نوم چومسکی‘‘ ایک تعارف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ و تدوین: شمائلہ جبیں
طالبہ: ایم اے اردو فائنل، مضمون لسانیات
(نوٹ: یہ ایک اسائنمنٹ ہے۔ لسانیات کی کلاس کی ہرطالبہ کو الگ الگ ماہرینِ لسانیات کی زندگی اور کام پر لکھنے کو کہا گیا۔ اس طرح بابائے لسانیت، پانینی سے لے کر دورِ حاضر تک اکیس ماہرینِ لسانیات کی زندگیوں اور اُن کے کام پر اردو میں پہلی بار تفصیلی مضامین تیار ہوگئے۔ میرا ارادہ ہے کہ اِن مضامین کواچھی سی نظرثانی کے بعد کتابی شکل میں شائع کردیا جائے، تاکہ ملک بھر کی لسانیات کی کلاسز کے کام آسکے۔ دنیا کے اکیس بڑے ماہرین لسانیات پر اردو میں یہ پہلی کتاب ہوگی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعارف
نوام چامسکی ایک ایسئ شخصیت جنہیں امریکہ کا ضمیر کہا جاتا ہے،ان کے تعارف کے کئی حوالے ہیں۔ ٓاپ دانشور،فلسفی،مورخ،سماجی نقاد،سیاسی سرگرم کارکن دنیائے لسانیات کے اول درجے کے لیکچرار اور جدید ترین لسانیات کے بانی ہیں۔
نوام چامسکی ۷ دسمبر ۱۹۲۸کو امریکی ریاست پنسلونیا کے شہر فلا ڈیفنا کے متوسط یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کا پورا نام اورام نوام چومسکی ہے۔نام کا پہلا حصہ اورام دراصل ابراہیم کا عبرانی متبادل ہے۔
نوام چامسکی کے والد ولیم زیف چامسکی (William zevchomsky) ایک اشنکزئی یہودی تھےجن کا بنیادی تعلق یوکرین سے تھا۔جو 1913میں بھاگ کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ آگئے اور ولیم جان پاپکنز یونیورسٹی سے تحصیل علم کے بعد کانگریگشیسن میکو اسرائیل مذہبی سکول کے صدر معلم بن گئے اور 1924گریٹز کالج فلاڈیفنا کے اساتذہ میں شامل ہوئے۔
نوام چامسکی کی والدہ ایلسی سائمنومسکی (Elsie simonofsty)ایک ٹیچر اور یہودی مہاجر تھیں جو ہاہکوریشا میں پیدا ہوئیں اور ولیم سے میکو اسرائیل میں کام کر دوران پہلی بار ملی۔
نوام چامسکی اپنے والدین کی پہلی اولاد ہیں آپ سے پانچ سال چھوٹا بھائی ڈیوڈاین ہے۔دونوں بھائی ایک دوسرے کے قریب تھے۔دونوں نے ہی عبرانی ماحول میں پرورش پائی۔اگرچہ ڈیوڈ سہل پسند اور نوام مقابلہ پسند رہے۔انھیں عرابی پڑھائی گئی اور باقاعدگی سے یہودیت کے نظریات پر بحث کی جاتی تھی۔یہ خاندان بائیں بازو کے یہود احدھام (AhadHaam)کی تحریروں سے متاثر تھا اور چامسکی نے بچین میں بطور یہودی فلاڈیفینا کے بالخصوص ا ٓئر لینڈ اور جرمن طیفوں سے یہودی مخالفت کا سامنا کیا تھا۔چامسکی نے پنے والدین کو نارمل جمہوریت پسند بیان کیا تاہم وہ خود بائیں بازوں کے جمہوریت پسندوں میں ظاہر ہوئے۔چامسکی بچین ہی سے اپنے ایک چچا سے کافی حد تک متاثر تھے جن کا نیویارک شہر میں نیورپیپر سٹیند تھا۔جہاں بائیں بازو کے یہودی آئے اور دن کے معاملات پر بحث کرتے تھے ۔چومسکی جب بھی اپنے چچاکے پاس جاتے تو اکثربائیں بازو اور انتشاری کتب گھروں سے سیاسی ادب کا مطالعہ کرتےتھے۔ انھوں نے بعد ازاں اپنی انار کیسٹ کی دریافت کو خوشگوار حادثہ قرار دیا کیونکہ اس نے انھیں دوسرے بائیں تر کے نظریات مثلا لینن ازم اور مارکسزم وغیرہ کا ناقد بننے کا موقع فراہم کیا۔
ابتدائی بچین:
چامسکی نے ابتدائی تعلیم اوک لینڈ کینٹری سکول (Oak land country day school)نامی ادارے سے حاصل کی۔ غیر مقابلہ جاتی ماحول شاگردوں کو ان کی دلچسپی کی پیروی کی اجازت دیتا تھا۔نوام چومسکی نے دس سال کی عمر میں پہلا مقالہ پیش کیا۔نوام چامسکی کو ابتدائی عمر سے ہی معاشرتی زندگی میں بڑھتی ہوئی طوائف الملوکی کے سموم اثرات کے بارے میں تشویش تھی۔نوام چامسکی نے خود اپنے ایک انٹریو میں ابتدائی بچین کے بارے میں بتایا کہ ایک مرتبہ والدہ کے ساتھ ٹرائی کار میں جا رہا تھا کہ کٹ پیس فروخت کرنے والی خواتین کو ٹیکسٹائل پلانٹ کے باہر مارا جارہا تھا۔یہ میرے خاندان کے لوگ تھےاور ان کا تعلق نیو یارک کی یہودی شاخ سے تھا۔کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے اعلیٰ تعلیم پائی ہو۔سب بے روزگار تھے۔زمانہ طالب علمی سے ہی نوام چامسکی کو یہ احساس تھا کہجہاں جنگل کا قانون نافذ ہوتا ہے وہاں زندگیاںپر خطر ،بے اثر ہوتی ہیں۔بارہ سال کی عمر میں نوام چامسکی ثانوی کے لئےسنٹرل ہائی سکول چلے گئے وہاں انھوں مختلف کلب اور سوسائیٹوں میں شرکت کی اور تعلیمی مہارت حاصل کی یہاں موروثی طریقہ تعلیم مشکل تھی۔بارہ سے تیرہ سال کی عمر میں انھوں نے انتشاری سیاست سے زیادہ بہتر طور پر آگاہی حاصل کر لی۔
تعلیمی سفر:
ابتدائی تعلیم Oak land country day school سے حاصل کی اور ثانوی تعلیمcentral hight school سے مکمل کی اور() سولہ سال کی عمر میں چامسکی نے جامعہ پنسلوینیا میں عمومی تعلیم کا آغاز کیا جہاں آپ نے فلسفہ،منطق،لسانیات اور عربی سیکھنے میں بنیادی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔گھر میں رہتے ہوئے انھوں نے عبرانی پڑھا کر انڈ رگریجویٹ ڈگری کے لئے وسائل مہیا کئے۔تاہم وہ اپنے یونیورسٹی کے تجربات سے بد دل ہوگئے اور اسے چھوڑنے اور فلسطین جانے پر غور کرنے لگے۔تاہم ان کے دانشور انہ تجس کی تجدید نو روسی ماہر لسانیات زینگ اسی ہیرس Zelling Harrisسے تبادلہ خیال ہوئی۔جن سے ان کی پہلی ملاقات 1947میں ایک سیاسی حلقہ مین ہوئی تھی۔ہیرس نے چامسکی کو نظریاتی لسانیات سے متعارف کرایا اور اسی مضمون میں آگے بڑھنے کے لئے قائل کیا۔
چامسکی نے 1949میں بی اے آئز امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔چومسکی کے بی اے آئز کے تھیسز کا عنوان Morphophemics of Modern Hebrewتھا۔جس میں ہیرس کے طریقے کا زبان پر اطلاق کرنا شامل تھا۔چامسکی نے 1951میں اسے دھرایا جو کہ بعد ازاں کتابی صورت میں شائع ہوا۔
نوام چامسکی کو زیلنگ اسی ہیرس جیسے نامور استاد کی مسلسل رہنمائی میسر رہی اور انہوں نے نوام کو یونیورسٹی کے نامور اساتذہ سے متعارف کرایا جن میں ریاضی دان تاتھن فالن Nathan Fineفلسفی Henry Nelon Good manاور فلسفی ڈبلیووی کوئن VanormanQuineکے نام قابل ذکر ہیں۔تعلیمی سفر کے دوران فلسفے میں دلچسپی پیدا کرنے کے والے استاد نیلن گڈ مین ہیں۔
سوسائٹی آف متعین 1951-55نوام چامسکی کو باروڈ یونیورسٹی میں جونیئر فیلوز کیا گیا۔جہاں ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے عنوان پر تحقیق ہوئی۔کیا ان کا مقالہ بن جائے گایہاں فلاسفرW.V QuineاورJ.L Atlhe(جو یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے وزٹینگ پروفیسر تھے)نے بہت متاثر کیا۔1952میں چامسکی نے اپنا پہلا علمی مقالہSystem of Synatactic Analysisلکھا جو نا صرف لسانیاتی رسالے میں شائع ہوا بلکہThe Journal of Symbolic logicمیں بھی شائع ہوا۔لسانیات میں موجودہ روایتی طریقے کے انتہائی درجے پر تنقید ہونے کی وجہ سے انہوں نے 1954میں یونیورسٹی آف شکاگو اور لیلی یونیورسٹی میں اپنے خیالات پیش کئے۔اگرچہ وہ چار سال سے پنسلو ینیا یونیورسٹی کے باقاعدہ طالب علم نہیں تھے۔میں انہوں نے ٹرانسفار مشنیل گرائمر پر مقالہ جمع کروایا ۔جس پر نوام چامسکی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔
جارج آڑمیٹسج میکرGeorge Armitage Millerنے پی ایچ ڈی کا مقالہ پڑھا تو بہت متاثر ہوئےاور انھوں نے چامسکی کے ساتھ مل کر ریاضیاتی لسانیات پر ست سے تکنیکی پیپرطبع کیے۔آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے ردلف راکر اور جمہوری سوشلسٹ جارج آرویل نے نوجوان چامسکی کو بہت متاثر کیا۔
1957 میں لسانیات نے ایک نئی کروٹ لی نوام چامسکی نے جو اس وقت سیاچوست انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پروفیسر تھے۔29 سال کی عمر میں نحوی ساخت پر کتاب لکھی اس کتاب کو جدید لسانیات کے شعبے میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔دنا بھر کی بیالیس یونیورسٹیوں نے اسکو اعزازی ڈ گریوں سے نوازا
1958 میں ایک نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے ساتھی رہے۔اس نے جدید تعلیم کے میدان مین یونیورسل تھیوری اور جنریٹو گرائمر تھیوری پیش کی۔اس نے ماہر نفسیات ،اور ماہر کرداریت کے ماہر بی ایف سکنر کے نظریہ کردار کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار ر کیا اور کردار کے بارے میں مروج و مقبول تصورات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اس سے تفکری نفسیات میں انقلاب کا آغاز ہوا۔اس کے انکار سے نہ صرف نفسیات کا مطالعہ اور تحقیق متاثر ہوئی بلکہ لسانیات ،عمرانیات اور انسانی نفسیات جیسے کئی شعبوں میں تبدیلی آئی،
چامسکی کو ماہر لسانیات کے طور پر جانا جاتاہے تاہم 1950 کی دہائی میں انقلابی نظریہ پیش کیا تھا کہ تمام زبانوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔اسکو بجاطور پر اپنے شعبے کا آئین سٹائن کیاجاتاہے۔اسکی سیاست کو موضوع پر تحریروں نے بھی عالمی توجہ حاصل کی۔یہ جدوجہد کے ایک مفکر اور ایکٹوسٹ ہیں جو نہ صرف ریاستی دہشت گردی بلکہ اقتصادی دہشت گردی کے بھی مخالف ہے
1960 کی دہائی میں ویت نام کی جنگ کے موضوع پر تنقیدی کتاب دی رسپانسی بلیٹی آف ا نٹیلکچول لکھی جس میں اس نے امریکہ کی خارجہ پالیسی پر بحث کی۔یہی کتاب اسکی عالمی پہچان کی باعث بنی۔نوام چامسکی کو آج بھی امریکہ کی سیاست میں ایک متحرک دانشور کے طور پر جانا جاتا ہے۔نوام چامسکی نے 1969 میں پہلی سیاسی کتاب امریکن پاور اینڈ نیو منڈرین شائع کی۔یہ کتاب امرکی اخت؛لاف رائے میں سب سے آگے تھی۔ نوام چامسکی کی دیگر کتب درج ذیل ہیں
• AT WAR WITH ASIA (1971)
• THE BACKROOM BOYS (1973)
• FOR REASONS OF STATE (1973)
• PEACE IN THE MIDDLE EAST (19733)
پیتھاون کتب کی طرف سے شائع ہوئیں۔ان تحریروں کے ساتھ ساتھ چامسکی با ئیں بازو کی سرگرمیوں فعال طور پر ملوث ہوگیا۔ یہ کتابیں اس نے نصف سطح پر ٹیکس کی ادائیگی سے انکار کیا۔اس نے عوامی سطح پر طالبعلمو ں کی حمایت کی اور 1968 میں طالب علموں کے احتجاج کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔اور اسکے ساتھ ساتھ ان گروپس کو بہت لیکچزر دئیے مزید برآں انکے ساتھی لونس اور اس نے ایم ائی ٹی میں سیاست پر انڈر گریجویٹ کورسز چلانے شروع کر دئیے۔اور اس دوران ایم ائی ٹی کے مختلف محکموں ،ویت نام میں جنگ کے لیے ہیلی کاپٹروں، سما رٹ بم اور انسداد بغاوت کی تکنیک پر تحقیق کر رہے تھے۔
HE said “a good deal of (nuclear) missile guidance technology was developed right on the MIT campus.”
اس نے کہا میں جب فوجی الیکٹرانکس لیب کی ریسرچ لیبارٹری میں تھا تب کچھ طالب علم ایم ائی ٹی میں جنگی تحقیق روکنے کے لئے مہم چلائی۔چامسکی کو طلباء سے ہمدردی تھی لیکن انکا خیال تھا یہ تحقیق کیمپس کے اندر ہی ہونی چاہیے۔چامسکی نے ان پر سختی کر نے کی تجویز پیش کی۔اور کہا کہ نظام کا اس دوران دفاعی اور مزاحمتی کردار ہونا چاہیے۔اس دوران ایم ائی ٹی کے چھ مخالف ایکٹوستوں کو قیدی سزا سنا ئی گئی تھی تاہم چامسکی کی جدو جہد کو یورپ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
1970 ۔1980 کے اختتام پر نوام چامسکی کی اشاعتیں ہر طرف پھیل چکی تھی۔یہ تنقیدی جائزہ پیش کرنے والوں کے لئے صاف پیغام تھیں۔ چامسکی اپنے تنقیدی خیالات کی بدولت جلد تنقید کرنے والوں کے دائرے میں آگے اور دائیں بازؤں کی جماعتوں نے آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا۔ان میں ایلن درشوٹز کا نام قابل ذکر ہے۔یہ چامسکی کو ایک مکمل جھوٹا سمجھتا تھا اور چامسکی کو ان کے خیا لات توڑموڑ کر پیش کرنے پر اسکو گالی گلوچ بھی کرتا تھا۔
1970 کے آغاز میں ایڈورڈ نے چامسکی کے ساتھ مل کر ایک کتاب کونٹر ریورشنری وائلنس ۔بلڈ باتھسس فیکٹ اینڈپروپیگنڈا لکھی۔ اس کتاب میں امریکی جارحیت کو شمالی ایشیا میں آڑے ہاتھوں لیا گیا۔1979 میں ایک اور کہانی نویس میکیلرٹ کے تعاون سے اس کتاب کو نئی شکل دینے کے بعد دو جلدوں میں اشاعت کروائی۔اس کتا ب میں امریکی میڈیا کا مشرقی میڈیا سے موازنہ کیا۔چامسکی نے مشرقی میڈیا میں خاص دلچسپی لیتے ہوئے ایک خا ص وفد کے سامنے اپنا موقف واضح کیا اس پر مخالفین نے چامسکی کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی اسطرح چامسکی کی شہرت کو نقصان پہنچا۔
اسکو آزادی رائے سے دلی لگاؤ تھا اس نے 1980 میں ایک فرانسیسی کتاب کی اشاعت کروائی جس پر فرانسیسی حکومت آپے سے باہر ہوگئی اور چامسکی کو برا بھلا کہا۔
1985میں اس نے منگوا کا دورہ کیا مہاجرین اور مزدوروں سے ملاقات کی اور انکو لسانیات اور سیاست پر لیکچر دئیے۔یہ لیکچر 1987 میں شائع کیے گئےاس نے 1983 میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان محاذ آرائی کی وضاحت اپنی کتاب ڈی ٖفیٹ فل ٹرائی اینگل میں کی۔اس نے امریکہ کو اسکا اصل ذمہ دار قرار دیا۔اس نے متاثر شدہ علاقوں کا دورہ بھی کیا اور اسرائیل کی جارحیت کے گواہ بنے۔
1980 کے اختتام تک اسکے بہت سے شاگرد ماہر لسانیات بن چکے تھے اور انہوں نے اپنے استاد کے جنریٹو گرائمر کے نظریات کو مزید وسعت دی۔یہی وجہ ہے کہ 1980 کے اختتام پر بین الاقوامی سطح پر چومسکی کو شہرت حاصل ہو چکی تھی۔ 1988 میں اس نے ہرمن کے ساتھ ملکر ایک کتاب ڈی پولٹیکل ایکنامی آف ڈی ماس میڈیا شائع کی۔اس کتاب کے ذریعے ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے کو سمجھنے کے لیے پرو پیگنڈا ماڈل کا خاکہ پیش کیا۔ اور اس میں تجویز پیش کی کہ خبر کی اشاعت سرکاری سنسر شپ کے بغیر نہ کی جائے۔بلکہ ہر خبر کو اشاعت سے پہلے چار فلٹر سےگزارا جائےاسکا بڑا حصہ اس بات پر مبنی تھا کہ کہانی کس طرح رپورٹ کی جائے۔پیٹر اور مارک نے 1992 میں فلم بناتے ہوئے اس کتاب کی پیروی کی۔
1990 کے بعد نوام چامسکی کی سرگرمیاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئیں آپ نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔مشرقی تیمورس کی آزادی کی تکمیل کے لیے 1995 میں آسٹریلیا کا دورہ ایسٹ تیمورس ریلیف ایسوسی ایشن اور نیشنل کونسل فار ایسٹ تیمورس کی ھکم کی تعمیل کرتے ہوئے کیا۔اس دورے کے دوران اس نے اپنا موقف مشرقی تیمورس کی صورتحال کے بارے میں دیا۔جو پاور اینڈ پرا سپکٹس کے مضمون میں شائع ہوا۔وولف گینگ کے مطابق چامسکی نے تیمورس کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ۔ ایسٹ تیمورس نے1999 میں آسٹریلیا سے آزادی حاصل کی اور جب آسٹریلیا نے امن قائم کرنے کے لیے وہاں انٹرنیشنل فورسز بھیجی تو اس نے آسٹریلیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسکا مقصد تیمورس کے آئل اور گیس تک رسائی حا صل کرنا ہے نہ کے تیمورس میں امن قائم کرنا۔
نوام چامسکی ماہر لسانیات ہیں مگر انکی عالمی شہرت کی وجہ نقاد کے طور پر ہے انکا تعلق بائیں بازو کے گروپ سے ہے،آپ نظریاتی طور پر لبرلٹیرین سوشلسٹ ہیں۔آپ کی شخصیت محض علمی ،فکری تحریروں اور تقریروں تک محدود نہں بلکہ آپ بطور ایکٹویسٹ بھی جانے جاتے ہیں۔چامسکی نے نہ صرف اپنے ملک امریکہ کےاستعماری کردار کے خلاف قلم اور زبان کے ذریعے حقائق بیان کیے بلکہ وہ امریکہ، یورپ ،جنوب مشرقی ایشیا ،افریکہ ،اور لاطینی امریکہ جہاں کہیں بھی عوامی تحریک کی ترف سے دعوت ملی وہ وہاں شامل ہوتے ہیں۔
11 ستمبر 2001 کے بعد دنیا کے منظر نامے میں تبدیلی آئی اور چامسکی کے وسیع پیمانے پر انٹرویوز لئیے گئے جو اکتوبر میں سیون سٹوریز پریس میں شائع کیے گئے۔انکی تقریروں کو بایئیں بازو کے علوہ دائیں بازو کے مفکرین اور صحافیوں نے بہت پسند کیا۔اس نے دلیل دی کہ دہشت گردی پر جنگ کو ئی نئی چیز نہیں بلکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی بیان بازی تک محدود ہے ۔
2001 میں ہی انہوں نے ڈی- ٹی لکڈوالا لیکچر نئی دہلی بھاارت میں دیا۔ 2002 میں ترکی کا دور کیاجب وہاں کے پبلشر پر چامسکی کی کتاب کی پرنٹنگ کے باعث غداری کا الزام لگایا گیا اس دوران اس نے ترکی کے پست علاقوں کا دورہ کیا اور انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کی۔2003 میں لاطینی امریکی کے سماجی سائنسدانوں کی ایسوسی ایشن کے مدعو کرنے پر کیوبا کا دورہ کیا۔اس دوران اس نے پاکستان کا دورہ بھی کیا اور لاہور اور اسلام آباد کے مقامات پر لیکچرز دئیے ان لیکچرز کو کا فی پسند کیا گیا۔
نوام چامسکی نے کہاکہ:
’’امریکہ کیلئے پر تشدد لوگ خطرہ نہیں ہیں بلکہ امریکہ ان پر امن لوگوں سے خوف زدہ ہے جو تبدیلی کا فلسفہ بھی رکھتے ہیں‘‘
نوام چامسکی نے سما جی فورم سے 2003 میں مکمل طور پر پڑھانے سے استعفی دیا لیکن انہوں نے تحقیقی کام اور سمینار میں شمولیت کو جاری رکھا۔
چامسکی نے 2010 میں جن کتابوں کی اشاعت کی اُن میں سے دو اہم غزہ ان کرائسز اور ہوپس اینڈ پراسپکٹس ہیں، 2016 میں انکی نئی کتاب ہو رولز ڈی ورلڈ شائع ہوئی۔
نوام چامسکی نے ڈیموکریٹک نامی نیوز ویب سائیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ پروپیگنڈے کے ذریعے دعوی کرتا ہے کہ ایران دنیا کے امن کے لئیے سب سے بڑا خطرہ ہےلیکن امریکی سروے اداروں کے مطابق دنیا میں رہنے والی عوام امریکہ اور اسکے حامیوں کو دنیا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ شادی اور بچے۔
نوام چامسکی1947 میں اپنے بچین کی رفیق کار ساتھی ،ہم جماعت ایجوکیشن سپٹلسٹ کیرول ڈومین شاٹرCaralDarlsSohatsکے ساتھ رومانوی رشتے میں بندھےاور دونوں نے 1949میں شادی کرلی۔دونوں ہم خیال تھے۔ان کی شادی کامیاب رہی۔
بچوں کی تعلیم وتربیت پر دونوں نےبھرپورتوجہ دی۔شادی کا یہ بندھن 69سال تک نہایت خوش اسلوبی سے برقرار رہا اور نوام چامسکی کی وفاستعار اہلیہ کیرل ڈورس کینسر کے عارضے میں مبتلا ہو کر(2008-1949) میں وفات پائی گئیں۔نوام چامسکی نے چھپاسی سال کی عمر میں چالیس سال ولیریا سریسن(Valeria Wasserman)سے 2014میں دوسری شادی کر لی۔
مذہب :
نؤام چامسکی خود کو مذہبی لحاظ سے ملحد بتاتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ
"میں سوچتا ہوں مذہب کا مثبت کردار ہے،مغربی تہذیب کو لیا جائے کیتھولک چرچ نے ضرورت مند افراد کی مدد کرنے میں ایک معزز کردار ادا کیا ہے "
چامسکی کا مذہبی اور حیاتیاتی ورثہ یہودی ہے انہوں نے اکثر بات کی اپنے تجربات کی بنیاد پر یہودی دشمنی کی بات کرتے رہے ہیں لیکن متنازعہ ہونے کے باوجود اس بات پر زور دیا کے یہود دشمنی امریکہ میں تھی لیکن اب غائب ہوگئی سوائے اس کے طاقتور یقین کرنا چاہتا ہے کہ وہ اب طاقت رکھتا ہے ،تاہم یہود دشمنی اب کوئی مسئلہ نہیں رہا وہ ملحد ہیں اور دین میں ان کی مذمت شدید رہی ہے:
میں خدا کے لیے کس طرح کی وضاحت کرسکتا ہوں میں ایسا نہیں کرسکتا.
وہ کلاسیکی نقطہ نظر پر مرکوز ہیں اور قبول کرتے ہیں کہ 'مذہب اچھے کے لیے پیشکش کرتا ہے ،لوگوں کے لیے کمیونٹی ،یکجہتی اور سکون کر سکتی ہے
ایک یہودی کے طور پر ابھرنے کے باوجود چامسکی موجودہ دور میں ملحد ہیں آپ آزادانہ سوچ، تیز فہم اور عمل سے پہچانے جاتے ہو آپ معاشرتی عالمی کانفرنسوں میں شرکت پر متحرک جماعتوں اور یونیورسٹی سیمینار میں ایک بڑی تعداد کے سامنے بولنے کو ترجیح دیتے ہیں. آپ کو کبھی بھی شہرت کی خواہش نے متحرک نہیں کیا، آپ جدید آرٹ اور میوزک میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں وہ اپنے آپ کو ایک مزدور کے طور پر پیش کر تے ہیں. آپ زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ترین انسان ہیں
انارکیبٹ:
1951سے1955 تک نوام چامسکی ہاروڈ یونیورسٹی سے منسلک رہے۔ 1953میں نوام چامسکی نے ہاروڈ سے اجازت لیکر یورپ کی سیر کی۔انگلینڈ،فرانس اور سوئزرلینڈگئے۔پھر اٹلی گئے۔اسی دورے کے دوران انھوں نے چھے ہفتے نئے قائم سندہ اسرائیل میں قیام کیا۔تاہم چومسکی کو اس ملک میں یہودی قوم پرستی اور عرب مخالف نسل پرستی اور سٹالین کا طریقہ جو (Kibbutz) کیٹس کے بائیں بازو کے طیفے میں تھا دیکھ کے مایوسی ہوئی۔
نیویارک آمد کے دوران چامسکی (یاڈیش)Yiddishانارکیسٹ متعارف ہوئے۔چومسکی نے روڈالف راکر کی تصینف (Spain the tragedet) کا کم عمری میں مطالعہ کیا تھا۔جنہوں نے اناکیسٹ(انتشاریت)اور کلاسیک ازم کے درمیان تعلق کو متعارف کروایا۔دوسرے سیاسی مفکرین جن کو نوام چومسکی نے پڑھایا ان میں انار کیسٹDiego Abad de Satlanجمہوری اشراکیت پسند جارج آرویل (Georg Orwell)،برٹرنڈرسل(Bertrand Russell) اور ڈوائٹ میکڈونلڈ (Dwight Mocdonald)شامل تھے۔ان تحریروں سے چومسکی قائل ہوئے کہ انارکیسٹ معاشرے کی ضرورت ہے۔
ابتدائی شعبہ(1955-1966)
نوام چامسکی امریکی ماہر لسانیات جیسے بعض اوقات بابائے (جدید لسانیات)مذکور کیا جاتا ہے۔چامسکی کے تنقیدی فلسفے کا ایک بڑا حصہ شخصیت اور ادراکی سائنس کے موجدین میں ہیں۔
وہ مسیا جوٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں متقاعد انسٹیٹیو ٹ پروفیسر ہیں جہاں وہ1955 سے کام کر رہے ہیں ابتدا جرمن زبانیں پڑھانے سے کی تھی آج نوام چامسکی لسانیات و سیاست اور ذرائع ابلاغ جیسے موضوعات پر سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔
تحقیق کے مطابق نوام چامسکی کسی بھی مدت میں آٹھویں سب سے بڑے حوالہ کئے جانے والے مصنف ہیں۔
1955میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔اسی سال آپ نے (MIT)میں انسٹیٹیو ٹ آف ٹیکنالوجی میں پڑھانا شروع کیا۔1957میںSyntactic Structures نحوی ساخت شائع ہوئی۔جس کی وجہ سے وہ لسانیات کے میدان میں نمایاں پر ابھرے۔اس معرکہ آرا تصنیف کو پوری دنیا میں پذیر ائی ملی۔
لسانیات میں شراکت :-
نؤام چامسکی نے زبان کا مطالعہ کرتے ہوئے زبان اور ذہین اور ذہین کے فلسفے کو متاثر کیا اور دو سو سے زائد کتابیں اور بے شمار مقالات لکھے چالیس کے قریب کتب شبعہ لسانیات کی ترویج میں معاون ہیں.
گرامر کیا ہے ؟ گرامر طے کرتی ہے کے کسی زبان میں مختلف الفاظ جملوں قضیات اور اصولوں کی ترتیب کیا ہونی چاہیے کسی زبان کی کی نحوی ترکیب ممکن ہے تو کہاں تک ؟
نؤام چامسکی نے کی ایسی تراکیب جو ممکن نہیں جینرک گرامر کے نام سے الگ کی ہیں.
لسانی گرامر کے بارے میں چامسکی کا خیال ہے کہ اس وسیلے سے اظہار و ابلاغ کے لیے اور در کھلتے چلے جاتے ہیں. اس عمل کے دوران ایسے جوڑے یا سیٹ بنتے ہیں جو صوتیات ،نحویات اور لسانیات میں کلیدی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں. نؤام چامسکی نے ایک ادراکی ماڈل کے ذریعے لسانی عمل کی تفہیم کی کوشش کی ہے.
اشارات—–پی ایم—–نحوی نمائندگی
دیگر اطلاعات – – – – آئی—–لسانی نمائندگی
——————ایس – – -صوتی نمائندگی
نؤام چامسکی نے ایس آئی کی صورت میں لسانی جوڑے کو اپنے ماڈل میں جگہ دی ہے. ایس سے مراد صورتی نمائندگی لی گئی ہے جبکہ آئی کو لسانی نمائندگی کا مظہر قرار دیا ہے جو بیان کی تشریح اور توضیحی کی استعداد رکھتا ہے. یہ ایک لسانی ماڈل ہے اس کا تعلق آوازوں اور مفاہیم سے ہے ادراکی ماڈل کو ہی پی ایم کا نام دیا ہے جو لسانی گرامر کی نمائندگی کا آئینہ دار ہے.
نحوی ساختیں :
لسانیات میں نؤام چامسکی کی پیش کردہ تھیوری نحوی ساختیں اہم کردار ادا کرتی ہیں. 19577 میں پہلی مرتبہ قواعد کے تغیرات کا نظریہ ایک مقالہ میں پیش کیا اور رسمی طریقہ ترکیب نحو کے متعلق تفصیل بیان کی. جملے کی ساخت کے اصول کیا ہیں ؟
اس اصول کے تحت جملوں کو چھوٹے حصوں میں کیسے تقسیم کیا جاسکتا ہے ؟ چامسکی کہتے ہیں تخلیقت کے عنصر کی موجودگی میں صرف ماضی اور حال ہی نہیں مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والی زبان کے بارے میں جان سکتے ہیں. چامسکی کہتے ہیں گرامر کی ذمہ داری فقط قدیم ساختوں کا بیان نہیں ہونا چاہیے بلکہ ماہر لسانیات کے لیے لازم ہے کے وہ گرامر کے داخلی قوانین بھی مرتب کرے جو بولی کے ہر فرد کےلیے الگ قابل استعمال ہوں. نحوی ساخت طے کرتی ہے مختلف جملوں میں الفاظ کی ترتیب کیا ہونی چاہیے.
چامسکی کہتے ہیں کہ ماہر لسانیات کا کام ہے وہ گرائمر لکھے اور گرائمر مشین کی طرح ہو جو کسی زبان کے جملوں کی تشکیل کرے مگر یہ تشکیل متناہی وجود کی نہ ہو بلکہ وہ جملے جو ابھی بولے نہیں گے ان کی پیشن گوئی کرنی چاہیے یعنی مستقبل میں کیا کیا جائے گا جیسے کوئی بولنے والا کرسکتا ہے.
ناؤم چامسکی کی کتاب سینٹک سٹریکچر ساخت موٹر جو کی3ڈچ پبلشر تھا اسے لسانیات کے علم میں اضافہ سمجھ کر قبول کیا گیا بعض پرانے ماہرین لسانیات نے چامسکی کے خیالات کو تنقید کا نشانہ بنایا اس کے برعکس جدید لسانیات نے اس تحقیقی مقالے کو قبول کرلیا.
چامسکی کے تنظیمی ڈھانچے
چامسکی زبانوں میں مختلف قسم کی تحقیقات کے لیے شمور ہیں۔چومسکی کہتے تنظیمی ڈھانچےمیں مختلف زبانوں کا منظقی ڈھانچہ موجود ہوتا ہے۔جو نحو کے تعلقات کو بنیادفراہم کرتا ہے۔اورزبان کے اندردرست جملوں کے لیے مقرر کردہ آلات فراہم کرتا ہے۔اور تنظیمی ڈھانچےاظہارکی طاقت کو بڑھانے کے لیے مختلف گروپوں اور کلاسوں میںتقسیم کرتے ہیں۔ہر کامیاب کلاس سے رسمی زبانوں کے لیے وسیع تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔نوام چومسکی دلیل دیتے ہیں کہ انسانی زبان کے کچھ پہلووں میں زیادہ پیچیدہ رسمی گرائمر کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہر کامیاب طبقہ با ضابطہ بانوں میں ایک وسیع تربیت حاصل کرتا ہے۔علامات باحروف کا سیٹ لامحدودکی طرف جاتا ہے۔مثال کے طور پر انگریزی باقاعدہ زبان کے طور پر طاقتور زبان ہے۔لیکن انگریزیMorphology ماڈل انگریزی نحو کے لیے زیادہ طاقتور نہیں ہے۔
لسانیات میں اہم ہونے کے علاوہ نوام چامسکی کا تنظیمی ڈھانچہ نظریاتی کمپیوٹر سائنس Theoretical computer Science اور خاص طور پر پروگرامنگ نظریہPrograming Language Theory تدوین کا ڈھانچہ Computer Constructionاور حرکی نظریہ Automatic Theoryمیں معاون ہے۔
تغیر تخلیق گرائمر
تخلیقی گرائمر کی تبدیلی کا آغاز نوام چامسکی نے ۱۹۵۷ سے کیا اور منطقی ساخت کو چیلنج کرتے ہوئے گرائمر کی تبدیلی کو متعارف کروایا۔تبدیلی گرائمر Transformational grammar کا تعلق دراصلتخلیقی گرائمرسے ہے،جو نقطوں،جملوں کی تربیت کے لیے تنظیمی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔چامسکی کا خیال ہےزبانوں کی نوعیت خلقی اور فطری ہے۔ان زبانوں میں جو اختلافات دیکھنے میں آتے ہیں ان کے پس پردہ اظہارو ابلاغ کی تیزی سے فکروخیال کی حد بندیاںفہہم وادراک مقداروں کا یقین کے معاملات کارہیں جھنیں زبان پر حاوی کر دیا جاتا ہے۔
فرض کریں چامسکی کی تھیوری یا نظریہ سطحی ڈھانچہ Surface Structure اور گہرے سطحی ڈھانچہ Deep Surface Structureپر مشتمل ہے،سطحی ڈھانچہ کا تعلق بولنے سے ہے جبکہ گہرے ڈھانچہ کا تعلق سوچ و تصورات و الفاظ اور معانی سے ہے۔Transformational grammarتبدیلی گرائمر کا تعلق دراصل تخلیق گرائمر سے ہے جو لفظوں جملوں کی تربیت کے لیے سطحی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے(بالکل ریاضی کے اصولوں و قوانین کی طرح) قوانین کی حدود پر مشتمل ہے۔
Deep Surface Structureگہرے سطحی ڈھانچہ کو منتظم انداز میں تبدیل کیا جا سکتا ہےاسطرح تبدیلی گرائمر کا تعلق الفاظ اور معانی سے ہے۔
تغیرت ساخت
چامسکی کا ٹرانسفارمیشن کے تصور کی تشکیل میں اہم کردار رہا ہے۔یہ کئی صدیوں سے ڈھلی ڈھالی تعریف کے ساتھ استعمال ہورہا تھا۔یہ وہ فارمولے ہیں جن کی مدد سے کسی زبان کے جملے ایک دوسرے میں بدلے جاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ٹرانسفر مشن مختلف جملوں میں موجود تعلق اسطرح دیکھاتی ہے جو صstructurePhrase کی مدد سے ممکن نہیں۔
اس کی آسان سی مثال انگریزی میں Activeکی میں تبد یلی ہے۔
چامسکی نے قائل کرنے والا دعوی کیا کہ اگر ہم ان سادہ جملوں سے شروع کریں جو سیدھے سادھے سے تشکیل پاتے ہیں (جیسے وہ زبان کا کہتے ہیں)تو ٹرانسفرمشن کے تسلسل سے ان سے کئی پیچیدہ جملے بنائے جا سکتے ہیں۔چامسکی کہتے ہیں ہی نہیں بلکہ سوالیہ ،منفی اور دیگر جملے کو استعمال کرتے ہوئے بنائے جا سکتے ہیں۔
اگر کوئی جملوں کی تشکیل کے لیےمتن بنانا چاہتا ہے تو اسے structurePhrase پہلے شامل کرنا پڑے گا پھر ٹرانسفارمیشن اور تیسری صوتیات کی سطح یعنی قواعد کا وہ سیٹ جو آ خری ٹرانسفارمیشن سے تشکیل شدہ آخری بڑی کو صوتی سلسلہ میں بدل سکے۔ایک نقظہ نظر سے بولنے والی مشین ہے جو جملوں کی تشکیل کرتا ہے۔اور گرائمر دیکھنے سے اہم اس طریقہ تک پہنچ سکتے ہیں جس سے لوگ حقیقت میں بولتے ہیں۔
ہر بچہ زبان سیکھتا ہے،اس لیے ہر بچہ گرائمر کی ایک تھیوری تشکیل کرتا ہے اور جلد ہی جملوں کی تشکیل شروع کر دیتا ہے جو اس نے کبھی نہیں سنے ہوتے۔چامسکی زبان کے تجزیے میں معانی پر غور کرنے کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں گرائمر بغیر معانی کے کسی حوالے سے جملے تشکیل دے سکتی ہے تاہم چامسکی اس بارے میں فکر مند نہیں کہ گرائمر تک کیسے پہنچا جائے اس لیے ماہر لسانیات مکمل آزاد ہیں۔کہ وہ عملی طور پر معانی پر غور سے اخذ شدہ اندازے استعمال کریں ایک بار گرائمر کی تشکیل ہو جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ بہت سی توسیع ، ٹرانسفارمیشن اور ایسی مزید چیزیں آپس میں تعلق رکھتی ہیں۔
جنزیٹوزم
چامسکی نے لسانیات میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا ہے،جیسے جنزیٹوزم کہا جاتا ہے۔جنزیٹوزم دنیا کے لئے نئی گرائمر کی ابتدا ہی نہیں ہے بلکہ یونیورسل کی طرف ماہرین کو از سر نو متوجہ بھی کرتی ہے۔جنزیٹوزم گرائمر کی اصلاح ان کلیوں کے متعلق ہے جو ایسے جملے سمجھنے کے قابل بتاتی ہے جن سے ہم مکمل انجان ہوتے ہیں۔جنزیٹوزم گرائمر کی وجہ سے ہر ایک کہتا ہے جیسے" وہ کہتا ہے "کے بجائے یوں "ہے کہتا وہ جیسے' یا یہ کہ' بٌوب اور اس کو سے مراد کسی جملے میں ایک شخص ہو سکتا جیسے کہ بوب اس کو پیار کرتا ہے۔مگر ایسے جملے میں ہو سکتا ہے جیسے بوب جانتا ہے کہ اس کا باپ اس کو پیار کرتا ہے۔
جنزیٹوزم گرائمر کے لیے کسی گرائمر یا نصابی کتب کی ضرورت نہیں ہوتی یہ محض وضاحت کرتی ہیں کہ کسی زبان میں گرائمر کے لحاظ سے درست کیا ہےیا غلط کیا۔جنزیٹوزم گرائمریونیورسل گرائمر کی طرف لے جاتا ہےیہ خلقی اصول ہے۔
یونیورسل گرائمر
نوام چامسکی بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے سب مشہور با اثر جدید ماہر لسانیات نے یونیورسل گرائمر کا نظریہ بی الف سکنر کے ردس پیش کیاجن کا نقطہ نظر یہ تھا کہ بچے دنیا میں آتے ہیں تو ان کا ذہن خالی سلیٹ کی طرح ہوتا ہے۔
چامسکی نے زبان کے بارے میں کئی مدلل دعوے کیے ہیں۔خاص طورپر یہ کہ وہ زبان کو ایک خلقی استعداد قرار دیتے ہیں۔یعنی زبان کے متعلق قواعد کا ایک سلسلہ پیدائشی طور پر ہمارے دماغ میں موجود ہوتا ہے جس کو یونیورسل گرائمر کہا جاتا ہے۔
یونیورسل گرائمر ہی وہ بنیاد ہےجس پر تمام انسانی زبانوں کی تشکیل ہوتی ہے۔بچے محض اپنے اردگرد سے بنی ہوئی زبانوں کی تشکیل ہوتی ہے۔بچے محض اپنے اردگرد سے بنی ہوئی زبان کی سادہ نقل نہیں کرتےوہ اس سے قواعد اخذ کرتے ہیں جن کے استعمال سے وہ ایسے جملے بناتے ہیں جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں سنے ہوتے ۔
چھوٹے بچے جب نئی نئی زبان سیکھتے ہیں بغیر کسی رسمی تعلیم کے I playسےI am playپر چھلانگ لگاتے ہیں۔بچہ اپنے والدین کو سننا شروع کرتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر پہچان لیتا ہے وہ کس قسم کی زبان میں معاملہ کر رہا ہے ۔اسے پرامیٹر ز پست کرنا کہتے ہیں۔یعنی بچوں کے دماغوں میں پیدائشی طور پر یونیورسل گرائمر کی بنیاد ہوتی ہے۔اس گرائمر میں کچھ امکانات موجود ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی جملے میں لفظوں کی ترتیب کچھ زبانیں،فعل وفاعل اور مفعول کی اساسی ساخت کی حامل ہیں جیسے
The teacher gave a lacture.
دنیا کی ۷۵ فیصد زبانیں یہی ساخت استعمال کرتی ہیں۔مثلا
فعل،فاعل اور مفعول جن میں جاپانی،تبتی اور کورین شامل ہیں۔جبکہ دوسری فعل،فاعل اور مفعول والی ساخت استعمال کرتی ہین جیسا کہ ولنوبڑی اور اسکے علاوہ ملا کینری زبان فعل و فاعل اور مفعول کو استعمال کرتی ہے۔
کچھ زبانوں مثلا لاطینی میں الفاظ کی آزادانہ ترتیب سامنے آتہ ہے۔کچھ الفاظ فعل کا سا برتاو کرتے ہیں اور کچھ اسم کااور یہ ایک جملے میں ان ترتیب کے محدود ممکنات ہوتے ہیں۔یہ معلومات بچوں کو براہ راست نہیں سیکھاتے بلکہ انھیں معلومات معانی کی تفہیم کے لئے دی جاتی جاتی ہیں۔پیدائشی طور پر موجود سیکھنے کے آلات کے سیٹ کو چومسکی اکتساب زبان کا آلہ کہتا ہے۔
یعنی زبان کی کچھ استعداد خلقی ہوتی ہے اور تمان زبانوں کے لئے ایک یونیورسل گرائمر موجود ہوتی ہے۔
یونیورسل لینگویج :
نؤام چامسکی کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ چونکہ تمام انسان ایک سے ہیں اور تمام انسان کوئی نہ کوئی زبان بولتے ہیں تو لازمی ہے کہ تمام زبانوں میں کچھ عناصر کلیات کے درجے پر موجود ہوں چامسکی کہتے ہیں" انسان ایک جیسے ہیں تو یقیناً زبان بولنے کا داخلی نظام بھی ایک جیسا ہے مثلاً
انسان لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا وہ جنگلوں ،پہاڑوں ،دریاؤں اور سمندری ساحوں پر رہنے کے دوران آواز کا استعمال کرتا تھا. جب ہم خوش ہوتے ہیں تو قہقہ لگا کر ہنستے ہیں اور بعض لوگوں کی آواز تو کئی فرلانگ تک سنی جا سکتی ہے.
سگنل لینگویج غصہ ،ناراضگی ،دکھ ،خوشی کی آواز سے ہر ایک آشنا ہے.
اشاروں کی زبان بھی یونیورسل ہے پانی پینے کے لیے چلو کا استعمال ہو یا کسی کو بلانے کے لیے ہاتھ کا اشارہ سب سمجھتے ہیں،اس کی بہترین مثال گویائی سے محروم بچوں کے سکول میں نظر آتی ہے.
آثار قدیمہ کی کھدائی سے بہت سے پتھر پکٹوگرافیکل لینگویج اس کے بعد تصاویر کی زبان یعنی چھڑیاں ،لہریں اور مورتیاں ملی ہیں اس کے علاوہ پہاڑوں پر تصاویر کی زبانوں کے دنیا بھر میں بہت سارے نمونے مل چکے ہیں.
اس وقت دنیا کی بہت بڑی آبادی چین میں 130کڑور6،جاپان میں 13کڑور اور کوریا میں 77کڑور افراد تصاویر زبان میں تبادلہ خیال کرتےہیں.
چامسکی مزید کہتے ہیں کہ گزشتہ سو سال قبل 8000سے زائد زبانیں بولی جاتی تھیں جو اب تقریباً 6000 رہ گئی یعنی زبانیں ایک دوسرے میں مینضم ہو رہی ہیں ایک دن آئے گا دنیا میں صرف ایک زبان بولی جائے گی.
چامسکی کہتے ہیں "اس دنیا میں سات زبانیں ایسی ہیں جن میں دیگر زبانیں مدغم ہورہی ہیں وہ انگریزی ،اسپینش ،روسی،سوہالی ،مینڈیرین ،انڈونیشین اور ہندی ہیں(واضح رہے انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے6مطابق اب ہندی اور اردو الگ الگ زبان کے بجائے ایک ہی زبان ہے۔
انڈیپنڈنس آف گرائمر :
چامسکی کہتے ہیں لسانیات گرائمر کی ترتیب سے مختلف ہے یا زبان میں استعمال ہونے والے جملے بغیر گرائمر کی ترتیب کے ہیں، گرائمر کے لحاظ سے جملے یعنی وہ جملے جو الہامی طور پر فل بدیہی بولے جائیں خالص بولنے کے قابل سمجھے جاتے ہیں یہ جملے نارمل لہجے کے جملے کے طور پر بولے جاتے ہیں بات جلدی اور آسان جملے میں کہی جا سکتی ہے.
چامسکی تین ایسے طریقے بتاتے ہیں جن سے معلوم کیا جا سکے کیا جملے گرائمر کے مطابق ہیں یا نہیں؟
پہلا گرائمر باڈی کی ضرورت نہیں، دوسرا معنی خیز ہونے کی ضرورت نہیں، تیسرے شماریاتی اعدادوشمار کی ضرورت نہیں.
چامسکی کہتے ہیں یہ تینوں نقاط نا معقول جملوں میں استعمال ہوتے ہیں، بے اختیار جملے گرائمر میں "خالص انگریزی بولنے والے کے ہوتے ہیں" ان میں اس وقت باڈی، معنی اور اعدادوشمار شامل نہیں ہوتے ہیں.
چامسکی کے خیال میں گرائمر خود مختار اور مطلب سے آزاد ہے.
لسانیات اور دماغ :
بی ایف سکز دماغ کو خالی سلیٹ سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ نؤام چامسکی کے نزدیک گرائمر کے قوانین کا ایک محدود سیٹ موجود ہے نؤام چامسکی نے ڈاپرنسپل اینڈ پرایم) اپنے لیکچر میں میں تیار کیے اس میں عالمگیر گرائمر کے حوالے سے مضبوط دعوے کیے ہیں چامسکی کہتے ہیں دنیا بھر کی زبانوں کے درمیان اختلاف یا فرق دماغ میں پیرامیٹرز کی ترتیب کے لحاظ سے خصوصیات کے لحاظ سے کیا جاسکتا ہے. حصول زبان ایک فطری طبعی ساخت کے طور پر انسانی دماغ کا فعل ہے. تقریر کی تشریح اور پیداوار کو دماغ کے ڈھانچے سے کنٹرول کیا جاتا ہے. یعنی دماغ آوازوں کو تصورات سے منسلک کرتا ہے اور گرائمر کے اصول جو نظر آتے ہیں وہ صرف زبان کے اس طریقہ کار کے نتائج یا ضمنی اثرات ہوتے ہیں. مثال کے طور پر ہم اصولوں کی مدد سے اعصاب کے کام کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کرسکتے ہیں لیکن یہ قوانین یہ نہیں بتاتے کے اعصاب میں کیا وقوع پذیر ہوا، وہ اس طریقہ کار کی وضاحت نہیں کرسکتے جو دماغ یہ قوانین تخلیق کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے.
چامسکی یقین رکھتے ہیں کے انسانی دماغ میں کسی نہ کسی صورت پیشگی منظم زبان موجود ہے اور خارجی ماحول محض اس نیٹ ورک کے خط و خال سنوار کر اسے ایک خاص زبان کی شکل دیتا ہے. دماغ ہی لسانی مواصلات زبان بولنے کے مراحل اور تشریح کو کنٹرول کرتا ہے.
مہارت اور کارکردگی :
چامسکی کا مہارت اور کارکردگی کا نظریہ یہ بتاتا ہے کہ ایک مصنف کے پاس وہی مہارت ہوتی ہے جوایک کار ڈرائیور کے پاس ہوتی ہے۔ ایک کار ڈرائیور کے لیے لازمی نہیں ہے کہ وہ گاڑی کو چلاتے وقت اپنی تمام معلومات کو استعمال کرے بلکہ وہ معلومات کا صرف وہی حصہ استعمال کرتا ہے جن کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔
اسی طرح ہمارے ذہن میں زبان کے اصول اور الفاظ کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ صرف وہی حصہ استعمال کرتے ہیں جن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عمل میں دماغ کا لاشعوری حصہ کارفرما ہوتا ہے۔ ہم اپنے علم سے زیادہ کارکردگی دکھاتے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا فوکس کھو بیٹھتے ہیں ، ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کس کے لیے لکھ رہے ہیں اورکیا لکھتے ہیں۔ اس لیے ہماری تحریر اپنا اصل مقصد و مد