نوجوانوں کا استحصال کیسے ختم ہو؟
افریقہ کہ ملک سیراء لیون میں ایک جان بُل نامی بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ بارہ سال کی عمر میں باپ فوت ہو جاتا ہے لہٰزا تعلیم ختم ہو جاتی ہے اور پندرہ سال کی عمر میں جب والدہ فوت ہوتی ہے تو کان کہ مالکوں کہ ہاتھوں غلام بن جاتا ہے ۔ سیراء لیون ہیرا ، جواہرات ، سونا اور ٹائٹینیم کی کانوں کے لیے بہت مشہور ہے ۔ حالنکہ سیراء لیون کہ ساحل سفید ریت والے بہترین سیاحوں کہ لیے لیکن جب سے ۱۹۶۱ میں سیراء لیون برطانیہ سے آزاد ہوا لٹیروں کہ ہاتھوں رہا ۔ مسلم آبادی ۷۸ فیصد ہے اور انگریزی سے نکلی ایک زبان کرین سب کو اکٹھا کرتی ہے ۔
جون کو دو سال پہلے ایک ۷۰۹ کیریٹ کا ہیرا ملتا ہے جس کی قیمت کوئ ساٹھ سے ستر ملین ڈالر باآسانی بتائ جا رہی تھی ۔ سیرا لیون میں یہ سارا کام مافیا کہ ہاتھوں میں ہے وہ یہ سارا مال سمگل کرتے ہیں اور کان کن اور ٹھیکیدار کو بھی معقول معاوضہ دیتے ہیں ۔ لیکن یہ غیر قانونی ہے ، قانونی طریقہ یہ ہے کہ ساری معدنیات سرکار کی ملکیت ہے وہ جو کچھ بھی نکلتا ہے اس کی قیمت ۶۰ فیصد اپنے پاس رکھتے ہیں اور باقی کان کن اور ٹھیکیداروں کا ۔ اس قانونی طریقے سے معاوضہ بہت کم ملتا ہے لہٰزا زیادہ تر سمگلنگ ہی ہوتی ہے ۔
جب یہ ہیرا ، جس کو ٹائم میگزین نے peace diamond لکھا ، جون اپنے پادری مومو کہ پاس لے کر گیا تو اس نے کہا کہ ہم اسے سرکار کو دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی قیمت کا ساٹھ فیصد رکھ لیں لیکن ہمارے علاقے میں اسکول اور سڑکیں بنائیں ۔ سرکار سے رجوع کیا جاتا ہے ، ہیرا کی نیلامی ہوتی ہے اور ہیرا دھندلا اور اچھا کٹ نہ ہونے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں صرف چھ ملین ڈالر کا بکتا ہے ۔ جس میں سے پادری کو کوئ دو ملین ملتا ہے علاقے میں رفاہی کام کروانے کا اور اس لڑکے جون کو ایک لاکھ ڈالر ۔ جون اپنے بہن بھائیوں کو گھر لے کر دیتا ہے گاڑی لیتا ہے اور پندرہ ہزار ایک ریلروٹنگ ایجنٹ کو کینیڈا جانے کے لیے ۔ گھانا میں کینیڈا کی ایمبیسی میں دو دفعہ اپلائ کرنے کے باوجود ویزا ریجیکٹ ہوتا ہے اور وہ جرمنی کے لیے کوشش کرتا ہے اس میں بھی ناکامی ہوتی ہے اور واپس گھر لوٹتا ہے ۔ اب صرف دس ہزار سے بھی کم ڈالر جیب میں اور پادری کہ ہاں حاضری دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ میں نے تمہے بتایا تھا کہ میرا بھی برطانیہ کا ویزا نہیں لگا تھا اور میں نے بہت پیسے ضائع کیے ۔ آؤ اپنے ملک کو ہی ٹھیک کرتے ہیں ۔ ہیرا اس وقت نیو یارک کہ ایک پرائیوٹ میوزیم میں پڑا ہے اور اس کمپنی کی کوشش ہے کہ جو فنڈ اس سے generate ہوتا ہے اس کا بھی کچھ حصہ سیراء لیون کہ غریب کان کنوں کو دیا جائے ۔ ان کو شہری سہولتیں فراہم کی جائیں ۔ پوری دنیا اربوں لوگوں کہ استحصال اور غربت پر شرمندہ ہے ۔ ہیں نہیں تو نواز شریف اور زرداری جیسے لیڈر ۔ ہمارے ہاں چین کو سینڈک دیا گیا تانبا نکالنے کہ لیے وہ سونا بھی لے دوڑے ۔ چکوال میں دنیا کے بہترین limestone کہ پہاڑ ہیں جو مفت منشا اور پرویز بیسٹ وے سیمنٹ والوں کو دے دیے ۔ انہوں نے الٹا پانی ختم کر دیا ۔ کٹاس راج تباہ کر دیا ، ماحول کی آلودگی مفت میں اور استحصال کی تمام حدیں پار کیں ۔
پانچ سال عمران کی کے پی کے ، میں حکومت رہی ، یہ استحصال جاری رہا ۔ ماموں چاچوں کو کانیں دے دی گئیں ۔ آج بھی پنک روبی ہنزا میں ۷۵ فیصد بلاسٹ کی نظر ہو جاتا ہے ۔ پتھر جیبوں میں ڈالے لوگ پھرتے ہیں ۔ ایک زمانے میں شہزاد ارباب کہ کزن میرے بیچ میٹ شاہ رخ ارباب mineral department کہ انچارج تھے، میں ان دنوں ٹریڈنگ کرتا تھا ان سے کہا کہ میں باہر سے ماڈرن ٹیکنالوجی لاتا ہوں کچھ کر جائیں ۔ بابو لوگوں کو اس سے کیا غرض ۔
میری ایک تجویز ہے اگر ان بابؤں کو سیدھا کرنا ہے تو خان صاحب ان کو کام پر لگائیں ۔ شام کو گورنمنٹ کہ اسکولوں میں یہ پڑھایا کریں بجائے اس کِہ پرائیوٹ لٹیرے ۔ پروموشن کا اسٹینڈرڈ یہ رکھیں کہ کس نے کتنی تعلیم پھیلائ ، کتنے درخت لگائے ۔ میجر اعظم سلیمان دس سال شہباز شریف کا وفادار افسر رہا اور آج وہ پنجاب کا خان صاحب کہ انڈر چیف سیکریٹری بن رہا ہے ۔ اس کو لگائیں سارے شہباز کہ زمانے کہ پروجیکٹس کسی باہر کی کمپنی سے audit کے لیے جن سے شہباز شریف نے اربوں کھایا اور ساتھ ہی جیل بھیجیں ، کہ بھائ صاحب آپ دس سال کیا کرتے رہے ؟۔ سارا دکھ ہی یہ ہے کہ ان کا کوئ پرفارمنس آڈٹ ہی نہیں ۔ ایک افسر کیسے ارب پتی بن کہ ریٹائر ہوتا ہے ؟ انہوں نے پاکستان کو اس نہج پر پہنچایا ، پہلے خود سیاسی حکومتیں گرا کر اور بعد میں ان کو گُربتائے مل کر لُوٹنے کہ ۔ پاکستان کہ بہتر مستقبل کہ لیے خان صاحب ہم آپ کہ ساتھ ہیں اور رہیں گے ۔ وقت بہت کم ہے ، داغ دہلوی یاد آ گئے ۔
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے؟
ابھی سن ہی کیا ہے؟ جو بیتابیاں ہوں
اُنہیں آئیںگی شوخیاں آتے آتے
نتیجہ نہ نکلا، تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو
وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے
مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے
چمن اُڑ گیا آندھیاں آتے آتے
نہیں کھیل اے داغ ، یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔