(مندرجہ ذیل تحریر اکرم ندوی کے کام پر ہے)
میں نے احادیث کی کتابیں پڑھنا شروع کیں تو ایک چیز نے چونکا دیا۔ بار بار خواتین کے نام نظر آتے تھے۔ اس تجسس کی وجہ سے میں نے اسلامی تاریخ میں دینی علوم میں خواتین کے کردار کی تاریخ اکٹھی کرنا شروع کی۔ میرا خیال تھا کہ ایک چھوٹا سا کتابچہ بنے گا۔ شاید بیس یا تیس خواتین کی سوانح ہو اور اسے ایک پمفلٹ کی صورت میں شائع کر دوں گا۔ لیکن یہ میری توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ خواتین کے بارے میں عمومی تاثر یہ رہا کہ ان کا اگر کوئی کردار رہا تو بڑا واجبی سا۔ اور دینی علوم میں تو نہ ہونے کے برابر۔ اگر انہوں نے کسی کو تعلیم دی بھی ہو گی تو صرف دوسری خواتین کو۔ یہ تاثر غلط ہے۔ دس سال میں اکٹھا کیا گیا کام چالیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ کابل سے مکہ تک اس میں نو ہزار خواتین کے کام کا ذکر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاقائی ثقافت کی روایات میں آخری دلیل کے طور پر مذہب کا سہارا لیا جانے کا رواج رہا ہے۔ اس کی ایک مثال افریقہ کے اٹھارہ ممالک میں رائج خواتین کے ختنے کی رسم ہے۔ ان علاقوں میں اس ظالمانہ فعل کا دفاع اسلامی فریضہ کہہ کر کیا جاتا ہے۔ اپنی ثقافتی روایت کے لئے مذہبی دلائل تلاش کر لئے جاتے ہیں۔ فقہ کے کام سے اس کے حوالے بھی مل جائیں گے۔ اس علاقے سے باہر کے مسلمان نہ ایسا کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس بارے میں علم ہے۔ وہ اسے سنیں تو سوال کریں گے کہ اس رسم کا بھلا دین سے کیا تعلق؟ روایت اور مذہب ہمیں اس قدر جڑے نظر آتے ہیں کہ مضبوط ثقافتی تعصبات مذہبی فریضہ سمجھ کر زندہ رکھے جاتے ہیں۔ معاشروں میں خواتین کا کردار بھی ایسا معاملہ ہے۔ تاریخ جو تصویر پیش کرتی ہے، وہ تصور سے بڑی مختلف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی تاریخ میں خواتین مباحث میں، تعلیم میں، مساجد میں نظر آتی ہیں۔ مرد و خواتین کو پڑھاتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
امِ الدرداء جو ساتویں صدی کے دمشق میں تھیں۔ مساجد میں مرد علماء کے ساتھ بیٹھا کرتی تھیں۔ تھیولوجی پر بحث میں شامل ہوتی تھیں۔ انہوں نے لکھا، “میں اللہ کی عبادت ہر طریقے سے کرتی ہوں لیکن اس کا بہترین طریقہ مجھے علماء کی محفل میں بحث کا نظر آیا ہے”۔ انہوں نے دمشق میں بھی پڑھایا اور یروشلم میں بھی۔ ان کی کلاس میں شاگردوں میں بڑے نام تھے۔ ایک نام خلیفہ عبدالمالک المروان کا بھی تھا۔
قدیم ماریطانیہ میں فقہ کی کتاب المدونہ الکبریٰ پڑھنے والوں میں سینکڑوں خواتین تھیں۔ بارہویں صدی کے مصر میں خاتون عالمہ کو ان کے طلباء مذہبی معاملات پر عبور کی داد دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ثمرقند میں فاطمہ الثمرقندیہ شرعی امور کی جج نظر آتی ہیں۔ مفتی کے کردار میں ہیں۔ ہمیں گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر کر کے دور دراز کے شہروں میں قاضیوں اور اماموں کو پڑھانے جانے والی خواتین ملتی ہیں۔ بارہویں صدی میں بغدادی خاتون جو مصر سے شام تک لیکچر ٹور کرتی رہیں۔ پندرہویں صدی میں مکہ کی عالمہ جو عرب بھر میں سفر کر کے لیکچر دیا کرتی تھیں۔ فاطمہ بنت یحییٰ، تیرہویں صدی میں قاضی تھیں۔ ان کے شوہر بھی قاضی تھے اور مشکل معاملات میں اپنی اہلیہ سے رجوع کرتے تھے۔
گیارہوں صدی میں فاطمہ بنت سعد الخیر جو ایشیا بھر میں سفر کرتی رہیں، ان پر تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ان کے والد ہسپانوی مسلمان تھے۔ فاطمہ کی پیدائش مغربی چین میں ہوئی تھی۔ بخارا اور ثمرقند کے مدارس میں تعلیم حاصل کی۔ اصفہان میں ایک اور نامور عالمہ کے ساتھ اکٹھے پڑھا۔ بغداد میں مرد و خواتین ان سے پڑھنے آتے تھے اور قاہرہ میں ان کا انتقال 78 برس کی عمر میں ہوا۔
گیارہویں صدی میں علمِِ حدیث کی عالمہ امِ کرام کریمہ بنت احمد جنہوں نے طویل عمر پائی۔ ان سے پڑھنے دور دراز سے لوگ آتے تھے۔ امام بھی اور مورخ بھی۔ الخطیب البغدادی بھی ان کے شاگرد تھے۔ تعلیم کے لئے انہوں نے یروشلم اور اصفہان کے سفر کئے۔
ان سبکو ڈھونڈنے کے لئے تاریخ کے حاشیے، خطوط اور سفرنامے پڑھنے پڑتے ہیں۔ ۔ گمشدہ تاریخ جو برِاعظموں اور زبانوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ترکی، پاکستان، سعودی عرب سے میرے دوستوں نے مساجد اور مدارس کی لائبریریوں سے لے کر مسودے بھجوائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مجھے نو ہزار خواتین مل گئی ہیں تو یقینیاً تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔ اور یہاں صرف مقدار کی نہیں، معیار کی بھی بات ہے۔ اس کی وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے، وہ یہ کہ جہاں پر مرد زیادہ عملی کاموں میں دلچسپی لیتے تھے۔ کھیتی باڑی اور دوسرے ہنر سیکھنے میں۔ جبکہ خواتین میں صرف سیکھنے کی خاطر سیکھنے کا رجحان زیادہ تھا۔
سترہویں صدی میں یورپی کالونیل دور کے عروج کے ساتھ خواتین کے علم اور کردار پر بھی زوال آ گیا۔ معاشرتی انحطاط اپنے ساتھ رواداری کا خاتمہ اور صنفی امتیاز بھی لے کر آیا۔ مدرسہ سسٹم سے بھی خواتین بے دخل ہو گئیں۔ مسلمان کلچرز اپنی اس روایت کو بھی بھولتے گئے۔ جب لوگ کمزور پڑ جاتے ہیں تو محتاط ہو جاتے ہیں اور ایسی جگہوں پر جو زیادہ کمزور ہوں، ان کے حقوق غصب ہونے لگتے ہیں۔ گرتے معاشرے کا ایک شکار خواتین کی آزادی بھی تھا۔
یہاں تک کہ خواتین کی دینی معاملات میں آواز غائب ہو گئی۔ کمیونیٹی کے معاملات میں یا علاج معالجے جیسی چیزوں میں پھر بھی خواتین کی بات سن لی جاتی ہے۔ عدم تحفظ کے شکار معاشرے نے دینی معاملات سے تو ان کو بالکل ہی بے دخل کر دیا۔ یہ بے دخلی پہلے روایت بنی اور پھر دین سے جوڑ دی گئی۔ یہاں تک کہ کئی کلچرز میں خواتین کے لئے مسجد کا رخ کرنا بھی معیوب قرار پایا۔
عرب جاہلیہ میں لڑکیوں کو زندہ دفنایا جاتا تھا۔ کسی جیتے جاگتے شخص کی آواز بند کر دینا، اس کا گلا گھونٹ دینے کے مترادف ہے۔ اسلامی معاشرت نے خواتین کو اس سے نجات دلائی تھی۔ خدا نے جو صلاحیتیں لڑکیوں کو دی ہیں اگر ان کو پھلنے پھولنے نہ دیا جائے۔ مواقع نہ دئے جائیں تو یہی تو زندہ گاڑ دئے جانا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اس وقت تاریخ اور حال میں بہت فرق نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ جس روز میں قاہرہ میں الازہر میں خواتین کے تاریخ میں دینی علوم میں کردار پر اپنا لیکچر دے رہا تھا تو اس کو سننے والے حاضرین میں ایک بھی خاتون نہیں تھیں۔
ابو حنیفہ یا مالک جیسے اماموں کو بھی خواتین سے مسئلہ نہیں ہوا۔ ان سے سیکھنے میں مسئلہ نہیں ہوا۔ آج ایسا نہیں۔ اٹھارہوں صدی میں تھامس گرے نے انگریز کسانوں پر نظم لکھی تھی کہ دیہات کی زندگی ان کی صلاحیت پنپنے نہیں دیتی۔ دیہاتوں کے قبرستانوں میں کتنے ہی ملٹن دفن ہوں گے۔ آج مسلمان خواتین اس حالت میں ہیں۔ معلوم نہیں ہم روایت کے نام پر کتنے ہی شاہکار ذہنوں کی آوازوں کو زندہ دفن کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ان روایتوں کے نام پر جو ہماری تھی ہی نہیں۔
ان کتابوں کے بارے میں اور کام کو پڑھنے کے لئے لنک
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...