ترجمہ : انوار احسن صدیقی
نوجوان مصنفوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہُنر کا قریبی مطالعہ کریں۔ایسا کرنے کے لیے ان کا اپنے ادب سے واقف ہونا لازمی ہے۔آپ کو یہ نظر آئے گا کہ بعض نوجوان مصنفین کسی غیر ملکی مصنف سے اس وجہ واقف ہوئے ہیں کہ انھوں نے اس کے نام کا تذکرہ ٹیلی ویژن پر سُنا ہے، یا وہ کسی ایسی محفل میں موجود تھے جہاں اس مصنف کی تصانیف پر گفتگو کی گئی تھی۔لیکن اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انھوں نے مذکورہ مصنف کی کون کون سی تحریریں پڑھی ہیں، تو وہ خجالت کا شکار ہو جائیں گے اور اپنی کرسیوں پر تلملانے لگیں گے، کیوں کہ انھوں اس مصنف کی کوئی بھی تحریر پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہوگی۔لکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ لکھنے والا اپنے پیش روؤں کے تجربے سے سیکھے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو صرف اپنے تصورات کی چہاردیواری میں قید ہوکر رہ جائے گا۔
ادبی کلچر کے علاوہ، مصنفوں کو عمومی کلچر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔مصنفوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخ، سیاسیات، سائنس، فلسفہ اور نفسیات کا مطالعہ کریں۔ضروری ہے کہ وہ موسیقی اور آرٹ کا مطالعہ کریں۔معلومات عامہ وہ خام مال ہے جس سے وہ تحریک حاصل کریں گے، یہ ایک ایسی پرورش گاہ ہے جس میں ان کی تخلیقیت ایک متحدہ شکل اختیار کرسکتی ہے اور سچائی اور حُسن کے شفاف عنصر کو جنم دے سکتی ہے۔
مزید یہ کہ لکھنے والوں کے لئے اس امر کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کا ایک دن بھی کم از کم کسی چھوٹی سی نئی تخلیقی کاوش کے بغیر نہ گزرے۔شاید انہیں کامیابی حاصل ہو شاید انہیں کوئی نیا خیال میسر آ جائے جسے بالآخر فروغ حاصل ہو جائے ۔شاید وہ کوئی کہانی مکمل کرلیں، یا شاید کچھ بھی نہ لکھ پائیں۔بہر صورت، ایک مصنف کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزانہ لکھنے کے لئے بیٹھے، اپنا قلم اٹھائے اور کاغذ پر کچھ لکھنے کی کوشش کرے، کچھ بھی ۔۔۔اور آخری بات یہ کہ لکھنے والوں کو لامحدود صبر و تحمل کا حامل ہونا ضروری ہے۔انہیں ہمیشہ لازماً تیار رہنا چاہیئے کیوں کہ کیا خبر، کب لکھنے کی تحریک اچانک بیدار ہو جائے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...