اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ واسکٹ کے بٹن سونے کے ہیں یا چاندی کے ، گھڑی اڑھائی کروڑ ڈالر کی ہے یا اڑھائی کروڑ روپے کی ! مرغبانی کی صنعت پر قبضہ مکمل ہے یا ادھورا، محلات فرانس میں ہیں یا برطانیہ میں، فیکٹریاں جدہ میں ہیں یا ویت نام میں، بھائی بلوچستان میں گورنر ہے یا پنجاب میں وزیراعلیٰ، رشتہ دار اسمبلی میں سات ہیں یا کم، عزیزو اقارب کلیدی مناصب پر چوراسی ہیں یا زیادہ! قومی ٹیکس کارڈ بنا ہے یا نہیں ! بینکوں کو قرضے واپس ہوئے ہیں یا نہیں ! بجلی کے واجبات ادا کیے گئے یا واپڈا اہلکاروں کو قتل کی دھمکی ملی، پارٹی کے اجلاس دبئی میں ہورہے ہیں یا کہیں اور، محلات کا کل رقبہ اڑھائی ہزار کنال ہے یا ایکڑ، سارے حکمران وسطی پنجاب سے ہیں یا ایک آدھ باہر سے بھی، سارے متحد ہوگئے ہیں یا پھوٹ پڑنے والی ہے، اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ نومی خبردار ہوگیا ہے۔
نومی کا باپ ڈاکٹر ہے۔ باہرسے ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آیا اور لاہور کی فیشن ایبل پوش آبادی میں کامیاب کلینک چلانے لگا۔ نومی کے باپ نے سیاست میں کبھی دلچسپی نہیں لی۔ اسے معلوم تھا کہ یہ برادریوں کا ، جتھوں کا ، لاٹھیوں کا ، کرائے کے جلسوں جلوسوں کا ، ہلڑ بازی کا ، پولنگ سٹیشنوں پر بندوقیں لہرانے کا اور کامیاب ہوجانے کے بعد حساب کتاب ’’ پورا‘‘ کرنے کا کھیل ہے اور یہ کھیل ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں ! اسے معلوم تھا انتخابات میں کھڑے ہونے والے مخلص نہیں۔ الاماشاء اللہ۔ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ یہ خاندانوں کے سلسلے ہیں جو یونینسٹ پارٹی کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ منتخب ایوانوں میں نشستیں موروثی ہیں۔سیاست میں محافظوں کے جتھے نہیں، لشکر رکھنے پڑتے ہیں۔ چنانچہ نومی کا باپ انتخابات کے دن گھر سے نکلتا ہی نہیں تھا۔ سردیاں ہوتیں تو دھوپ میں آرام سے کرسی بچھا کر فریڈرک فور سائیتھ یا جیکی کولنز کا تازہ ترین ناول پڑھتا۔ گرمیاں ہوتیں تو ایئرکنڈیشنر لگاکر کمرے میں سویا رہتا۔ اسے اس سے بھی کچھ غرض نہ تھی کہ کون جیتا اور الیکشن میں کون ہارا۔ اسے نام جانے بغیر معلوم تھا کہ جو جیتا ہے، حساب ’’ پورا‘‘ کرے گا اور جو ہارا ہے، وہ بھی اسی تھیلی کا چٹا بٹا ہے۔
نومی پڑھائی میں اچھا نکلا۔ جاگیرداروں ، صنعت کاروں ، سرداروں ، لینڈ مافیا کے خفیہ سربراہوں کے پیٹ میں ایک مروڑ اس بات سے بھی اٹھتا ہے کہ مڈل کلاس کے بچے تعلیم میں ہمیشہ ان کے بچوں سے آگے ہوتے ہیں! نومی امریکہ سے ایم بی اے کرکے آیا اور ایک معروف ، اونچی ساکھ والی ملٹی نیشنل میں اعلیٰ درجہ کی ملازمت کرنے لگا۔ سیاست سے بے نیازی اسے ورثے میں ملی تھی۔ اسے یہی بتایا اور سمجھایاگیا تھا کہ سیاست مڈل کلاس کے بس کی بات نہیں۔ نومی نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا ۔ کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران وہ امریکی سیاست میں خوب دلچسپی لیتا تھا لیکن پاکستان واپس آکر اس نے مڈل کلاس کی قسمت قبول کرلی۔ کوئی اس کلاس کو برگر فیملی کہتا اور کوئی ممی ڈیڈی کلاس۔ نومی نے کبھی پروا نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک خاص کلاس کے سیاست دانوں نے بٹن سونے کے لگوا لیے۔ گھڑیاں اڑھائی اڑھائی کروڑ کی باندھ لیں۔ اسمبلیوں میں سات سات رشتہ دار لے آئے ۔ کلیدی مناصب پر چوراسی چوراسی عزیز و اقارب بٹھا دیے۔ دولت باہر بھیجنے لگے۔ اسمبلیوں میں ان کے خلاف پتا بھی ہلتا تو قانون کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے، لیکن پھر المیہ یہ ہوا کہ نومی جاگ گیا۔
نومی کو معلوم ہوگیا کہ اس کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ محنت وہ کرتا ہے، عیش کوئی اور کرتا ہے۔ ٹیکس وہ دیتا ہے، حکمرانی کوئی اور فرماتا ہے۔ وہ سرخ بتی پر رک جاتا ہے لیکن کالے شیشوں والی قوی ہیکل ٹرک نما گاڑیاں نہیں رکتیں۔ نہ صرف یہ کہ نہیں رکتیں، پولیس والے ان کی خاطر باقی ٹریفک کو بلاک کرکے انہیں سلیوٹ بھی کرتے ہیں۔ نومی کو معلوم ہوگیا کہ قانون صرف مڈل کلاس کے لیے ہے۔ اپر کلاس کے لیے نہیں کہ حکومت اس کی اپنی ہے اور لوئر کلاس کے لیے نہیں کہ وہ اپر کلاس کی نوکر ہے۔ ابھی تو نومی نے کل کے اخبار میں پڑھا ہے کہ لاہور میں ایک ایم این اے کے محافظوں نے رستہ نہ دینے پر ایک بس کے ڈرائیور کے کپڑے پھاڑ دیے۔ اسے اور بس کے ایک اور ملازم کو بندوق کے بٹ مار مار کر زخمی کیا۔ پھر بندوق مار مار کر بس کے فرنٹ اور سائیڈ کے شیشے توڑ ڈالے۔(روزنامہ دنیا ، لاہور، گیارہ ستمبر2014ء)
نومی جان گیا ہے کہ یہ منتخب نمائندے تھانوں پر حملے کرتے ہیں۔ ملزم چھڑالے جاتے ہیں۔ حکومت ان کے ہاتھوں میں یرغمال ہے۔ ان پر، ان کے خاندان پر ان کے ملازموں پر قانون کا اطلاق ناممکن ہے۔
وہ نومی جو کل تک ایئرکنڈیشنڈ کمرے کے بغیر چند گھنٹے نہیں گزارتا تھا، اب دو دو ہفتے ٹھنڈی سڑک کے ناہموار فرش پر دھرنا دے سکتا ہے۔ اب وہ اپنے باپ کی طرح الیکشن کے دن تازہ ترین انگریزی ناول نہیں پڑھتا، آکر ووٹ دینے کے لیے قطار میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ مڈل کلاس سوئی رہی تو اس ملک کی قسمت نہیں جاگے گی۔ نومی نے عزم کرلیا ہے کہ وہ ٹیکس چوری کرنے والوں اور قانون کو جوتے کی نوک پر لکھنے والوں کے گلے میں رسی اور ناک میں نکیل ڈال کر رہے گا۔ وہ اچھی طرح جان چکا ہے کہ پچھلے چالیس سال کے دوران دس قانون ساز اسمبلیوں نے عوام کے لیے ایک بار بھی قانون سازی نہیں کی! اکثر ان اسمبلیوں میں نیم خواندہ ہیں۔ سینیٹ کی نشستوں کے لیے پندرہ پندرہ کروڑ روپے چلتے ہیں اور کھلم کھلا کسی خوف ملامت کے بغیر یہ نرخ اخباروں میں شائع کرائے جاتے ہیں۔ نومی کو یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں، اسی لیے مشترکہ پارلیمنٹ (جسے یہ ’’ تعلیم یافتہ ‘‘ نمائندے پارلیامنٹ کہتے ہیں) میں لمبی لمبی تقریریں کرنے والوں نے دھاندلی ، ٹیکس چوری، قانون شکنی اور باہر بھیجی ہوئی دولت کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔ یہ لوگ اڑھائی اڑھائی کروڑ ڈالرکی گھڑی باندھنے کی نہ صرف تردید نہیں کرتے ، ایسی باتوں کو درخور اعتنا تک نہیں گردانتے۔
ڈھلتی ہوئی دھوپ دوپہر میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ صبح کی کرنوں کو رات کے مکروہ تھیلے میں دوبارہ بند نہیں کیا جاسکتا۔ زمین سے سرنکال لینے والے پودے کو دوبارہ بیج نہیں بنایا جاسکتا۔
نومی جاگ اٹھا ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“