وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان غور طلب ہے کہ دیکھنا پڑے گا کہ ایف اے ٹی ایف تکنیکی فورم ہے یا سیاسی فورم ہے۔ بہرحال جو بھی ہے 27 میں سے 26 نکات پر عملدرامد کرنے کے بعد بھی ہمارے نصیب کی سیاہی ختم نہیں ہوسکی۔ بالفرض 27 نکات پر عمل بھی کرلیا جائے تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ ہمارے سر سے سرمئی بادل چھٹ جائیں گے اور ہم روشنی میں آجائیں گے۔ روشنی کی تلاش میں خدا جانے ہمارا سفر کب اختتام پذیر ہوگا اور پتہ نہیں ہوگا بھی کہ نہیں۔ کچھ تو ہے جو غلط ہے اور اس غلط کوٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔اب تو ہر من کا میلا رائندہ درگاہ ہوچکا ہے پھر کیوں ایف اے ٹی ایف کے سربراہ ڈاکٹر مارکس پلیا کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ اب بھی ہورہی ہے۔کون کررہا ہے یہ منی لانڈرنگ اور کیوں نہیں روکا جارہا اس کو گھناونے عمل کو اس پر ارباب اختیار کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔تاہم حکومت پھربھی کریڈٹ لے رہی ہے کہ اندھیرے میں جانے سے بچا لیا۔اب پتہ نہیں یہ کامیابی ہے یا روشنی میں نا جانے کے سبب ناکامی ہے۔
تاہم اس دوران سعودی عرب سے ادھار تیل کی ڈیل بہرحال ایک کامیابی ہے مگر ان تمام مندرجات کو بھی سامنے آنا چاہیے جن کی وجہ سے برادر اسلامی ملک میں محبت کے جذبات جاگے۔وگرنہ ادھار رقم کی واپسی کے مطالبے کے بعد ایک دم سے جامنی قالینوں پر استقبال اور ادھار تیل کی ڈیل بہت سے سوال پیدا کررہی ہے۔لگتا یوں ہے کہ نو من تیل کا انتظام تو ہوگیا ہے مگر رادھا اب بھی ناچنے کوتیار نہیں ہے۔توسوال یہ ہے کہ کیا رادھا ناچے گی ؟ جواب یہ ہے کہ بازار میں گھنگھرو باندھ کے بیٹھی ہوئی رادھا ناچے گی نہیں تو اور کیا کرئے گی۔بس رادھا کوگارنٹی یہ چاہیے کہ اس کو تماش بینوں سے تحفظ دیا جائے۔شائد وقتی ضمانت مل جائے مگر شوقین مزاج جانتے ہین کہ سب پابندیاں محفل کے ختم ہونے تک ہیں اس کے بعد جو طاقتور چاہے گا وہی ہوگا۔
اور طاقتور کیا چاہتا ہے تو ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو طاقتور چاہتا ہے کہ پانچ سال پورے کرنے دئیے جائیں اور کسی قسم کا رخنہ مت ڈالا جائے بدلے میں آئندہ سب کوحصہ بقدر جثہ ملے گا۔کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی۔کوئی زیادتی اور ناانصافی نہیں ہوگی ۔کھلا میدان ہوگا نیوٹرل ایمپائر ہوں گے اور ہر کھلاڑی کواپنے جوہر دکھانے کا موقع ملے گا۔اب یہ سیاست کےکھلاڑیوں پر منحصر ہے کہ وہ میدان میں کس طرح کا کھیل پیش کرتے ہیں ۔سیاست کے اس کھیل کے ایک نامور کھلاڑی کی لاہور آمد ہوئی تو ہلچل مچ گئی ۔سب کی نظریں اس کھلاڑی پر مرکوز ہوگئیں کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔اس کھلاڑی سے کئی لوگ ملے مگر سب سے اہم ملاقات پنجاب کے چوہدری کی تھی۔باوثوق زرائع کے مطابق چوہدری نے پوچھا کہ کی ہوئے گا توجواب ملا کہ اسی تے تسی اس پر چوہدری کا دوسرا سوال کہ پنجاب دا کی بنڑے گا تو اس کا جواب تھا کہ تسی تے اسی ۔
اگر بالفرض ایسا ہو جاتا ہے تو ن لیگ کا کیا بنے گا تو رضا رومی کے ساتھ ایک پروگرام میں مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ بڑوں کا حکم ہے کہ جنوبی پنجاب میں شیر کے نشان کے علاوہ کسی بھی نشان پر لڑ لیں۔اس کا مطلب یہ کہ مستقبل میں پنجاب میں ن لیگ کا سائز کم ہونے جارہا ہے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ن لیگ کے لیے بطور جماعت تباہ کن ہوگا اور ان خدشات کااظہار رانا ثنا اللہ اپنی قیادت کےسامنے کرچکے ہیں کہ اگر معاملات ٹھیک نا ہوے تو بہت سے لوگ ن لیگ کو چھوڑ جائیں گے ۔ویسے بھی اگر جائزہ لیا جائے تو ن لیگ سندھ اور بلوچستان سے بالکل ہی فارغ ہوچکی ہے۔اب اس کی توجہ پنجاب اور کے پی کے پر ہوگی ۔کے پی کے میں شائد وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نا کرسکے مگر پنجاب میں ن لیگ کی کوشش ہوگی کہ اپنی طاقت کوبچالے اور اس کے لیئے ن لیگ کو طاقتور حلقوں کے ساتھ معاملات بہتر کرنے ہوں گے اور کیا نواز شریف اپنی اور مریم کی عدم موجودگی پر راضی ہوجائیں گے کیا معاملات شہبازشریف کے سپرد کردیں گے ۔اس حوالے سے ن لیگ کومشکل اور بروقت فیصلے کرنے ہوں گے۔
مشکل فیصلے تو تحریک انصاف کو بھی کرنے ہوں گے کیونکہ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرنے جارہی ہے ۔حکومتی جماعت ہونے کے سبب تحریک انصاف کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ سمجھوتے کرنے ہوں گے اور ان کے لیے حلقے خالی چھوڑنے پڑیں گے اگر ایسا نا کیا تو حکومتی اتحاد میں انتشار پھیلنے کا امکان بڑھ جائے گا۔مہنگائی ، غربت ، بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ بلدیاتی انتخابات میں جانا سمجھ سے بالاتر ہے ۔حالانکہ اس سے قبل ضمنی انتخابات میں حکومت کو عوامی ردعمل کا اندازہ ہوچکا ہے ۔جو بھی ہے اگر پھر بھی حکومت بلدیاتی انتخابات کراتی ہے تو یہ ایک طرح سے سیاسی خودکشی ہوگی۔بالفرض تحریک انصاف پنجاب میں یہ انتخابات جیت جاتی ہے تو بلدیاتی نمائندوں اور قومی و صوبائی اراکین اسمبلی کے درمیان اختیارات کی ایک نئی رسہ کشی شروع ہو جائے گی ۔خدا جانے یہ حکومت کیسے اس صورتحال سے عہدہ برا ہوگی۔
تو عزیزاں گرامی صورتحال یہ ہے کہ ملک مزید دو سال اسی طرح چلے گا ۔نئی سیاسی صف بندی کے لیے سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔پرانے سیاسی اتحاد ٹوٹیں گے نئے سیاسی اتحاد بنیں گے ۔ملکی ترقی کے نئے ایجنڈے بنیں گے ملک وقوم کوبچانے کے نئے نعرے تخلیق ہوں گے ۔ہر نعرہ پرکشش ہوگا ہروعدہ شاندار ہوگا۔بہتر مستقبل کی خواہش میں ہم آوئے ہی آوئے تے جاوئے ہی جاوئے کے نعرئے لگائیں گے۔نئی حکومت منتخب ہوگی اور آتے ہی ہمیشہ کی طرح کا پہلا شاہی فرمان یہ جاری ہوگا کہ سابقہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کے سبب مشکل فیصلے کرنے ہوں گے لہذا قوم قربانی دے اور قوم ایک بار پھر قربانی کے لیے تیار ہوگی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...