انتظار حسین کی ایک مشہور کہانی ہے –وارد ہونا شہزادہ تورج کا شہر کا غذآباد میں اور عاشق ہونا ملکہ قرطاس جادو پر.
تورج جذبات سے مغلوب ہوکر بولا ”جاناں، فرض سے مجبور ہوں۔ طلسم کشائی کا فریضہ مجھے پکار رہا ہے۔ جس طلسم میں قدم رکھا ہے اسے تسخیر کرلوں۔ پھر واپس تیرے شبستانِ محبت میں آﺅں گا اور وصل کے مزے لوٹوں گا۔“
ملکہ بولی ”نادان، یہ کیسا خیال خام تیرے دل میں سمایا ہے۔ طلسم کشائی کا حق تو ادا ہوچکا ہے۔ اس اقلیم طلسمات کا بڑا طلسم تو میں ہوں۔ مجھے تو نے تسخیر کیا۔ اب کس طلسم کی جستجو ہے اور کون سی اقلیم کی فتح کی آرزو ہے۔“
اقلیم طلسمات کا بڑا طلسم اور طلسم کشایی ..
وہ آیا . اس نے دیکھا اور فتح کیا .
شہر کا غذآباد کے ہزاروں ایسے مناظر ہیں ، جو مجھے اس وقت آواز دے رہے ہیں . اس نے جس طلسم کی بھی سیر کی ، اسے تسخیر کرنے کا فن آتا ہے . برسوں گزر گئے ..شہر کا غذآباد کا ایک محلہ . میں گھر کے دروازے پر کھڑا ہوں اور ایک نوجوان شہزادہ تورج قران شریف احترم کے ساتھ ہاتھوں میں تھامے ، سر جھکاہے میرے سامنے سے گزر رہا ہے . دعا نہ سلام . یہ منظر روز دیکھتا ہوں .اس منظر میں ایک خاص کشش ہے میرے لئے . مجھے کیا معلوم تھا ، کہ شبستان محبت میں داخل ہونے کے دروازے کھل گئے ہیں اور جلد ہی شہزادہ تورج سے ملاقات کے ایسے دروازے کھلیں گے کہ صدیاں بھی کم پڑ جائینگی .
یہ معصوم سا نوجوان کون تھا ؟ آج مجھ پر کہانیوں کی بارش ہو رہی ہے .ایک کہانی اور سنتے ہیں .. محبت، حکمت اور آسمان کے درمیان تنازعہ بڑھا توٹرائے کے بادشاہ نے فیصلہ کی ذمہ داری اپنے بیٹے کے سپرد کی۔ حکمت نے محبت کی طرف دیکھا اور محبت نے آسمان کی طرف…… اور ہمیشہ قائم رہنے والی محبت کو یقین تھا کہ یہ تاج اس کا ہے۔ٹرائے کے بادشاہ نے فیصلہ کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کیاکہ محبت کے راستے میں بھیانک تباہی کو بھی دخل ہوتا ہے۔محبت اکثر جیت کر بھی ہار جاتی ہے۔ جس وقت بادشاہ کے بیٹے نے فیصلہ سنایا اس وقت محبت کی دیوی ہیلن کے لباس میں تھی۔ہیلن کی صورت میں تھی۔ہیلن اسپارٹا کے بادشاہ کی بیوی تھی اور اس وقت دنیا کی سب سے خوبصورت عورت میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ ٹرائے کے بادشاہ کا بیٹا جس نے فیصلہ سنایا تھا، اسپارٹا کے بادشاہ سے ملا۔ اس کا مہمان بن کر محل میں ٹھہرا اور ہیلن کو بھگاکر ٹرائے لے آیا۔ اسپارٹا نے یونانی شہزادوں سے مدد مانگی اور ہیلن کو واپس لانے کا تہیہ کرلیا۔ یونانی فوج نے ٹرائے پر حملہ کردیا۔ جنگ برسوں چلتی رہی۔ ٹرائے کے شہزادے نے اپولوسے مدد مانگی لیکن یونانیوں کی مکاری کے آگے ٹرائے کی فوج کمزور پڑگئی۔ یونانیوں نے فتح کے لیے لکڑی کے گھوڑے تیار کیے اور یہ ٹروجن گھوڑے شہر کی فصیل کے چاروں طرف کھڑے کردیے گئے۔ ٹرائے کے لوگوں نے سمجھا کہ یونانیوں نے زبردست تیاری کے ساتھ حملہ کردیا ہے اور یونانیوں کی فوج ٹرائے میں داخل ہوچکی ہے— ٹرائے کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ ہیلن کو آزاد کرا لیا گیا..
محبت ، حکمت ، فیصلہ ، اس کے پاس سب کچھ ہے . اسکے پاس ھیلن ہے ، جسے اس نوجوان نے انہی دنوں دریافت کیا تھا، جب ہماری ملاقات ادب کے زینے پر ہوئی تھی . . ہیلن یعنی محبت کا سر چشمہ ، جو ایک ہی برس میں ادب میں منتقل ہو گیا . پھر ہماری دوستی ہو گیی . وہ میرے چھوٹے بھایی منور عالم شوقی کا دوست تھا . ادبی سلطنت پر فتح کا پرچم لہرانے کے لئے اس نے خاموشی سے لکڑی کا گھوڑا تیار کیا اور اس کے اندر اردو ، فارسی انگریزی کے سرمائے کو رکھ دیا . انگریزی سے ایم اے کیا .اس وقت تک ہماری صبحیں اور شامیں حسین ہو چکی تھیں .
رومی نے کہا ، اس دنیا میں جو کچھ ہے عشق ومحبت کا مظہر ہے.. وہ اسی راستے پر چلا . اور دنیا کو قریب سے دیکھا .
میں ایک دھند سے نکلتا ہوں .ایک دوسری دھند میں قدم رکھتا ہوں . میرا شہرآرا اس شہر کو خزاں کی نظر کھا گیی . کبھی آرہ کی سڑکوں اور گلیوں پر ہماری شہنشاہی کے دنوں کا بسیرا تھا .نعمان شوق ، عالم خورشید ، خورشید طلب ، شاہد کلیم ، خورشید سحر ، دویندر گوتم . تاج پیامی مرحوم .. دل سے اہ نکلتی ہے .حفیظ بنارسی مرحوم ، اختر مسعود… تاج صاحب چلے گئے .شاہد کلیم ، حفیظ بنارسی رخصت ہوئے . ارا کو یاروں نے الوداع کہا اور نیی دنیاؤں میں قدم رکھا . ..کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو . آرا جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب .رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے .وہ قلندر صفت نوجوان . بغل میں قرآن شریف دابے .احترام کی گلیوں کا اجنبی مسافر . اب آشنایی کے دروازے کھلے . اب یہ نوجوان نعمان شوق تھا . . ہم ملے اور اس طرح ملے کہ ایک نے دلی کو مسکن بنایا تو کچھ دنوں بعد دوسرے کے لئے بھی دلی کے دروازے کھل گئے ہم ہم ماہی گیر ہیں اور سمندر میں راستہ کھوج لیتے ہیں . یہ دلی سلطنت کی دیواروں کو چومنے کے بعد اسکا پہلا مکالمہ تھا . سمندر میں راستہ مل گیا …خورشید اکرم ، مرحوم شاہد انور ، اکرام خاور ..دائرہ بڑا ہوتا گیا .خوشی کی لہر اپنے پیچھے ایک دائرہ چھوڑ جاتی ہے . موسم بہار کی آمد ہو چکی تھی . اور اس نے کیفے میں بیٹھے ہوئے کہا ، ہم آگ روشن کریں گے اور پڑاؤ ڈالیں گے . سوچیں گے کہ خود کو آشکار کر کے کیا حاصل کیا . اجنبی ساعتوں کے درمیاں اس کا پہلا مجموعہ تھا اور اس نے آگ روشن کر لی تھی .پڑاؤ ڈال دیا تھا .اب اس کے قدم پختہ ارادوں کے ساتھ نیی منزلوں کی طرف بڑھ رہے تھے .
میں نے دھول کا طوفان دیکھا .تب میرے پاؤں خشک تھے . زمین کانپ رہی تھی . اور اس نے ایک نظم اپنے مرحوم بھائی کی یاد میں لکھی .
عنوان ہے۔
24جنوری1990
تم نے اندھیری رات چنی
اور رسی چنی اپنے لئے
اور میرے لئے بند کریئے
عذاب ماہ وسال سے
بچ نکلنے کے تمام راستے
میں نے ماں کو ماں کہا/تم سے پہلے
رو کر اور چیخ کر
میں نے توڑی خاموشی کی برفیلی چٹان
اور اپنی ہتی کا اعلان کیا
تم سے پہلے
جلتی سیخوں میں
داغا گیا میرا احساس
تم سے پہلے
آتی جاتی سانسوں نے
آگ بھری میری ہڈیو ں میں
گہری کالی رات نے
بسیرا کرلیا تھا مجھ میں
تم سے پہلے
میں نے بھی
چن رکھی تھی___ ایک رات
بھیانک، منحوس اور کالی رات
اپنے لئے
میں نے بھی
ایک رسی چن رکھی تھی
نعمان کے مطابق ،”انسانی ارتقا کی تاریخ کے اس موڑ پر جہاں بیسویں صدی اپنا سفر ختم کررہی ہے۔کلون، روبوٹ، انٹرنیٹ اور ایسے نہ جانے کتنے موضوعات ہماری روز کی گفتگو کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ وہ حسّی اور جذباتی نشیب وفراز سے پرزندگی جو ہمارے پیش روﺅں کو ورثے میں ملی تھی، ہمارے لئے شاید قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ میری شاعری میرے حسی تجربات کی زائیدہ ہے جس کی نیرنگی اور بوقلمونی نے میرے اندر ایک پورا جہان آباد کررکھا ہے۔“
(نعمان شوق، پیش لفظ، اجنبی ساعتوں کے درمیان)
وہ غزل میں میر کی روایت کا نمائندہ ہے . نرم لب و لہجہ ، بول چال کی زبان جامعیت و ہمہ گیریت کے ساتھ اس کے فنی شعور کا پتہ دیتی ہے . اس کے یہاں چیخ بھی ٹمٹماتی ہوئی لو کی طرح ہے . اس کی شاعری موسیقیت سے خالی ہے اور آپ زیادہ کشش محسوس نہیں کر سکتے مگر اسکے مدھم مدھم لہجے کی آنچ کو جب آپ محسوس کریں گے تو اس کے سحر سے نکلنا آسان نہیں ہوگا .اس کی کی شاعری میں جو تشبیہیں اور استعارے استعمال ہوتے ہیں، اس کے لئے نعمان کو ریگستان کی گرم ریت سے گزرنا نہیں پڑتا ، یہ اسکا مخصوص اور منفرد لب و لہجہ ہے کہ وہ خوشی یا درد کے اظہار کو آسانی سے جگ بیتی بنا لیتا ہے .اس کی شاعری کہیں سے بھی اجنبی نہیں لگتی .اس کی سادگی میں بلاغت بھی ہے سوز و گداز بھی .۔ عام احساسات اور جذبات کی ترجمانی بھی وہ اس خاموشی سے کرتا ہے کہ نہ آہنگ پیدا ہوتا ہے اور نہ شور ،اس لئے بھی وہ دوسروں سے مختلف ہے . وہ ایک لکیر کھینچتا ہے اور اس کے چاروں طرف برف کی سلیاں رکھ دیتا ہے . اور جیسا میں نے کہا ، وہ موسیقیت کے بہاو میں اچھے شعروں کا خون نہیں کرتا . اس کی جمالیات کی حس مختلف ہے . وہ شور ہنگامے سے خوف زدہ ہوتا ہے . وہ رومانی ہوتا ہے تو لمس و لذت کے فطری یا سفلی بہاو سے زیادہ وہ فکر کو ترجیح دیتا ہے اور بدن سے نیے مکالمے کرتا ہے . مگر ایک ٹھہراؤ کے ساتھ ..یہ ٹھراؤ اس کی زندگی کا حصّہ ہے . اس کی قربت کی چھاؤں میں برسہا برس گزرے ہیں . متانت اور سنجیدگی کے مقابلے اس کے یہاں قہقہے کم ہیں . اس لئے اسکی شاعری عیش و نشاط و انبساط کی شاعری نہیں ، وہ ٹھہری ہوئی پختہ لکیر چھوڑتا ہے اور پتھروں سے یہ لکیریں غائب نہیں ہوتیں .
یہ اشعار دیکھئے —
دن بہ دن گھٹتی ہوئی عمر پہ نازل ہو جائے
ایک جسم اور مری روح کو حاصل ہو جائے
غم اس قدر نہیں تھے ڈھلے جتنے شعر میں
دولت بنائی خوب متاعِ قلیل سے
انتظام ایسی تباہی کا کیا ہے اس نے
جسم ویران نہ ہو روح پہ تالے پڑ جائیں
کل وہ چقماق بدن آیا تھا تیاری سے
روشنی خوب ہوئی رات کی چنگاری سے
سب جہانگیر نیاموں سے نکل آئیں گے
اب تو زنجیر ہلاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
کیا زمانہ تھا کہ سب عرصۂ جاں میرا تھا.خیمۂ خواب سرِ جوئے رواں میرا تھا.. نعمان کے یہاں پہیلیاں نہیں ہیں . حیرت و استعجاب میں مبتلا کرنے کا فن اس کو نہیں آتا .اس کی شاعری میں الجھتا ہوں تو آتش رفتہ سے نکلتی چنگاریاں میرا تعاقب کرتی ہیں . کیا زمانہ تھا کہ سب عرصۂ جاں میرا تھا . ملکی محلہ کی گلیاں .تھوتھا کباب والا ، منگرو کی چائے ، گوپالی کنواں ، گھنٹہ گھر ، ایک بار پھر یہ سارے منظر میرے سامنے ہیں .. ان مناظر سے روشنی کا ایک کولاز تیار ہوتا ہے . وہ بڑے عھدے پر ہے مگر غرور نہیں . اس پر ایک بڑی ذمہ داری ریختہ کی بھی ہے . ہندوستان کے پانچ سات بڑے شاعروں کا نام لیا جائیگا تو ایک نام نعمان شوق کا ہوگا . وہ اپنی کتابیں دینے سے بھی شرماتا ہے . بے نیاز طبیعت کا مالک ، اور یہ کولاز دلی آ کر مکمل ہوتا ہے ، جہاں انتہایی سادگی اور توازن کے ساتھ اس نے زندگی کی شروعات کی اور اب بھی یہی بے نیازی اس کے وجود کا حصّہ ہے . اس اشعار میں کہیں کوئی گھن گرج نہیں . مگر وہ سادگی سے ایک بڑی دنیا کی تلاش میں نکل جاتا ہے .
جزیہ وصول کیجئے یا شہر اجاڑےے
اب تو خدا بھی آپ کی مرضی کا ہو گیا
کبوتروں میں یہ دہشت کہاں سے در آئی
کہ مسجدوں سے بہت دور جا کے بیٹھ گئے
میں خانقاہِ بدن سے اداس لوٹ آیا
یہاں بھی چاہنے والوں میں خاک بٹتی ہے
ہم بھی ماچس کی تیلیوں سے تھے
جو ہوا صرف ایک بار ہوا
پوچھو کہ اس کے ذہن میں نقشہ بھی ہے کوئی
جس نے بھرے جہان کو زیر و زبر کیا
اس کی ایک نظم دیکھئے – کچھ نیی آوازیں پرانے قبرستان سے
مکھی کی طرح پڑی ہے
آپ کی چائے کی پیالی میں
ہماری وفاداری
ہم جو بابر کی اولادیں نہیں
باہر نکلنا چاہتے ہیں
تعصب اور ریاکاری کے اس مقبرے سے
شہر کے سب سے پرانے قبرستان سے
اٹھتی یہ آوازیں
سنایی دے رہی ہیں آپ کو
شہر کے سب سے پرانے قبرستان سے آوازیں تو آ رہی ہیں مگر سننے والا کون ہے ؟ ہم ایک آتشدان کے قریب جمع ہیں اور اجنبیت اداس چہروں کے درمیان گہری نیند میں ہے . طلسم کے اس پار میرا شہر آرا ہے اور کتنی یادیں ہیں .ملکی محلہ . مہادیوا . ہم ہزاروں بار ملے . ایک وہ بھی زمانہ تھا ، جب صبح صبح ٹہلتے ہوئے پوسٹ آفس کا چکر لگا آتے . شاید کوئی خط یا رسالہ آیا ہو .انتظار کون کرے . پھر زندگی سے سیلاب رخصت ہوا .توازن آ گیا . میں دلی آیا تو نعمان بھلا آرا میں کیسے رہ سکتے تھے . ..میں ، خورشید اکرم ، نعمان ، ہم سب ایک دوسرے کے رازدار بھی ہیں . اب تو برسوں کا ساتھ ہے . صدیوں کا ساتھ ..منزل کو تتلیوں کی طرح ہتھیلیوں سے چھوتے ہوئے دیکھا ہے . وقت کاطویل عرصہ گزر گیا .. دیکھتے ہی دیکھتے ہم بزرگ ہو گئے . یہ ادب تخلیق کرنے کے لئے کویی بہتر وقت نہیں .اور یہ بھی نہیں کہ ہم ذاتی غم کو آفاقی بنا کر پیش کریں .زندگی کا مفہوم اس کے نزدیک بہت وسیع ہے. مگر وہ ایک ٹھہری ہوئی ندی ہے . اس ندی میں ابال نہیں آتا .متوازن لہجہ اسکی مضبوط شناخت ہے . پوری کائنات کو عشق کا مظہر سمجھنے والے نعمان کے لئے وہ رسی کا پھندا آج بھی ایک علامت ہے . وہ اس پھندے سے کبھی باہر نہیں آ سکا . اور آج بھی خوف و انتشار کی ندی کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے اندر کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوتی . وہ سقراط کی طرح خاموشی سے زہر پینے پر یقین رکھتا ہے .
تم سے پہلے..میں نے بھی..چن رکھی تھی___ ایک رات..بھیانک، منحوس اور کالی رات..اپنے لئے..میں نے بھی..ایک رسی چن رکھی تھی
اس کی شخصیت میں بذلہ سنجی اور شگفتگی بھی ہے .اس کے پاس نطشے کا سپرمین اور اقبال کا انسانِ کامل نہیں ہے . سچائی موضوعی ہوتی ہے، اس لئے وہ
مادّی دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اور کسی طرح کی پیچیدگی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتا . انسانی اذہان کی تفہیم کے لئے وہ باطن کا سہارا لیتا ہے .اور ایسے آسان لفظ ایجاد کرتا ہے ، جن میں تہہ در تہہ موتیوں کے خزانے ہوتے ہیں . وہ شاعری کو چاندی کی چمک دینے سے فرار حاصل کرتا ہے . اور یہ رنگ و اسلوب اس نے محنت سے حاصل کیا ہے .یہ بھی ایک پختہ رنگ ہے جس میں جادو جیسی کیفیت ہوتی ہے .
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...