کباب کھانے کو دل کر رہا ہے ۔ اور وہ بھی شیر کی ران کے ۔پکانے کے لیے ایندھن بھی درکار ہے۔یہ ایندھن جمشید اور کیقباد کے تخت کی لکڑی سے ہونا چاہیے!
سناہے قُم میں شراب میسر نہیں۔ خدا کے لیے تیز تیز قدم اٹھائو اور مجھے رَے سے شراب لا کر دو۔ اگر شراب کا ساغر اژدہا کے منہ میں بھی ہے تو بس‘ہمت کرو اور نکال کر لے آئو۔
اور ہاں!غلام! سن‘ گھوڑے سے زین اتار کہ آج شکار پر نہیں جانا۔ اور اس بات کا بُرا نہ منا کہ آج ہم سوار نہیں ہو رہے کیوں کہ اصل میں تو پیادہ وہ ہے ‘جو مے نوشی پر سوار نہیں۔ اور ہاں!آسمان نیاز مندی کے لیے حاضر ہو تو اسے اشارہ کر دینا کہ آج حاضری کی اجازت نہیں۔
یہ شاعری قاآنی کی ہے جو شیراز میں 1808ء میں پیدا ہوا اور تہران میں 1854ء میں وفات پا گیا۔نام حبیب اللہ تھا ۔نقاد کہتے ہیں کہ جامی کے بعد اتنا قادر الکلام شاعر کوئی نہیں پیدا ہوا اورجامی تو ساڑھے تین سو سال قبل 1492ء میں (سقوط غرناطہ کے سال) وفات پا گئے تھے۔قاآنی کو پڑھیں تو انسان حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ الفاظ کس طرح اس شخص کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ یہاں ہم قاآنی کے ایک مرثیہ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو ایک انوکھے اسلوب میں ہے۔شہیدِ کربلا کو ہر زمانے کے اہل قلم خراج عقیدت پیش کرتے آئے ہیں لیکن قاآنی کا یہ نوحہ اسلوب کے حوالے سے اتنا دلکش ہے اور دامنِ دل کو یوں کھینچتا ہے کہ برائون نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘‘میں بطور خاص اس کی تعریف کی ہے۔یاد رہے یہ کتاب لکھنے میں برائون نے عمر عزیز کے چوبیس سال صرف کئے۔ قاآنی کے اس مرثیہ کا مطلع یوں ہے ؎
بارد چہ؟ خوں‘ کہ؟ دیدہ‘ چساں؟ روز و شب‘ چرا؟
ازغم‘ کدام غم؟ غمِ سلطان کربلا
برسارہی ہے‘ کیا؟ خون! کون؟
آنکھ! کس طرح؟ رات دن! کیوں؟
غم کی وجہ سے !کون سا غم‘ سلطان کربلا کا غم!
باقی مرثیے کے کچھ اشعار کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے ۔اصل مرثیہ انٹرنیٹ پر دیکھا جا سکتاہے۔ایرانیوں نے ڈیڑھ دو ہزار سال کی ساری شاعری انٹرنیٹ پر انڈیل دی ہے ۔
ہم چونکہ مشاغل میں مصروف رہے‘اس لیے تین چار سو سال کی اردو شاعری بھی نہ منتقل کر سکے۔اب اس بات پر ہر روز کیا فخر کرنا کہ گوگل کے سروے کے مطابق انٹرنیٹ کے فحش مقامات دیکھنے میں پاکستان سرفہرست ہے۔یوں تو دعویٰ یہ ہے کہ پاکستان اسی روز معرضِ وجود میں آ گیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا مسلمان اترا تھا۔سندھ پر عربوں کے حملے کو شمار نہ بھی کریں تو غزنوی تو گیارہویں صدی میں داخل ہوچکے تھے ۔لیکن ہمارا ادب ولی دکنی سے شروع ہوتا ہے۔ ولی دکنی 1707ء تک زندہ رہے۔ تو پاکستان اگر ثقافتی لحاظ سے گیارہویں صدی میں شروع ہوا تو درمیان کے سات سو برسوں کا ادب کہاں ہے؟یہ وہ فارسی ادب ہے جس سے ہم نابلد ہیں۔یہ وہ وراثت ہے جس کو لینے سے ہم انکار کر رہے ہیں۔اس کی مثال یوں ہے کہ اگر آج ایک پاکستانی طالب علم’’برصغیر کے مسلمانوں کے ادب‘‘ کے موضوع پر کسی غیر ملکی یونیورسٹی میں لیکچر دیتا ہے تو وہ ولیؔ سے شروع کرے گا۔یعنی 1700ء سے ۔پوچھنے والا پوچھے گا کہ سومنات کا بت تو آپ نے 1025ء میں توڑ دیا تھا۔ تو یہ سات سو سال کا عرصہ کیا بغیر ادب اور شاعری کے گزارا؟لیکن ٹھہریے ہم قاآنی کا مرثیہ پڑھ رہے تھے۔
اس کا نام کیا تھا؟حسینؓ!اولاد کس کی تھا۔علی ؓکی
اماں جان کون تھیں؟فاطمہؓ!نانا کون تھا؟مصطفی ؐ
ہوا کیا تھا؟شہید ہو گئے تھے! کہاں؟دشت ماریہ میں!
کب؟دس محرم کو!
کیا رات تھی؟نہیں!دن تھا؟کیا وقت تھا؟ ظہر کا!
کیا شہید ہوتے وقت سیراب تھے؟نہیں!کیا کسی نے پانی پیش کیا تھا؟ہاں!کیا تھا!کس نے؟شمر نے !کس چشمہ سے؟فنا کے چشمہ سے!
خواتین کی زینت سے کیا بچ سکا؟دو چیزیں بچ گئیں۔گردن میں ستم کا ہار اور پائوں میں غم کی پازیب!
کیا یہ ظلم کسی آتش پرست نے کیا؟نہیں!کسی یہودی نے؟نہیں؟کیا مارنے والے ہندو اور بت پرست تھے؟نہیں!یہی تو فریاد ہے!کیا قاآنی ان اشعار کے لائق ہے؟ ہاں !ہے!کیا چاہتا ہے؟رحمت!کس سے؟حق تعالیٰ سے!کب؟جزا کے دن!!
آج اگر قاآنی جیسا قادر الکلام شاعر ہمارے ملک میں ہوتا تو جو کچھ یہاں چندروز پہلے حواکی بیٹی کے ساتھ ہوا‘اس پر ضرور نئے اسلوب میں نوحہ لکھتا۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم حاشاوکلاّ کسی اور سانحہ کو سانحہ کربلا کے برابر قرار نہیں دے رہے ۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ی کرنے والے کے غم کا دنیا کے کسی غم سے موازنہ نہیں ہو سکتا!یہ فقط نوحہ خوانی کی بات ہو رہی ہے۔ دل پر ہاتھ رکھیے اور نوحہ خوانی کیجئے۔
جھک گئے؟ کیا!سر!
کن کے؟فرشتوں کے؟کہاں؟آسمان پر !
کیوں؟ شرم سے!کس بات پر شرم؟
بے حسی پر!کس کی؟
اہلِ پاکستان کی!کس وجہ سے؟ایک عورت کو جلا دینے سے
کس نے جلایا؟اس کے شوہر نے !کیا وہ ہندو تھا؟ نہیں؟ کیا وہ یہودی تھا؟
نہیں؟کیا وہ سربیا کا عیسائی تھا؟نہیں!
مسلمان تھا!
کیا عورت نے کفر کا ارتکاب کیا تھا!نہیں!کیا اس نے مذہب کی توہین کی تھی؟نہیں ۔کیا اس نے قتل کیا تھا؟نہیں!اس کا جرم کیا تھا؟اس نے ایک اور بیٹی کو جنم دیا تھا!
کیا بیٹیاں آقائے دوجہاں کو محبوب نہیں تھیں؟تھیں!تو کیا یہ توہین رسالت نہیں؟ہے!کیا کسی نے اس توہین پر مسجد کا لائوڈ سپیکر کھول کر عوام کو جمع کیا؟نہیں!کیا کوئی مفتی صاحب بولے؟ نہیں!کیا چیچنیا اور فلسطین کا غم کرنے والے اس پر مغموم ہوئے؟نہیں!کیا ہمارے فوجیوں کو شہادت کے دائرے سے خارج کرنے والوں نے اس ظلم پر احتجاج کیا؟نہیں!کیا کتے کو شہید قرار دینے والے علماء نے اسے مسئلہ بنایا؟نہیں!کیا کوئی ریلی کوئی جلوس نکلا؟نہیں!
کیا یہ ملک اسلام کا قلعہ ہے؟ہاں!ہے!کیا بیٹیوں کی پیدائش پر بھارت میں مائوں کو جلایا جاتا ہے؟ہاں!جلایا جاتا ہے!تو کیا بھارت اور پاکستان اس باب میں برابر ہیں؟ہاں!برابر ہیں۔ کیا پھر بھی پاکستان اسلام کا قلعہ ہے؟ہاں ہے!
کیا یہ ظلم ملک کے کسی دو رافتادہ گوشے میں رونما ہوا؟نہیں!سب سے بڑے صوبے کے وسط میں!
کیا بھارت میں بیٹیوں کی پیدائش پر غم کیا جاتا ہے؟ہاں!کیا پاکستان میں بیٹیوں کی پیدائش پر غم کیا جاتا ہے؟ہاں!کیا پھر بھی پاکستان اسلام کا قلعہ ہے؟ہاں!پوری دنیا کے مسلمانوں کا درد کس کے دل میں ہے؟اہل پاکستان کے دل میں ؟کیا اس کے دل میں پاکستان کے مسلمانوں کا درد شامل ہے۔نہیں!کیوں؟اس لیے کہ یہ تو یوں بھی اسلام کا قلعہ ہے!
کیا کلام پاک میں اس شخص کی مذمت کی گئی ہے جس کے چہرے کا رنگ بیٹیوں کی پیدائش پر سیاہ پڑ جاتا ہے ‘پھر وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے؟ہاں کی گئی ہے !کیا یہ آیات عوام کو پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں؟نہیں!کیوں!اس لیے کہ ملک اسلام کا قلعہ ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“