا کہہ سکتے تھے؟ لیکن سنگر جو بڑا مذاق کرتے ہیں، وہ اپنے پڑھنے والوں سے ہے۔ ادب اور ڈراما کی عام روایتیں ہمیں چیزوں کے فطری آرڈر، ایک آفاقی انصاف کی امید میں رکھتیں ہیں۔ تکالیف اور مشکلات کا شکار کرداروں کے لئے آخر میں بڑے ڈرامائی انداز میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن عام زندگی کے عام لوگوں کی عام کہانیاں گنجلکوں سے بھری ہوتی ہیں۔ اور یہی مکمل زندگی ہے۔
پرکشش، پرسرار، افسوسناک، متوقع، لغزشوں سے بھرپور لیکن ہمہیشہ مسحور کُن۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ اس منظر میں سنائی دینے والی آوازیں نوعِ انسانی کی آوازیں ہیں۔