آج تک ہم نے اپنی آنے والی نسل کو آزادی کے بارے میں بس اتنا ہی آگاہ کیا ہے کہ آزادی کیا ہوتی ہے، آزادی کا مطلب کیا ہوتا ہے، آزادی کا مفہوم کیا ہوتا ہے، آزادی کی اقسام کتنی ہوتی ہیں،اور آزادی کا لفظ پانچ حروف سے مرکب ہے۔ آزادی کے لفظی معنی و مطالب سے تو آگاہ کر دیا لیکن کیا ہم اصطلاحی طور پر آزادی اور غلامی کا فرق اپنی نسل نو کے نرم و نازک اذہان میں پیدا کر سکے؟
بھیڑ چال چلتے ہوئے اپنے گھر کی چار دیواری پر ، صحن اور کمروں میں،خوبصورت مختلف رنگوں کی جھنڈیاں گاڑھ دینے کا نام آزادی نہیں ہے۔ ایک لمبے سے بانس کے ساتھ قومی پرچم کو گھر کی چھت پر سربلند کر دینا جو کہ محض دکھاوا ہو، یا شریکوں سے 2 گز اونچا پرچم لہرا دینا جس کا مقصد محض شریکوں کے سامنے سینہ تان کر چلنا ہو، یہ آزادی یا یوم آزادی نہیں ہے۔ 14 اگست والے دن موٹر سائیکل کے سائلنسر نکال کر پررڑڑ پرڑڑڑ کی آواز نکالنا بھی آزادی نہیں ہے۔ سینماؤں اور تھیٹرز کا رخ کرنا بھی آزادی نہیں ہے۔ آزادی تو اک عہد کا نام ہے۔آزادی اک سوچ اور نظریے کا نام ہے۔ آزادی اک اجتماعی رویے کا نام ہے۔ آزادی اس راستے کا نام ہے جو آپ کو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ بنا دے۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ابھی تک انگریز کی نو آبادیات میں رہ رہے ہیں۔ اس نے ہمیں مغلوب کیا اور ہم ہو گئے۔ اس نے ہم سے ہماری زبان چھینی اور ہم نے اجازت دی۔ اس نے ہماری تہذیب و ثقافت کو ریزہ ریزہ کیا اور ہم نے کرنے دیا۔ اس نے ہمیں خریدا اور ہم مفت میں بک گئے بلکہ ان کی گودیوں میں بیٹھ گئے۔اس نے ہم پہ رعب ڈالا اور ہم نے ڈالنے دیا۔اس نے ہمیں دبایا اور ہم دبتے ہی چلے گئے بلکہ آج تک دبے ہوئے ہیں۔ یہ حال ہو چکا ہے کہ ہم انگریز کو خود پر ذہنی برتری دیے ہوئے ہیں انگریز کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔انگریز کی بنائی ہوئی چیز کو افضل اور اعلی مانتے ہیں اور ہماری سوچ ہے کہ نہ تو ہم اس جیسی کوئی چیز بنا سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہم نے خود کو ابتر سمجھ رکھا ہے۔ ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔مفلوج ہیں نہیں مفلوج بنے ہوئے ہیں۔ کاہل ہیں نہیں کاہل بنے ہوئے ہیں۔ ہارے ہوئے ہیں نہیں شکستہ بنے ہوئے ہیں۔ ہم Rolling stone ہیں نہیں بس بنے ہوئے ہیں۔بھئی ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ غالب قوم مغلوب قوم کو اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے۔اس کا ہی حکم چلتا ہے۔وہ جو بھی کرئے وہ صحیح اور مغلوب جو بھی کرئے وہ غلط۔
مان لیتے ہیں کہ غالب کی تہذیب و تمدن کا سکہ چلتا ہے لیکن یہ سب عارضی ہوتا ہے۔ کبھی تو گرا ہوا بھی اٹھتا ہے۔کبھی تو ہارا ہوا بھی جیت جانے کے قابل بن جاتا ہے۔ کبھی تو لنگڑا کر چلنے والا بھی تن درست ہو جاتا ہے۔
ہمیشہ ہی مغلوب رہنا،ہمیشہ ہی ہار جانا،ہمیشہ ہی کھو دینا،ہمیشہ ہی دب جانا،ہمیشہ ہی مجرا بجا لانا،ہمیشہ ہی سہم جانا،ہمیشہ ہی حکم کے انتظار میں رہنا آزادی نہیں ہے بلکہ نو آبادیاتی نظام کی غلامی ہے۔
ہم ابھی تک انگریز کی نو آبادیات میں رہ رہے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے کہ اس صدمے سے نکل جائیں۔ دوسروں پر Depend کرنا چھوڑ دیں۔ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں۔ہم بھی ایجادات کر سکتے ہیں بس خود کو اہم سمجھنا لازم ہے۔ اپنے نظریات اپنی تھیوری کو مسلط ہم بھی کر سکتے ہیں۔ ہماری ثقافت بھی عالمی ثقافت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکنے کے قابل ہو سکتی ہے۔ ہماری زبان بھی غالب زبانوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ ہماری تعلیم بھی عالمی معیار پر پورا اتر سکتی ہے۔
آزادی کا نعرہ رٹ لینے کی بجائے ضروری ہے کہ ہم اک اجتماعی سوچ کو پروان چڑھائیں جو ہمیں ناپ تول میں کمی سے باز رکھے۔حلال و حرام میں تمیز پیدا کرے۔ جھوٹ بولنے سے روکے۔وہ سوچ جو ہمیں اک اکائی میں پرو دے۔وہ سوچ جو ہمیں کاہل نہ رہنے دے۔ ایسی سوچ جو ہمارے اندر اخلاقیات اور اخلاص پیدا کرئے۔ وہ سوچ جو تفرقے سے بچائے۔ وہی سوچ جو اقبال کے شاہین کو سات آسمانوں کی سیر کروائے۔وہی سوچ جو ہمیں مقابلہ کرنا سکھائے۔ وہی سوچ جو ہمیں مر مٹنا سکھائے۔وہی سوچ جو آگے بڑھنا سکھائے۔وہی سوچ جو جھپٹنا اور پلٹنا سکھائے۔ وہی سوچ اور فکر جو ہمارے دو قومی نظریے کی اساس بنی تھی۔ ہاں وہی سوچ جس نے ہمیں یہ زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے پہ مجبور کیا۔
ہم اگر آزادی آزادی آزادی کا لفظ محض رٹ لیں گے اور حقیقی آزادی یعنی ، اپنی خواہشات سے آزادی، اپنے نفس سے آزادی، ریا کاری سے آزادی، دھوکے اور فریب سے آزادی، سستی اور کاہلی سے آزادی، رشوت اور حرام خوری سے آزادی، سفارش اور تعلقات سے آزادی، چوری چکاری سے آزادی، دوسروں کا مال کھانے سے آزادی، حق تلفی سے آزادی، منافع خوری و گراں فروشی سے آزادی حاصل نہیں کریں گے تو بہت جلد وہ وقت آئے گا کہ ہم ریس میں اکیلے دوڑیں گے پھر بھی دوسرے نمبر پر آئیں گے۔ ( اللہ نہ کرئے)
[email protected]
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...