کچی دیواروں سے بنے گھر میں ہم چار جاندار رہا کرتے تھے ابٓا ، اماں ، میں اور ایک بکری۔ ابٓا مجھ سے بے انتہا پیار کرتا اور ہر روز میری رگوں میں اپنا ہنر انڈیلتا۔ جب کبھی مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوجایا کرتی تو وہ میرے سر پر ایک ہلکی سی چپت رسید کر دیا کرتا لیکن میری غلطی کی سزا بیچاری بکری کو بھگتنا پڑتی۔ ابا کا بے رحمی سے برستا ڈنڈا اور کھونٹے سے بندھی درد سے ممیاتی بکری کو دیکھ کر میں سہم جاتا۔ ابٓا کی یہ نا انصافی مجھے کبھی سمجھ نہ آئی، بس میری یہی کوشش ہوتی کہ میں وہ غلطی دوبارہ نہ دہراوں کہ جس کی سزا بکری کو ملے۔ ابا جب بکری کو مارتے مارتے تھک جاتا تو ڈنڈا زمین پر پھینک دیتا اوراپنی دونوں بانہیں پھیلا کر مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کرتا۔ میں دوڑتا ہوا اپنے ابٓا کی گود میں چڑھ جاتا اوروہ مجھے پیار سے چمکارنے لگتا، میں ابا سے نظریں بچا کر خوف اور درد سے ہانپتی بکری کو کن انکھیوں سے دیکھتا اور دل ہی دل میں دوبارہ کوئی غلطی نہ کرنے کا عہد کرلیتا۔ ہرگزرتا دن میری غلطیوں کوسدھارتا چلا گیا، باپ کا ہنر بیٹے کے سینے پر مہارت کا تمغہ بن کر چمکنے لگا اورمیری دکھ کی ساتھی سکھ کی جگالی کرنے لگی۔
ایک شام ابا نے بکری کی رسی کھولی اور اسے میرے سامنے پچھاڑ دیا بکری گھٹی ہوئی آواز میں چلائی لیکن ابا نے بڑی ہی بے دردی سے اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔ بکری کے نرخرے سے خون کا فوارہ ہوا میں اچھلا اور میرا پورا چہرہ خون سے رنگ گیا۔ میں بدحواسی کے عالم میں اِدھراُدھر بھاگنے لگا۔ ابا نے میرے سامنے بیٹھ کر بکری کا گوشت بنایا اوراسے آگ پر چڑھی دیگ میں پکانے لگا۔۔۔۔ شام ڈھلتے ہی آس پڑوس کے بزرگ اور خاندان کے کچھ افراد گھر میں اکھٹے ہوئے۔ دسترخوان بچھا کر لوگوں کے آگے کھانا رکھا گیا، وہ سب بہت دیر تک میری محسن کو اپنے حریص جبڑوں سے چباتے رہے اور نہ نگلی جانے والی ہڈیوں کو ہوا میں اچھالنے لگے۔ میں ہوا میں قلابازی لگاتا اوران ہڈیوں کو زمین پر گرنے سے پہلے ہی دبوچ لیتا، پھر تو جیسے لوگوں نے اسے کھیل ہی بنا لیا اور دیگ میں بچی آخری بوٹی تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ رات ہوجانے پر لوگ بھرے پیٹ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ گھر خالی ہوتے ہی ابا نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور پھر وہ سونے چلا گیا۔۔۔ میں نے جمع کی ہوئی تمام ہڈیوں کو اکھٹا کیا اور اسے ایک ترتیب کیساتھ خون آلود رسی اور کھونٹے کے گرد رکھا اور سپیدۂ سحری تک میری سماعت قم باذن اللہ سننے کو بے قرار رہی۔
ابا ایک مداری تھا، لیکن خدا کے نزدیک وہ پورے خاندان کا درد اپنے جسم پر سہنے والی میری بکری سے کم نہ تھا ، رب جانے وہ تماشہ دکھاتا تھا یا خود ایک تماشہ تھا۔ جب لوگ میرے ابا کے گرد دائرہ بنا کر جمع ہوجاتے تو لوگوں کا رش اُس کے اندر ایک نیا جوش بھر دیتا اسکے نحیف بدن سے گرجدار آواز ایک معجزہ بن کر نکلتی۔ میری نظر ابا کے ڈگڈگی بجاتے ہاتھ اور ڈنڈے کی مانوس سفاکیت پر ہوتی اور ابا کی نظر تماش بینوں کی ٹھنسی ہوئی جیبوں پر، اسکی للچائی ہوئی آنکھیں جیبوں کی جانب رینگتے ہوئے ہاتھوں کو بڑی آس لگائے اس خیال سے دیکھا کرتیں کہ ناجانے کب کوئی ہاتھ اسکی جانب پیسہ اچھال دے۔ میں سارا وقت زمین پر پڑے سکے جمع کرتا اور اسے ابا کے آگے رکھے برتن میں ڈال دیتا، روپیہ دیکھ کر ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ اور ابا کی آواز اس قدر بلند ہوجاتی کہ آسماں پر سوئے فرشتے تک جاگ اٹھتے لیکن پھر بھی خدا کی آنکھ نم نہ ہوتی۔ خدا کو یوں خاموش اور مصروف پا کر فرشتے فرات کے اجلے پانیوں اورسرخ ریت کو یاد کرتے ہوئے دوبارہ سوجاتے۔
گھر میں ایک ننھےفرشتے کی آمد متوقع ہے، گھر میں ایک اور نوحہ گر ماں کی کوکھ میں اپنی باری کے انتظار میں ہے۔ واہ رے مولا ! تو بھی فرشتے کے جسم پر پیٹ ٹانک کر اُسے انسان بنا دیتا ہے اور بھوک اسے حیوان۔ ابا اکثر معدے میں تیزابیت کا بہانہ کرکے راتوں کو خالی پیٹ ہی سوجایا کرتا، شائید اس لئے کہ میری ماں اور اسکی کوکھ میں پلنے والا نیا مداری بھوکے نہ سوئیں۔ دکھ آکاس بیل بن کر اس کے بدن سے لپٹا ہوا تھا اور وہ آہستہ آہستہ ابا کو کھا رہا تھا، نئے مداری کی آنکھ کھلنے سے پہلے ہی پرانے مداری کی آنکھ بند ہوگئی۔ تماشہ وقت سے پہلے اپنے انجام کو پہنچا لیکن رکا نہیں، اب ڈگڈگی ماں کے ہاتھ میں تھی اور نیا مداری ماں کے پیٹ میں۔ ماں اور میں گلی گلی ڈگڈگی بجاتے ہوئے ابا کا نوحہ دہرانے لگے۔ تماشہ وہی پرانا تھا اور تماش بین بھی لیکن پیسہ پہلے سے کہیں زیادہ برستا تھا، میری عقل چھوٹی تھی اس لئے دیر سے سمجھ آیا اب تماش بین کی آنکھوں میں حیرت اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ ہوس بھی شامل تھی۔
پھر ایک دن اچانک ڈگڈگی بجتے بجتے دوبارہ خاموش ہوگئی میں نے جب پلٹ کر دیکھا تو میری ماں درد سے تڑپ رہی تھی لیکن میں اس درد کو سمجھنے سے قاصرتھا۔ ایک دفعہ ڈگڈگی بجنا بند ہوئی تو میرا باپ مجھ سے جدا ہوگیا، پھر جب آج دوبارہ ڈگڈگی کھیل ختم ہونے سے پہلے خاموش ہوئی تو دل میں خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میری ماں بھی مجھ سے بچھڑنے والی ہے ۔۔۔ میں دوڑتا ہوا اپنی ماں کے قریب پہنچا تو دیکھا وہ اپنے پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھے درد سے کراہ رہی تھی، میں نے اسکے ہاتھوں میں ڈگڈگی اور ڈنڈا تھمایا اوراپنی پہلی والی حالت میں کھڑا ہوگیا لیکن ڈگڈگی پھر بھی نہ بجی پلٹ کر دیکھا تو دونوں چیزیں ایکبار پھرزمین پر تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے حسی چاروں جانب رقصاں تھی تماش بین میری ماں کے گرد گول دائرے کی صورت میں کھڑے تھے۔ ان سب کے لئے ایک نیا تماشہ شروع ہوچکا تھا۔ ایمبولینس بھیڑ کو چیرتی ہوئی آگے بڑھی اور میری ماں کو زندہ نگل لیا۔ بس اس دن کے بعد سے میں اپنی ماں کا چہرہ دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکا۔۔۔
میرے پاس وہ ڈگڈگی آج بھی موجود ہے، جب کبھی مجھے اپنے اماں ابا کی یاد آتی ہے تو میں اسے لے کر بازار کی جانب نکل پڑتا ہوں- لوگوں کے درمیان کھڑا ہوکر اسے زور زور سے بجاتا ہوں اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر کئے دیوانہ وار ناچنے لگتا ہوں۔۔۔ چند پرانے تماش بین مجھے پہچان کر میری جانب روٹی اچھال دیتے ہیں، کچھ لوگ اب بھی خدائی صفت کا بھرم قائم رکھتے ہیں اور مجھے دیکھے بغیر ہی گزر جاتے ہیں لیکن میں ان باتوں کی پرواہ کئے بغیر ناچتا ہی چلا جاتا ہوں۔ جب چند شرارتی بچے مجھے پتھر مارتے ہیں تو اپنی ماں اور پیاری بکری کی تکلیف یاد آجاتی ہے، کسی نامعلوم سمت سے اچانک نمودار ہوجانے والی ایمبیولینس کے خوف سے میں چیختا چلاتا قریبی درخت پر چڑھ جاتا ہوں اوراس کی شاخوں کو اس زور سے ہلاتا ہوں کہ اسکے سارے پتے جھڑ جاتے ہیں۔۔۔ میں درخت کی ننگی شاخ پر بیٹھا آسمان کی جانب سر اُٹھا کر ایک بار پھر ڈکڈگی بجا کر اپنے ابا کا نوحہ دہرانے لگتا ہوں ۔۔۔
ڈگ، ڈگ، ڈگ ۔۔ڈرپ۔۔۔ڈگ، ڈگ، ڈگ،ڈگ ،ڈگ، ڈگ ۔۔۔۔۔ ڈرپ۔۔۔۔ڈگ ڈگ۔۔
سوئے ہوئے فرشتے دوبارہ جاگ جاتے ہیں، لیکن اس دفعہ وہ خدا کی بنائی ہوئی بے شمار ڈگڈیاں آسمان سے زمیں کی جانب اچھال دیتے ہیں اور وہ سب ایک ایک کرکے سیکڑوں ماوں کی کوکھ میں پیوست ہوجاتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://web.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1726044930995540/